• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایران پاکستان کا قریب ترین ہمسایہ ہے پاکستان اور ایران کی مشترکہ سرحد کی طوالت تقریبا 900 کلومیٹر ہے۔ سلامتی کے حوالے سے کسی بھی غیر معمولی صورتحال میں پاکستان اور ایران ایک دوسرے کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس جغرافیائی اشتراک کیساتھ ساتھ، پاکستان اور ایران، مذہب، زبان، ثقافت اور تجارت کے حوالے سے قریبی اور گہرے رشتے میں منسلک ہیں۔ دونوں ممالک کے فلاسفر شعراء اور مذہبی رہنما ایک دوسرے کے ممالک میں محبوب و مقبول ہیں اور ہر دو ممالک ایک دوسرے کے فکری اور فلسفی اثرات سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کیلئے اپنی بھرپور جدوجہد اور حمایت کا اعلان کیا تھا۔ دوسری طرف اسرائیل 1948 ءمیں اپنے قیام سے لیکر اب تک ہر پلیٹ فارم پر پاکستان کا مد مقابل بن کر سامنے آیا ہے۔ اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ اب کوئی راز نہیں رہا۔ گزشتہ دنوں آپریشن سندور میں بھارت کی تاریخی ناکامی کے بعد اسرائیل کی جھنجھلاہٹ یہ واضح کرتی ہے کہ بھارت کی شکست دراصل اسرائیل کی شکست تھی۔مقبوضہ کشمیر میں جن پیلٹ گنوں کے ذریعے کشمیریوں کے چہرے مسخ کیے جا رہے ہیں وہ بھی اسرائیل ساختہ ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ کچھ دہائیوں سے پاکستانی سیکورٹی صورتحال میں ایران کا کردار مختلف حوالوں سے تشویش ناک رہا ہے۔ کلبھوشن یادو کی گرفتاری نے متعدد کہانیوں کو جنم دیا۔ لیکن اس ساری سرد مہری کے باوجود گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف ایران کے مذہبی رہنما سے ملنے کیلئے احتراماََ ننگے پاؤں انکے پاس ملاقات کیلئے گئے یہ پاکستان کی طرف سے ایران کیلئے ایک مخصوص احترام کا اظہار کرنے کی ایک کوشش تھی۔اسرائیل دنیا کے نقشے پر قائم واحد ملک ہے جو ہر انداز میں دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے۔ سن 90کی دہائی میں جب سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد فلسطین اور عرب دنیا کے بڑے مزاحمتی حصے نے اسرائیل کے آگے ہتھیار ڈال دیے،2003 ءمیں عراق اور 2011 ءمیں شام اور لیبیا پر اپنی پسند کی حکومتیں قائم کرنے کے بعد اسرائیل مخالف تمام عناصر ایک ہی ہلے میں ڈھیر ہو گئے،ایسے میں ایران نے اس پورے خطے میں حماس سے لے کر حزب اللہ اور انصار سے لے کر شام اور عراق میں مزاحمتی گروہوں کو مضبوط کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ایران نے عالمی سطح پر ان تمام ممالک مثلا کیوبا وینزویلا روس اور چین کے ساتھ روابط بڑھائے جو کسی بھی صورت میں اسرائیل اور اس کے بلاک کیساتھ مزاحمت کرنے کا خیال رکھتے تھے۔ایران نے تمام تر اقتصادی پابندیوں کے باوجود اپنا ایٹمی پروگرام بھی جاری رکھا اس دوران ایران کے کچھ غلط فیصلوں کی وجہ سے اسے اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا لیکن اس کی جرات کی داد تو بنتی ہے کہ اس نے سالہا سال سے اپنے اوپر اقتصادی پابندیوں کے باوجود امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کام کرنیوالے گروپس کو یکجا کیے رکھا اور خود بھی دو بڑی قوتوں کیخلاف مزاحمت جاری رکھی۔

اسرائیل نے گزشتہ چند ماہ کے دوران فلسطین میں بربریت اور ظلم کی نئی داستانیں رقم کیں اس دوران حماس اور حزب اللہ کو شدید جانی اور مالی نقصان بھی ہوا جس سے اسرائیل کی جانب تاثر گیا کہ جس طرح ایرانی پراکسیز کمزور ہوئی ہیں اسی طرح ایرانی ریاست بھی اب اسرائیلی حملے کا دباؤ برداشت نہیں کر سکے گی۔لہٰذا اس نے پونے دو سال غزہ میں ریاستی دہشت گردی جاری رکھنے کے بعد ایران اور امریکہ کے مابین جوہری مذاکرات کے آغاز سے عین ایک دن قبل بلا جواز اور غیر قانونی طور پر اسرائیل پر فضائی حملے کر کے نہ صرف مشرق وسطی بلکہ پوری دنیا کو جنگ کے شعلوں میں دھکیلنے کا اہتمام کر دیا۔غالبا اسرائیل کو یہ توقع نہ تھی کہ ایران اس کے حملوں کا جواب دیگا لیکن گزشتہ جمعہ اور ہفتے کی درمیانی رات ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر پے در پہ میزائل فائر کیے جس میں ایرانی حکام کے مطابق اسرائیل کے جوہری تحقیق کے مرکز کو بھی ہدف بنایا گیا ایران نے 200 سے زیادہ میزائل فائر کیے جو تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس تک جا پہنچے۔ ایرانی حملوں میں سات مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی میڈیا نے دو اسرائیلی طیارے گرانے اور ایک خاتون پائلٹ کو گرفتار کرنے کا بھی دعویٰ کیا۔

اسرائیلی جارحیت سے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں اطلاعات کے مطابق امریکہ نے اپنے کئی ہتھیار مشرق وسطی کے نزدیک منتقل کر دیے ہیں اسی طرح برطانیہ نے بھی اپنے کئی طیاروں کو مشرق وسطی کے قریبی ہوائی اڈوں پر منتقل کرنے کے احکامات دے دیے ہیں۔یورپی ممالک نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی ہے تاہم ابھی تک چین اور روس اور اس جیسے بڑے ممالک محتاط رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ایران نے تیل کی ترسیل کی ایک بڑی آبی گزرگاہ آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا عندیہ دیا ہے اگر یہ صورتحال بڑھی تو یقینا عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہو جائینگے۔ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے ایران کیخلاف جنگ میں اسرائیل کی کھلم کھلا مدد کی تو پھر نہ صرف مشرق وسطی بلکہ پوری دنیا ایک تباہ کن جنگ کا شکار ہو جائے گی۔پاکستان بھی اس صورتحال سے لا تعلق نہیں رہ سکتا ایران میں ہونیوالے کسی بھی تبدیلی کے اثرات براہ راست پاکستان پر ظاہر ہونگے لہٰذا پاکستانی فوج اور ادارے بھی اس وقت ہائی الرٹ ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ صدر ٹرمپ جنہوں نے پاک بھارت جنگ رکوانے کا سہرا اپنے سر باندھ رکھا ہے اور بار بار اس کا اظہار بھی کرتے ہیں اگر وہ یہ جنگ رکوانے میں ناکام رہے تو نہ صرف عالمی جنگ کی طرف دنیا بڑھے گی بلکہ صدر ٹرمپ کے شخصی تاثر کو بھی گہرا نقصان پہنچے گا۔

تازہ ترین