”ہم مندرجہ ذیل مسلمان اس کلام پاک پر ایمان رکھتے ہوئے عہد کرتے ہیں کہ ہم آپس میں متفق رہیں گے اور ایک دوسرے سے متفق اور وفادار رہیں گے اور گیلانی پارٹی کے اکثریت کے فیصلہ کے پابند رہیں گے۔
دستخط
ممتاز محمددولتانہ ، سید شوکت حسین گیلانی ، نام پڑھا نہیں جاتا ، محمد علمدار حسین گیلانی ، محمد انور رانانون ، فیض بخش کھوکھر ، درمحمد ، امیر محمد شاہ، ہیبت ڈاہا، سید غلام نبی گیلانی ، محمد اکرم بوسن، غلام قادر سنڈھل ، نام پڑھا نہیں جاتا، غلام محمد خان، نام پڑھا نہیں جاتا، ولی ہراج، نام پڑھا نہیں جاتا، سید احمد شاہ، نام پڑھا نہیں جاتا، محمد ریاض رانا، محمد حسین 12-9-49“
ممتاز دولتانہ نے گیلانی گروپ کی اکثریت کے فیصلے کی پابندی کاحلف اٹھایا مگر اس کے برعکس انہوں نے 1951ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نہ صرف گیلانی گروپ کو نظراندا ز کیا بلکہ اُن کے سیاسی حریف سید علی حسین گردیزی کو اپنا صوبائی وزیر تعلیم مقرر کر دیا۔ اُن کے اس اقدام سے، گیلانی دولتانہ پیکٹ ، ختم ہوگیا۔ 1988ء کے عام انتخابات میں جب میرا مقابلہ ملتان سے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی )کے سربراہ /وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد نواز شریف سے ہورہا تھا تو انتخابی مہم میں جسٹس (ر)سردار عبدالجبار خان نے میرے لیے ایک بڑے جلسہ عام کا انعقاد لطف آباد ، ملتان میں کیا۔ اس موقعہ پر انہوں نے ، گیلانی دولتانہ پیکٹ ، سے پردہ اٹھاتے ہوئے مجھے بتایا کہ آپ کے والد مسلم لیگ ضلع ملتان کے صدر اور میں سیکرٹری تھا، میں ممتاز دولتانہ کے پاس گیا کہ آپ معاہدہ کے مطابق سید علمدار حسین گیلانی کو وزیر بنائیں۔ انہوں نے کہا:
”He is already an established person.I can, t further establish him “
ترجمہ: وہ پہلے ہی سے مستحکم شخص ہیں۔ میں انہیں مزید مستحکم نہیں کرسکتا۔
ممتاز دولتانہ بمشکل ڈیڑھ برس اس منصب پر فائز رہے ۔ بعد ازاں وہ ازخود مستعفی ہو گئے جس کے اسباب یہ تھے کہ پنجاب حکومت کی زرعی اصلاحات سے زمیندار طبقہ ناراض تھا اور اسی بنا پر انہوں نے حکومت کو گندم فروخت کرنے سے انکار کردیا، نتیجتاً صوبہ بھر میں گندم کی قلت ہو گئی۔ مجلس احرار، نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کیلئے اُن کی حمایت کرنی شروع کردی۔ وفاق کو کمزور کرنے کی ضد میں وزیراعلیٰ ممتازدولتانہ در پردہ مجلس احرار، کی حمایت کررہے تھے۔ اسی دوران ، مجلس احرار ، نے قادیانی کافر کا نعرہ لگادیا۔ملک میں فسادات شروع ہو گئے ۔ لاہور کی طرح کراچی اور کوئٹہ بھی لپیٹ میں آگئے حالانکہ مسلم لیگ پنجاب پہلے ہی قادیانیوں کو کافر قراردینے کیلئے بھاری اکثریت سے قرارداد منظور کرچکی تھی۔ لاہور میں ہنگامے اس قدر بڑھ گئے کہ جنرل اعظم کی سربراہی میں وہاں مارشل لاء لگادیا گیا۔ اس طرح دولتانہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ ممتاز دولتانہ کے بعد فیروزخان نون کو وزیراعلیٰ پنجاب مقررکیا گیا۔
1951ء کے عام انتخابات میں والد کے نامزد امیدوار وں کو مسلم لیگ کے ٹکٹ دےئے گئے ۔ ان انتخابات کے سلسلے میں مسلم لیگ کا کنونشن ہمارے گھر، الجیلان، ملتان میں ہوا جس کی صدارت وزیراعظم پاکستان اور صدر مسلم لیگ نوابزادہ لیاقت علی خان نے کی۔ جلسے کے دوران وزیراعظم نے والد ، تایا ولائیت حسین اور چچا رحمت حسین کے ہاتھ تھام کرکہا:
”They are the backbone of the Muslim League.“
ترجمہ: یہ مسلم لیگ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
ان انتخابات میں بہت سے احباب نے گیلانی خاندان کی بھر پور امداد کی جن میں قابل ذکر پیر سید غلام محی الدین گیلانی المعروف بابو جی پیر صاحب گولڑہ شریف ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے 1951ء میں اپنے مریدوں کیلئے ایک خط، تحریر کیا جس کا مضمون یہ تھا:
”جملہ مخلصان جن کا تعلق جناب حضرت صاحب قبلہ مدظلہ کے ساتھ ہے اُن کو مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ جناب سید ولائیت حسین شاہ صاحب ودیگر برادران سید علمدار حسین شاہ صاحب گیلانی ورحمت حسین شاہ صاحب گیلانی کی کامیابی کیلئے خاص طورپر امداد کرتے ہوئے سعادت حاصل کریں۔
والسلام
حسب الارشاد جناب حضرت قبلہ مدظلہ
بقلم سلطان محمود بھٹی ازآستانہ عالیہ گولڑہ شریف
۳جمادی الاول بمطابق 20-2-51
از طرف غلام محی الدین شاہ گیلانی امروزہ گولڑہ شریف “
تایا ولائیت حسین نے مسلم لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے 1951ء کے انتخابات میں حلقہ مخدوم رشید ، ملتان سے آزاد امیدوارمخدوم سجاد حسین قریشی کو ایم ایل اے کی لوکل نشست پر شکست دی جبکہ مہاجر نشست پر مسلم لیگی امیدوار چوہدری محمد حنیف ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ والد نے اسی انتخاب میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر لودھراں کی معروف شخصیت سید سردار شاہ (سید ناصر علی رضوی کے سسر)جو جناح عوامی لیگ کے امیدوار تھے، کو شکست دی۔ اس انتخاب میں چچا رحمت حسین نے جلال پور پیراوالا (شجاع آباد)کے دیوان غلام عباس بخاری کا مقابلہ کیا مگر وسائل کی کمی کے سبب انتخابی مہم کو پرزور انداز میں نہ چلا سکے اور انتخاب ہارگئے لیکن اُن کے مد مقابل کیلئے یہ سرائیکی فقرہ زبان زدِ عام ہوگیا”جگ داوالی تے ووٹ چاہلی “۔ کیونکہ دیوان صاحب کو اپنے ہی گھرجلالپور پیروالا شہر سے صرف چالیس ووٹوں کی برتری مل سکی تھی۔
دادا مخدوم غلام مصطفےٰ شاہ انتہائی اعتماد کی وجہ سے میرے والد کو اپنا جانشین مقرر کرنا چاہتے تھے مگر والد نے خاندانی روایت کہ سجادہ نشیں سیاست میں حصہ نہیں لے گا، کو مد نظر رکھتے ہوئے معذرت کرلی کیونکہ وہ پہلے ہی میدان سیاست میں اپنا کردار ادا کررہے تھے۔ تایا ولائیت حسین بھی سیاست میں سرگرم تھے، لہٰذا خاندان نے تایا مخدوم شوکت حسین کے حق میں فیصلہ کردیا۔ تایا ولائیت حسین مضبوط اعصاب کے مالک ، کھرے ، نڈر اور دوستوں کے دوست تھے۔ انہوں نے بھی خلوص نیت سے اس فیصلے کا احترام کیا اورا پنے چھوٹے بھائی مخدوم شوکت حسین کے پاؤں چھو کر بڑائی کا ثبوت دیا۔ دادا کی وفات کے بعد ، اُن کے سوتیلے بھائی مخدوم غلام یٰسین شاہ گیلانی جن کی طبیعت میں سادگی اور بھولپن تھا، سجادہ نشینی کے سوال پر خاندان سے اختلاف کر گئے ۔ مخدوم غلام یٰسین شاہ نے 1951ء کے انتخابات میں دیوان غلام عباس بخاری کی مدد کی تھی، لہٰذا اس مسئلہ پر دیوان صاحب نے والد کو پیشکش کی کہ میں اُن کی آپ سے مصالحت کروادیتا ہوں۔ والد نے دیوان صاحب کی اس تجویز سے اتفاق کیا اور نتیجتاً یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے طے پاگیا ۔ اس طرح تایا مخدوم شوکت حسین تمام خاندان کی جانب سے متفقہ طور پر سجادہ نشیں مقرر ہوئے۔
تایا مخدوم شوکت حسین نے ہمیشہ والد کا ساتھ دیا اورزندگی بھر ان کے سیاسی فیصلوں کی حمایت کی۔ ان کی رفاقت انمول اور بے مثل تھی۔ انہیں 1945 ء میں مسلم لیگ ضلع ملتان کا نائب صدر منتخب کیا گیا۔ اس وقت یہ تاثر عام تھا کہ مسلم لیگ ملتان صرف گیلانی خاندان کی جماعت ہے۔ اس تاثر کو ختم کرنے کیلئے تایا نے رضا کارانہ طور پر اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ 1949ء سے 1982 ء تک سجادہ نشین رہے۔ دین کی شبانہ روز تبلیغ کے ساتھ ساتھ والد اور ان کے چھوٹے بھائی سید فیض مصطفیٰ کے شانہ بشانہ تعلیم کے میدان میں بھی انقلابی کارنامے انجام دیئے۔ ان کے دور میں مریدوں کا حلقہ مزید وسیع ہوا۔
والد نے کئی خاندانوں کے ساتھ روایتی تعلقات کو رشتوں میں بھی بدل دیا۔ انہوں نے اپنی ایک بھتیجی کی شادی سجادہ نشین درگاہ اوچ شریف مخدوم سید شمس الدین گیلانی کے بڑے بیٹے سید مختار حسن گیلانی اور دوسری بھتیجی کی شادی دربارحجرہ شاہ مقیم اوکاڑہ کے گدی نشین پیر سید اعجاز علی شاہ گیلانی سے کروائی۔ میری اور میری بہن کی شادی سجادہ نشین دربار پیر قطبیہ سندیلیانوالی پیر محل پیر سید اسرار حسین شاہ بخاری کی بیٹی اور بیٹے سے کروائی۔ میری بڑی بہن کی شادی اپنے بھتیجے سید وجاہت حسین سے کروائی جو بعد میں دربار پیر پیراں موسیٰ پاک شہید کے سجادہ نشین بنے۔
والد کا قول تھا کہ اگر کسی شخص کے ہاتھ میں شفا ہونے کے باوجود وہ کسی دوسرے شخص کو فیض یاب نہیں کرتا تو ایسا شخص خود بدنصیب ہے۔ والد کی یادداشت کمال کی تھی۔ انہیں ہزاروں لوگوں کے نام زبانی یاد تھے اور جب کبھی کسی تقریب میں لوگوں کو مدعو کرنا ہوتا تو بہت ہی کم وقت میں اپنی یادداشت سے لوگوں کے نام تحریر کرواا دیتے تھے۔
والد نے اپنے وزیر بننے کا واقعہ یوں سنایا کہ ایک مرتبہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب فیروز خان نون سے ملنے ان کے گھرگیا کہ تمہارے نانا مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ سے اچانک وہاں ملاقات ہوگئی۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میں سردار محمد خان لغاری (سردار فاروق احمد خان لغاری کے والد) کو صوبائی وزیر بنوانے آیا ہوں۔ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ انہیں لغاری صاحب کے علاوہ میری بھی سفارش کرنی چاہئے تھی۔ جب میری ملاقات نون صاحب سے ہوئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ تم وزیراعلیٰ پنجاب ہو اور مجھے اپنی کابینہ بنا کر دو۔ میں نے کہا کہ میں وزیراعلیٰ نہیں ہوں، آپ ہی ہیں اور یہ استحقاق بھی آپ ہی کا ہے۔ مگر وہ بضد تھے کہ کابینہ مجھے ہی بنانی ہے۔ میں نے کابینہ کے لئے پانچ نام تجویز کئے جن میں سردار محمد خان لغاری، رانا عبدالحمید ، مظفر علی قزلباش، علی اکبر خان اور شیخ مسعود صادق کے نام شامل تھے مگر جب کابینہ کا اعلان ہوا تو ایک نام کا اضافہ تھا اور وہ نام میرا تھا۔
والد نے 1953ء میں فیروز خان نون کی کابینہ میں بطور وزیر صحت و بلدیات، حلف اٹھا۔ وزارت بلدیات عوام کے ساتھ رابطے اور مقامی سطح کے کام کروانے کے نکتہ نظر سے اہم ہے۔ 1956 ء میں ماموں مخدوم زادہ سید حسن محمود نے صوبائی وزیر مغربی پاکستان بننے پر والد سے محکمے کے متعلق مشورہ مانگا تو والد نے انہیں بھی یہی محکمہ تجویز کیا اور وہ بلدیات کے صوبائی وزیر بن گئے۔ والد نے وزیر صحت کی حیثیت سے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کئی اضلاع میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال (ڈی ایچ کیو) بنوائے جن میں ملتان، میانوالی، مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے ہسپتال قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ نشتر ہسپتال و میڈیکل کالج ملتان کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ میو ہسپتال لاہور اور ساملی سینی ٹوریم (ٹی بی ہسپتال) مری کی توسیع بھی ان ہی کے دور میں ہوئی۔
اس دور میں ڈاکٹروں کی بے حد کمی تھی اور دیہی علاقوں میں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس اہم انسانی مسئلے کے فوری حل کیلئے والد نے وکٹوریہ ہسپتال ، بہاولپور میں ایل ایس ایم ایف میڈیکل سکول کی بنیاد رکھی۔ میٹرک کے بعد اس سکول میں تین برس کا میڈیکل کورس کروایا جاتا تھا جس کے بعد دو برس تک دیہی علاقے میں خدمات انجام دینے کی لازمی شرط پوری کرنے پر متعلقہ امیدوار ایم بی بی ایس کے امتحان دینے کا اہل قرار پاتا تھا۔ ماموں سید حسن محمود اس دور میں بہاولپور ریاست کے وزیراعظم تھے۔ انہوں نے اس نیک کام کے لئے تمام بنیادی ضروریات بہم پہنچائیں۔ اور یوں ایک درد مند دل کی انقلابی سوچ نے نہ صرف دیہی علاقوں میں طبی سہولیات مہیا کردیں بلکہ ملک میں ڈاکٹروں کی شدید کمی دور کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ملک میں اس سکیم کے تحت سینکڑوں ڈاکٹروں نے اپنی اعلیٰ قابلیت اور خدمات کی بدولت بڑا نام کمایا ان میں ملتان سے ہمارے فیملی ڈاکٹر محمد حسین ملک قابل ذکر ہیں۔ والد نے اپنے دور اقتدار میں عوام الناس کو روزگار فراہم کرنے کیلئے بھی دوڑ دھوپ کی۔ بطور وزیرصحت انہوں نے ایم بی بی ایس میں غریب لوگوں کے بچوں کو بھی داخلہ دلوا کر ڈاکٹر بنوایا کیونکہ اس وقت میڈیکل کالج کی نامزدگی گورنر نہیں بلکہ وزیر صحت خود کیا کرتا تھا۔
1953ء میں والد کے پارلیمانی سیکرٹری چوہدری فضل الٰہی تھے جو بعد میں صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سردار عطاء محمد خان لغاری محکمے کے سیکرٹری تھے جو بعد میں رکن صوبائی اسمبلی (ایم پی اے) پنجاب منتخب ہوئے اور سردار عاشق محمد خان مزاری محکمے کے ڈپٹی سیکرٹری تھے جو بعد میں رکن قومی اسمبلی (ایم این اے) منتخب ہوئے۔ والد کو اس حیثیت سے بھی یاد رکھا جاتا ہے کہ صوبائی وزیر صحت و بلدیات بننے پر 1954 ء میں انہوں نے قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروائے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ہر ضلع میں ایک لائبریری ہو تاکہ عوام کی کتابوں تک رسائی ممکن بنائی جاسکے۔ اس سلسلے میں قلعہ، کہنہ قاسم باغ، ملتان میں ایک وسیع میونسپل لائبریری کا افتتاح کیا جو ملتان کیلئے ایک عظیم علمی خزانہ ہے۔ والد کچھ عرصہ امپروومنٹ ٹرسٹ(موجودہ وزارت ہاؤسنگ) کے صوبائی وزیر بھی رہے۔ اس وقت انہوں نے گلبرگ، لاہور اور مری کو ترقی دلانے کیلئے خصوصی طور پر دلچسپی لی جس کی وجہ سے پور ملک سے لوگوں نے سرمایہ کاری کی اور کچھ ہی عرصے میں وہ سب سے زیادہ پررونق آبادیاں بن گئیں۔
والد کے سابق گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان سے دیرینہ مراسم تھے۔ نواب صاحب مقامی طور پر پیر سید لعل بادشاہ گیلانی آف مکھڈ،کیمبل پور (اٹک)کے سیاسی حریف تھے۔ پیر صاحب کی سیاسی وابستگی ممتار دولتانہ سے تھی۔ ان کے بیٹے پیر صفی الدین شاہ گیلانی وائس چیئرمین ڈسٹرکٹ بورڈ ، کیمبل پور تھے۔ اس وقت تک ان سے میری پھوپھی کی شادی نہیں ہوئی تھی لہذا والد نے بطور وزیر بلدیات ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں نواب صاحب کا ساتھ دیا۔ عدم اعتماد کامیاب ہوگیا۔ جب میری پھوپھی کا رشتہ پیر صفی الدین شاہ سے ہوا تو نواب صاحب نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ کچھ عرصہ بعد بلدیاتی انتخابات میں چچا حامد رضا وائس چیئرمین ڈسٹرکٹ بورڈ، ملتان کے عہدے کیلئے امیدوار بن گئے۔ نواب صاحب نے والد کو کہلوا بھیجا کہ آپ اپنے چھوٹے بھائی سید رحمت حسین کو اپنا امیدوار بنائیں ورنہ آپ کے کزن حامد رضا کو نہیں بننے دوں گا۔ والد نے انکار کردیا تو نواب صاحب نے ہمارے خاندان کے ساتھ تمام تعلقات کوپس پشت ڈال کر چچا حامد رضا کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ گیلانی گروپ کے سیاسی حریف صادق حسین قریشی کو اس عہدے پر بلامقابلہ منتخب کروا دایا جس پر والد نواب صاحب سے ناراض ہوگئے کیونکہ ان کے اس اقدام سے گیلانی گروپ کو سیاسی طور پر بہت نقصان پہنچا۔
نواب صاحب نے چچا حامد رضا کو قائل کیا کہ میرے پیر یعنی اپنے کزن علمدار حسین گیلانی کی مجھ سے صلح کروا دیں۔ چچا نے والد کو نواب صاحب کی دعوت پر لاہور جانے کیلئے آمادہ کیا اور ان کے ہمراہ جب ملتان ائرپورٹ پر پہنچے تو جہاز جا چکا تھا۔ ملک غلام مصطفیٰ کھر ان دنوں قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ انہوں نے میرے والد اور چچا کو پیشکش کی کہ میں آپ کو اپنی کار میں لاہور لے جاتا ہوں۔ انہوں نے نہایت تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے چند گھنٹوں میں گورنر ہاؤس لاہور پہنچا دیا۔ والد اور چچا، نواب صاحب سے ملاقات کرنے گورنر ہاؤس کے اندر چلے گئے اور کھر صاحب باہر انتظار کرتے رہے۔ اس وقت کھر صاحب کے ذہن میں بھی نہ ہوگا کہ کبھی وہ بھی اسی گورنر ہاؤس میں بطور گورنر پنجاب موجود ہوں گے۔2005 ء میں کھر صاحب جب مجھے ملنے سنٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی آئے تو میں نے ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے اس واقعہ کی تصدیق کی۔
تعلیمی میدان میں گیلانی خاندان کی بے حد خدمات ہیں۔ تایا ولائیت حسین نہ صرف بااصول سیاستدان تھے بلکہ ماہرتعلیم بھی تھے۔ انہوں نے انجمن اسلامیہ ملتان کی انتظامیہ سے ملاقات کی اور اس ادارے کی ناقص منصوبہ بندی کے بارے میں گفتگو کی۔ اس سلسلے میں انجمن اسلامیہ کا ایک ہنگامی اجلاس 2 جون1933 ء کو طلب کیا گیا۔ اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ خسارے میں چلنے والے تعلیمی اداروں کی باگ ڈور تایا ولائیت حسین کے سپرد کردی جائے۔ تایا نے اس فیصلے کو بطور چیلنج قبول کرلیا۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس اپنا کوئی تعلیمی ادارہ نہ تھا اور دوسرے اداروں میں بھی انہیں داخلہ نہیں ملتا تھا۔ علی گڑھ یونیورسٹی اور انجمن حمایت اسلامی لاہور کے بعد اس قسم کے ادارے کا قیام بہت بڑا کارنامہ تھا۔ یہ ادارہ 1884ء میں مولوی محمد عبداللہ نے قائم کیا تھا۔
والد نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر انجمن اسلامیہ ملتان کے لئے بھرپور کام کیا۔ جس کے تحت ان کی زندگی ہی میں کئی سکولوں کا قیام عمل میں آیا۔ انجمن اسلامیہ کی چند تعلیمی یادگاریں گیلانی لا کالج، ولائیت حسین اسلامیہ کالج، علمدار حسین کالج، غلام مصطفیٰ شاہ گرلز کالج، شوکت حسین کے جی سکول، اسلامیہ ہائی سکول حرم گیٹ، اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ، اسلامیہ ہائی سکول دولت گیٹ اور رضا شاہ پبلک سکول ہیں۔
والد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ 1956 کا آئین بنانے والوں میں شامل تھے۔ آئین کی اہمیت اور تقدس کو ان سے بہتر کون جان سکتا ہے جنہوں نے قیام پاکستان کیلئے ان گنت قربانیاں دی ہوں۔ آئین پاس ہونے پر انہوں نے تمام اراکین کے ساتھ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ننگے پاؤں ان کے مزارپر حاضری دی۔ ان کے اس عمل میں قوم کے لئے پیغام تھا کہ زندہ قومیں اپنے محسنوں سے محبت اور ان کا ادب و احترام ان کی زندگی اور بعد از زندگی برقرار رکھتی ہیں۔ دنیا کی مشہور سوانح عمری"The World's Who's Who 1954-55 Edition" میں بھی ان کا نام شامل ہوا۔
والد 1956 ء میں شیخ مجیب الرحمان (جو بعد میں بنگلہ دیش کے صدر بنے) اور بیگم سلمیٰ تصدق حسین (والدہ جسٹس ریاض حسین جوبعد میں میرے ساتھ بھی وفاقی کونسل کی رکن رہیں) کے ہمراہ چین کا دورہ کرنے والے اس وفد میں شامل تھے جس نے پاک چین (Sino-Pak) دوستی کی بنیاد رکھی۔ وہ اس سال انٹر پارلیمنٹری یونین (آئی پی یو) کے رکن منتخب ہوئے، اسی حیثیت سے انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کیا اور وہاں پاکستان کو متعارف کروایا۔ اس دور کی اہم شخصیات وزیراعظم برطانیہ سرونسٹن چرچل، صدر امریکہ آئزن ہاور، صدر فرانس چارلس ڈیگال، شہنشاہ سعودی عرب عبدالعزیز، چین کی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین ماوئے زے تنگ، چین کے پہلے وزیراعظم چو این لائی اور آغا خان سوئم آغا سلطان سر محمد شاہ سے بھی ملاقاتیں کیں۔ چلی کا دورہ کرنے والوں میں وہ پاکستان کے پہلے چند اراکین پارلیمنٹ میں سے تھے۔ اسی سال والد نے عراقی فضائیہ کی سلور جوبلی تقریبات میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
اکتوبر1958 ء میں جنرل ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کیا اور 1956 ء کا آئین معطل کردیا۔ ’تحریک پاکستان‘ کے کارکنوں اور چوٹی کے سیاستدانوں کو ایبڈو کے ذریعے نااہل کردیا گیا۔ اس بدنام زمانہ قانون کی زد میں آنے والوں میں حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، آئی آئی چندریگر، فیروز خان نون، خان عبدالقیوم خان، میاں ممتاز دولتانہ، محمد خان لغاری، کرنل (ر) عباد حسین، سید حسن محمود، ایوب کھوڑو، پیر الٰہی بخش ، جی ایم سید، قاضی علی اکبر، قاضی عیسیٰ اور کئی دیگر رہنماؤں کے علاوہ میرے والد بھی شامل تھے۔ ایوب خان نے ایبڈو کے ذریعے بیک جنبشس قلم سب کو بدیانتی کے بلاثبوت الزام کے تحت نااہل قرارد دے دیا اور یوں سیاست کے میدان میں صف اول کے رہنماؤں کو پیچھے دھکیل دیئے جانے سے ایسا خلا پیدا ہوا جس نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ یہ قانون سات سال تک نافذ رہا۔
طویل مارشل لا اور نت نئے تجربوں نے ملک کی بنیادیں کھوکھلی کردیں۔ اس سیاہ عہد میں مقبول ترین شخصیتوں اور جماعتوں کو کمزور کردیا گیا۔ بنیادی جمہوریت کی آڑ میں فرد واحد کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی اور تمام معاملات و اختیارات ایک ہی ذات میں یوں مرکوز کردیئے گئے کہ بقول شخصے ایوب خان کی مثال لائل پور (فیصل آباد) کے گھنٹہ گھر جیسی تھی ، جدھر سے بھی آؤ سامنے پاؤ۔ اس دور میں اداروں کو پامال کیا گیا، لوگوں کے حقوق غصب کئے گئے اور عام انتخابات کی بجائے بی ڈی سسٹم کے تحت انتخابات کروائے گئے۔ ان انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح جیسی ہستی کو بدترین انداز میں شکست دلائی گئی اوریوں ملک کو متحد رکھنے کا آخری موقعہ بھی ضائع کردیا گیا۔ عوام کے احساس محرومی میں اضافے کے باعث عوامی ردعمل شدید تر ہوتا چلا گیا۔ مغربی اور مشرقی صوبوں کے درمیان طبقاتی فاصلے بڑھتے گئے، یگانگت ختم ہوگئی اور بالآخر ملک دولخت ہوگیا۔ والد کے لئے سقوط ڈھاکہ کا صدمہ اتنا گہرا تھا کہ وہ کئی راتیں بہت مضطرب رہے اور سو نہ سکے۔
محمد خان لغاری، والد سے اکثر کہا کرتے تھے کہ آپ کے خلاف ریفرنس بنے گا جب والد اور لغاری صاحب ایبڈو کا شکار ہوگئے تو ایک دن وہ والد سے ملنے کیلئے ملتان آئے۔ والد حسب سابق اپنی چٹوں پر عوام کے کام کر رہے تھے۔ لغاری صاحب حیران ہوئے اور کہا کہ مخدوم صاحب! آپ کی چٹیں آج بھی چل رہی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اپنے دوراقتدار میں کام کئے ہیں اور مجھے نااہل کردیا گیا ہے۔ پھر ازراہ مذاق کہا کہ آپ نے تو کوئی کام بھی نہیں کیا اور پھر بھی ایبڈو ہوگئے، آپ سے تو پھر میں ہی بہتر رہا۔
صدر ایوب خان نے والد کی پہلی ملاقات ایبڈو کے تحت نااہلی کے دوران ماموں حسن محمود کے ہاں رحیم یار خان میں شکار کے موقعہ پر ہوئی۔ صدر ایوب نے ان سے دریافت کیا کہ آپ ہم سے ملاقات کیوں نہیں کرتے؟ والد نے جواب دیا کہ ہم مسترد شدہ لوگ ہیں، آپ نے ہمیں سیاست سے باہر کیا ہے، ہمیں آپ نے دنیا سے باہر کیوں نہیں کردیا۔ صدر ایوب خان یہ سن کر کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بولے کہ میں چرچل کا بڑا مداح ہوں اور بقول اس کے"The grass grows on the battle field but on the scaffold, never."
ترجمہ: گھاس میدان جنگ میں تو اگ سکتی ہے لیکن پھانسی گھاٹ پر کبھی نہیں۔
صدر ایوب نے مزید کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ ہر آنے والا ہر جانے والے کو پھانسی پر لٹکا دے جس سے ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجائے۔
ایبڈو کی مدت ختم ہونے پر والد نے 1970 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ ملتان سے پاکستان پیپلز پارٹی کے صادق حسین قریشی کے مقابلے میں مسلم لیگ (قیوم گروپ) کی طرف سے انتخابات میں حصہ لیا۔ چچا حامد رضا نے شجاع آباد سے رانا تاج احمد نون اور چچا فیض مصطفیً نے ملتان شہر سے شیخ اکبر قریشی کے مقابلے میں صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ یہ زمانہ پیپلز پارٹی کے عروج کا تھا جس کی تیز آندھی کے سامنے کئی برج الٹ گئے جن میں والد اور چچا حامد رضا بھی شامل تھے۔ چچا فیض مصطفیٰ تقریباً دو سو ووٹوں کی برتری سے ایم پی اے منتخب ہوئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ صرف دو روز قبل ہی اسی حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔
میں نے ہمیشہ والد کو اپنے بھائیوں کے ہمراہ عید میلادالنبی کے مرکزی جلوس، دس محرم الحرام اور ہر جمعرات کو دربار حضرت پیر پیراں موسیٰ پاک شہید پر حاضری دیتے دیکھا۔ وہ ہر جمعرات کو بڑی ہمشیرہ کے پاس جاتے اور رات کا کھانا خاندان کے افراد کے ساتھ مل کر کھاتے، یہیں پر خاندان کے اکثر معاملات اورمسائل پر گفتگو ہوتی ۔ یہ سلسلہ خاندان میں اتفاق قائم رکھنے کا موجب تھا۔
میرے آبائی گھر