• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوں سے ا و رعشق سے ملتی ہے آزادی...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان

”جنوں سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی“ ایک ایسا ملّی نغمہ ہے جس کو سنتے ہی میرا قلب بے قرار ہوجاتا ہے۔ میں ماضی کی محبان پاکستان کی قربانیوں کو یاد کرنے لگتا ہوں۔ نگاہوں کے سامنے وہ تمام خوشگوار اور غمناک و دردناک واقعات نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ جوش و خروش، جنوں و عشق پاکستان کو حاصل کرنے کے لئے، جلسے، جلوس جھنڈے لہرانا اور پھر تقسیم کے وقت لاکھوں لوگوں کی بہیمانہ قتل و غارتگری، لاشوں سے پُر ٹرینوں کی بھوپال (اور لاہور) میں آمد،اور اب اُن تاریخی فلمی تراشوں سے اُجڑے، مرے پٹے بوڑھوں، بچّوں کی پیدل، بذریعہ بیل گاڑیوں اور بذریعہ ٹرین لاہور میں آمد۔ یہ سب کچھ نظروں میں گھومنے لگتا ہے۔ اسلام آباد میں ایک فلاحی ادارہ کی طرف سے ایک چندہ جمع کرنے کے لئے ڈنر کے انتظام میں چند مُصوّروں کی بنائی ہوئی اور عطا کردہ تصویریں نیلام کی گئیں۔ ان میں لاہور کے مشہور مصوّر جناب ایرانی صاحب کی تیار کردہ بڑی تصویر جنگ آزادی کا خلاصہ تھا۔ ایک ٹرین لاہور اسٹیشن پر کھڑی تھی اور اس میں سے لوگ شہیدوں کی خون آلودہ لاشیں باہر تختوں پر رکھ رہے تھے ،وہ تصویرمیں نے فوراً ڈیڑہ لاکھ روپیہ میں خرید لی اور اپنے پاس رکھ کر سوچنے لگا کہ وہ کونسی مناسب جگہ ہوگی جہاں یہ سب کی نگاہ اور توجہ کا مرکز بن سکے گی۔ پھر مجھے جناب وسیم سجاد یاد آئے۔ اس وقت سینیٹ کے چےئرمین تھے، محب وطن ہیں، ان سے بات کی اور میں نے اس کا تذکرہ کیا۔ اُنھوں نے کہا وہ سینیٹ کی عمارت میں داخلہ کے دروازہ کے پاس اس کو لگانا پسند کرینگے۔ دن اور وقت طے پاگئے۔ میں وہ تصویر لے کر پہنچ گیا۔ داخلہ کے دروازے کے پاس بالکل نمایاں دیوار پر یہ تصویر لگا دی گئی۔ اس کے نیچے میں نے یہ تحریر نصب کرادی۔ "Hard & Bloody Road To Independence" ۔صحیح تاریخ یاد نہیں لیکن یہ دن اس وجہ سے یاد ہے کہ ہم تصویر لگانے کے بعد کھڑے باتیں کررہے تھے کہ مصری سفارت خانہ میں دہشت گردوں نے بہت ہی خونریز دھماکہ کیا اور ہم جہاں کھڑے تھے وہاں کے شیشے لرز گئے تھے۔دیکھئے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ (۱) آزادی کی نعمت بغیر قربانیوں کے حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ (۲) قربانی اخلاص کی نشانی ہے، آپ کتنی ہی عبادت کرلیں جب تک اس میں خلوص نہ ہو اور قربانی کا جذبہ شامل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں فرمایا ہے۔ ”جب تم اپنی پسندیدہ چیزوں سے کچھ راہ خدا میں خرچ نہ کروگے ہرگز نیکی کے درجہ پر فائز نہیں ہوسکتے اور تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اللہ اس کو ضرور جانتا ہے۔“
(سورہ عمران آیت92 )۔ اس فرمان الٰہی کا جیگتا جاگتا ثبوت ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کے وقت دیا۔ یہ مجاہد اپنے پیچھے نہ صرف مکانات، حویلیاں، کھیت، جائدادیں اور رقوم چھوڑ آئے بلکہ اپنے اہل و عیال، عزیز و اقارب کی جانیں بھی قربان کردیں۔ دفتروں میں نہ کاغذ تھا، نہ پنسل اور نہ ہی پن۔ لوگ خود کاغذ، پنسل اور پن کی جگہ ببول کے کانٹے لے کر جاتے تھے، مخیر حضرات نے اپنی پوری پونجی حکومت بیچ کر گزارہ کیا۔ بعد میں اسی جذبہ کی جھلک ہمیں 1965 ء کی جنگ میں نظر آئی۔ ہم نے کشمیر میں دخل اندازی کی اور ہندوستان نے لاہور پر حملہ کرکے جواب دیا۔ لوگ بھٹو پر الزام لگاتے ہیں اگر بھٹو فوج اور جرنیلوں کو اس طرح استعمال کرسکتا تھا تو پھر ایوب خان گدھے استعمال کرنے اور پتھر توڑنے کے لئے مناسب تھا۔ بہرحال حکمرانوں کی غلط حرکتوں کو نظر انداز کرکے لوگ جذبہ شہادت کے نشہ میں خود سرحد کی جانب دور پڑے، فوجیوں کو کھانا پانی پہنچایا، ان کی تیمارداری کی۔ جب ایوب خان نے ایک پیسے میں دو ٹینک (یعنی اگر ہر پاکستانی ایک پیسہ دے تو دو ٹینک خریدے جاسکتے تھے) کا نعرہ لگایا تو لوگوں نے اپنی جمع شدہ پونجی دیدی اور خواتین نے زیورات دیدیے۔ جوان بیٹیوں نے اپنے جہیز کے زیورات قربان کردیے۔ دشمن سے تو جان بچ گئی مگر نااہل ڈکٹیٹروں سے نجات نہیں ملی۔ اس وقت کی داستانیں سن کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
پاکستان کی مشرقی پاکستان میں ذلّت آمیز شکست اور فوج کے ناقابل فراموش ہتھیار ڈالنے کے واقعہ کے بعد بھٹو نے ملک کو سنبھالا اور سخت محنت کرکے ہندوستان سے 92 ہزار قیدیوں کو چھڑا کر لائے (بعد میں ان ہی نے انھیں تختہ دار پر لٹکادیا۔ گویا یہ منصب بلند ملا جس کو مل گیا۔ ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں) اور عہد کیا کہ پاکستان کوایسی ذلّت کا کبھی دوبارہ سامنا نہ کرنے دینگے۔ اُنھوں نے ایٹم بم بنانے کا عزم کیا۔ میں نے ہالینڈ میں اعلیٰ ملازمت چھوڑ دی، اپنا اعلیٰ مستقبل تباہ کردیا اور پاکستان آکر بھٹو صاحب کے اس مشن کی تکمیل کا چیلنج قبول کرلیا۔ یہ قربانی کا جذبہ تھا، ملک سے بے پناہ محبت تھی۔ لاتعداد صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا، کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔ مخلص، محب وطن ساتھیوں کی مدد سے بہت کم عرصہ میں پاکستان کو ایٹمی قوّت بنا دیا اور بعد میں جب ذمّہ داری سونپی گئی تو میزائل قوّت بھی بنا دیا۔ اس میں میرے ساتھیوں اور ان کے اہل و عیال ،عزیز و اقارب کی اور میرے خاندان کی بے حد قربانیاں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا کرم اور پوری قوم کی دعاؤں کے اثر سے یہ مشکل کام انجام پایا تھالیکن مسلمانوں کی غدّارانہ اور غلامانہ ذہنیت کا بیّن ثبوت دیکھئے کہ بھٹو صاحب کو تو ناکردہ گناہ کی پاداش میں پھانسی پر لٹکادیا اور مجھے ناکردہ گناہ کی پاداش اور اپنے آقا کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر قربانی کا بکرا بنادیا۔ اس ایف اے پاس نے یہ نہ سوچا کہ بات مجھ انفرادی شخص کی نہ تھی جلد یا بدیر میں نے تو اس دنیا کو خیر باد کہ کر اپنے رب کے حضور میں پیش ہونا تھا اس کے اس عمل سے پاکستان پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ایک الزام لگ گیا جس کو مغربی ممالک ہمیشہ پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے استعمال کرینگے۔ مجھ سے یہ بیان نہ پڑھواتا تو بات الزام تراشی اور تردید تک رہ کر ختم ہوجاتی۔
میں یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ ایک طرف تو مخلص، نیک سیرت لوگ قربانیاں دیتے رہے اور دوسری جانب ہمارے یہاں ناسور پلتے رہے۔ ہم راجہ صاحب محمود آباد نواب اسمٰعیل خان جیسے جانثاروں کی قربانیاں بھول گئے۔ آمریت ہو یا جمہوریت، ہوس پرست، ضمیر فروش اور ملک فروش حکمرانوں نے عوام کو پامال کردیا۔ بظاہر آزاد اور حقیقت میں غلام ہوگئے ہیں۔ حکمرانوں نے ایٹمی قوّت اور میزائل قوّت کو نعمت کے بجائے لعنت میں تبدیل کردیا ہے۔ غیرت اور حمیّت نام کی کوئی چیز اب موجود نہیں اور امیر امیر اور غریب غریب ہوتے جارہے ہیں:۔
دور آزادی کا کیا حال کہوں اے شعری#
اَب جو درپیش ہے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
دیکھئے وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ ہمیں درست سمت میں سوچنا اور کام کرنا ہوگا، ملک دلدل میں پھنس گیا ہے، فوجی آمروں نے اور جمہوری چوروں، لٹیروں، راشیوں اور نااہلوں نے اس پیارے ملک کو تباہی کے گٹر میں ڈالدیا ہے ان حالات میں الیکشن سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، یہی لوگ چہرے بدل بدل کر آتے رہینگے اور یہی مافیہ ہمارے سروں پر بیٹھ کر ملک کو لوٹتا اور تباہ کرتا رہے گا۔ اس نظام میں کسی بہتری اور اصلاحات کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔ میری بات غور سے سُنیئے اور اسے ہر پاکستانی تک پہونچا دیجئے کہ اب ہمارا سب کا یہ فرض بن گیا ہے کہ سب مل جل کر جدّوجہد کریں اور ایک پُر امن عوامی انقلاب لائیں۔ ہمیں فالتو بھاگ دوڑ، نعرے بازی، شور و غل کو چھوڑنا ہوگا اور تمام توّجہ صرف ایک مقصد یعنی عوامی انقلاب پر مرکوز کرنا ہوگی۔ ہم ادارے، کمیشن، کمیٹیاں بناتے رہے ہیں، اب ہمیں ایک آزاد ملک بنانا ہوگا، ہمیں سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔ ہمارے لاتعداد مخیر حضرات نہایت فراخدلی سے غریبوں کی مدد کرتے ہیں مگر غربت جوں کی توں قائم ہے۔ غریبوں کی کمر توڑنے والے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ درست سمت یہی ہے ہم اب وقت اور پیسہ ضائع کئے بغیر ملک حقیقی معنوں میں آزاد اور خوشحال بنانے کی جدّوجہد شروع کردیں۔ اگر نیک، اہل اور مخلص و ہمدرد حکمراں ہونگے تو ملک کے حالات بہت جلد ٹھیک ہوجائینگے اور عوام کو ان تباہ کن مشکلات سے نجات مل جائے گی۔ اگر نظام مملکت صحیح ہوگا تو لاتعداد مختلف ادارے بنانے کی ضرورت پیش نہ آئے گی اور این جی اوز کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ میں آپ سے پُر زور الفاظ میں کہونگاکہ اب آزادی حاصل کرلیں اس موجودہ نظام سے تو ملک میں جنت آسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیش بہا دولت و وسائل سے نوازا ہے، نوجوان نہایت محنتی اور قابل ہیں، ان کی صلاحیتوں کو ٹھیک اور پورے طریقہ سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے پھر نہ تعلیم میں، نہ پانی اور بجلی کی رسائی میں اور نہ ہی علاقوں کی ترقی میں کسی قسم کا امتیاز ہوگا۔ نااہل ملک چھوڑ کر بھاگ جائینگے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ہمیں ایک درمیانی مختصر سے مشکل دور سے گزرنا ہوگا مگر یہ ہم سب مل کر برداشت کرینگے جس طرح کہ پرانے زمانے میں ہمارے اسلاف نے اور موجودہ دور میں چینی ، جرمن ،جاپانی عوام نے کیا ہے۔ اگر ہم اس وقت نہ جاگے تو پھر ہمیں ہماری آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہ کرینگی، ہم پر لعنت بھیجیں گی۔ میں تمام پاکستانیوں خاص طور پر وکلاء سے نہایت صدق دل سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ پاکستان کو بچانے اور اس کو ایک خوشحال پُر امن اور فلاحی اِسلامی مملکت بنانے کیلئے فوراً بزور بازو حکومت کو عدلیہ کے فیصلوں پر عمل کرنے پر مجبور کردیں اور اس اہم قومی فریضہ کیلئے آپ مزید سید علی مسعود سے اس فون نمبر پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ 0321-378-1089 اور 0300-4280845 ۔آپ اور ہم مل کر اب بھی اس قائد اعظم اور علامہ اقبال  کے اور آپ کے اور میرے پاکستان کو بچا سکتے ہیں اور ایک مثالی اسلامی فلاحی مملکت بنا سکتے ہیں۔ آئیے، آگے بڑھئے اور ساتھ دیجئے۔
تازہ ترین