یہ بات واضح دکھائی دیتی تھی کہ گلگت بلتستان حکومت کے لئے نئے ٹیکسز کا نفاذ آسان نہ ہوگا لیکن اس کے تمام دس اضلاع میں سیاسی کارکنوں، تاجروں، ٹرانسپورٹروں اور عام شہریوں کے بیک وقت احتجاج نے اس پیش رفت کو مزید مشکل بنادیا۔ کمزور مقامی حکومت کے لئے سات روز تک جاری احتجاجی مظاہروں، شٹرڈائون ،پہیہ جام ہڑتال اور اسکردو سے لے کر مقامی دارالحکومت، گلگت تک ’’لانگ مارچ‘‘ سے نمٹنا مشکل ہوگیا ۔ چنانچہ اس نے ستائیس دسمبرکو مظاہرین کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور مجوزہ ٹیکسز کو واپس لے لیا ۔ یہ ایسے علاقے میں ٹیکسز کے نفاذ کی ایک اور ناکام کوشش تھی جہاں لوگ ٹیکس سے آزاد کلچر کے عادی ہوچکے ہیں۔ یہ صورت ِحال خیبر پختونخواکے مالا کنڈ ڈویژن، جو صوبے کے زیر ِ اہتمام قبائلی علاقوں (PATA)میں شامل ہے ،کی یاد دلاتی ہے جہاں 2016 ء میں کسٹم ایکٹ 1969 ء نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ افغانستان سے آنے والی تمام اشیا، خاص طور پرا سمگل شدہ گاڑیوں پر کسٹم ڈیوٹی عائد کی جاسکے ۔ اس پر بھرپو ر احتجاج ہوا، اور اس کی قیادت وہاں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے کی ، یہاں تک کہ اس فیصلے کو واپس لینا پڑا۔
گلگت بلتستان میں احتجاجی مظاہرین نے ٹیکسز کے نفاذ کو مسترد کرنے کے لئے اس جواز کو استعمال کیا کہ اُن کے علاقے کی پاکستانی پارلیمان میں نمائندگی نہیں ہے ۔ وہاں بینرز پر اس طرح کے نعرے رقم تھے ۔۔۔’’ ٹیکسز کا نفاذ نامنظور‘‘۔ ایک بہت بڑے بینر پر ’’نمائندگی کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں‘‘ کا نعرہ بھی دیکھنے میں آیا۔ گلگت بلتستان کے عوام کا مطالبہ رہا ہے کہ اُن کے علاقے کی آئینی حیثیت طے کرکے اس پربلاتاخیر عمل درآمد کیا جائے تاکہ اُنہیں بھی پارلیمنٹ میں نمائندگی مل سکے ۔
اس مقبول ِعام مطالبے نے حکومت ِ پاکستان کو ایک الجھن میں ڈال دیا کیونکہ وہ کئی ایک مسائل کی وجہ سے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو ابہام میں رکھنا چاہتی ہے ۔ اسے کشمیری سیاست دانوں کے اس دعوے کو بھی ذہن میں رکھنا ہے کہ گلگت بلتستان آزاد جموں اور کشمیر کا حصہ ہے ۔ پاکستان مقبوضہ جموں اور کشمیر کو متنازع علاقہ سمجھتا ہے ۔اس کا موقف ہے کہ وادی کے عوام کو اقوام ِ متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ بھارت کشمیریوں کو حق ِ خود ارادیت دینے کے لئے تیار نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ کشمیری اُس کے خلاف ووٹ دیں گے ۔ اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لئے بھارت دعویٰ کرتا رہا ہے کہ گلگت بلتستان بھی آزاد جموں کشمیر کی طرح ایک متنازع علاقہ ہے ۔ دراصل بھارت کی طرف سے پاک چین اقتصادی راہداری کی مخالفت کی وجہ بھی یہی ہے۔ یہ راہداری چین سے پاکستان میں براستہ گلگت بلتستان داخل ہوتی ہے ۔
تاہم وہاں ہونے والے حالیہ احتجاج کا تعلق ٹیکسز کے نفاذ سے تھا۔’’گلگت بلتستان اڈپٹیشن ایکٹ 2012 ‘‘ کے تحت وہاں انکم ٹیکس، ودہولڈنگ ٹیکس اور دیگر محصولات کا نفاذ عمل میں لایا جانا تھا۔ ماضی میں بھی ان کی وجہ سے احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے ، لیکن اس مرتبہ مظاہرین نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ وہ مقامی حکومت سے ٹیکسز نافذ نہ کرنے کا تحریری معاہدہ لئے بغیر احتجاج ختم نہیں کریں گے ۔ اُنھوں نے لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا ، لیکن ٹیکسز کا نفاذ واپس لینے کا نوٹی فکیشن جاری ہونے تک احتجاج موقوف نہ کیا ۔
اس معاہدے کے تحت ’’گلگت بلتستان اڈپٹیشن ایکٹ 2012‘‘کو گلگت بلتستان کونسل کے ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے واپس لے لیا جائے گا۔ یہ کونسل علاقے میں محصولات کا نفاذ کرنے والا ادارہ ہے ۔ اس مقصد کے لئے گلگت بلتستان حکومت اور احتجاجی مظاہرین کے نمائندوںکے درمیان جلد ہی اسلام آباد میں ایک ملاقات ہوگی ۔ اس معاہدے کی دیگر شقوں میں گلگت بلتستان معدنیات پالیسی 2016 میں ترمیم اور اس معاملے کو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی طرف منتقل کرنا، وفاقی حکومت کے حاصل کردہ بالواسطہ ٹیکسز میں گلگت بلتستان حکومت کو اُس معاہدے کی طرز پر حصہ دینا جو آزاد جموں کشمیر کی حکومت کے ساتھ کیا گیا ہے ، اور احتجاجی مظاہرین کے خلاف بنائے گئے تمام مقدمات ختم کرنا شامل ہیں۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ مستقبل میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان میں کام کرنے والی کثیر ملکی کمپنیوں اور تنظیموں پر ٹیکسز نافذ کرسکتی ہے ۔ گویا احتجاجی مظاہرین جو چاہتے تھے ، حاصل کرلیا۔ اُنھوں نے انتہائی سرد موسم کا مقابلہ کیا اور معاشی نقصانات برداشت کیے ۔ تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا لیکن اُنھوں نے ان کے عوض بہت کچھ حاصل بھی کرلیاکیونکہ ٹیکسز اُن پر کہیں زیادہ بڑا بوجھ ثابت ہوتے ۔ احتجاجی مظاہرین نے عالمی توجہ بھی حاصل کی۔ بین الاقوامی میڈیا نے اُنہیں اجاگر کیا۔ ایک اخبار کی سرخی نے اس صورت ِحال کی ڈرامائی، لیکن غلط، منظر کشی کرتے ہوئے کہا۔۔۔’’دنیا کی چھت کی پاکستان کے خلاف بغاوت ‘‘۔ اس میں بغاوت کاکوئی شائبہ تک نہ تھا۔ مظاہرین پاکستانی ریاست کے خلاف نہیں تھے ، وہ اپنے کچھ مطالبات اور حقوق کے لئے احتجاج کررہے تھے ۔
بھارتی میڈیا نے اپنی خواہش کے مطابق احتجاج کو پاکستان مخالف قرار دیتے ہوئے اسے جموں اور کشمیر میں ہونے والے احتجاج اور مسلح بغاوت کے مساوی قرار دیا ۔ ہوسکتا ہے کہ بھارت کے سرکاری حلقوں کو یہ دیکھ کر طمانیت محسوس ہوئی ہو کہ احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے گلگت بلتستان میں سی پیک منصوبوں پر کام متاثر ہوسکتا ہے ۔ کچھ مظاہرین نے گلگت بلتستان کو سی پیک منصوبوں کا زیادہ حصہ دینے کے لئے آواز بلند ضرور کی تھی۔ تاہم علیحدگی کا کوئی نعرہ سننے میں نہیں آیا۔ درحقیقت مظاہرین کا مرکزی بیانیہ یہ تھا کہ گلگت بلتستان کوآئینی حیثیت اور پارلیمان میں نمائندگی دیتے ہوئے پاکستان کا زیادہ مضبوط حصہ بنایا جائے ۔
اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کی اس دیرینہ خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسے پورا کرنے کا طریقہ سوچے ۔ اُس وقت تک وہ اس خطے میں ٹیکسز کے نفاذ کی امید نہیں کرسکتی ۔ یہ خطہ توجہ چاہتا ہے ۔ گلگت بلتستان کے عوام نے آزادی کے وقت ہتھیار اٹھا کر جموں اور کشمیر کی ڈوگرا فورسز کو مار بھگایا اور اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی ۔