• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

9/11 کے واقعات پر ایک نظر...پرویز مشرف…سابق صدر پاکستان

اس ایک دن نے پوری دنیا کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ دس سال قبل ہونے والے، اس واقعے نے سب سے زیادہ پاکستان کو متاثر کیا تھا۔ بہت سے پاکستانیوں کو یقین ہے کہ اگر ہم، اقوام متحدہ کی قرار داد پر عمل درآمد نہ کرتے تو ہمارے لئے یہ زیادہ بہتر ہوتا۔ ان ناقدین کے بارے میں، میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ انہیں تاریخ اور زمینی حقائق کا یا تو محدود علم ہے یا پھر انہیں ان کا مطلق ادراک ہی نہیں ہے۔ اگر ان حالات و واقعات کا دوبارہ جائزہ لیا جائے تو ہمارے لئے کافی سبق آموز ہوسکتا ہے کیوں کہ اس المناک سانحے کے بعد اقوام متحدہ سے منظور شدہ قرار داد کی حمایت کے فیصلے کے پس پردہ باقاعدہ عقلی جواز موجود تھا۔
نائن الیون کے واقعے سے تقریباً دو سال قبل دوران پرواز میرے ملٹری سیکریٹری نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا تھا کہ جہاز کے کپتان مجھے کاکپٹ میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ انہوں نے مجھے جو اطلاعات دیں وہ بعد میں میرے طیارے کی ہائی جیکنگ کا پیش خیمہ بنیں۔ نائن الیون کو بھی کراچی میں کور کمانڈر کی اہم میٹنگ کے دوران میرے ملٹری سیکریٹری نے سرگوشی کی کہ نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکراتے ہوئے دوسرے جہاز کو دیکھ رہے تھے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس واقعے نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ میں واقف تھا کہ یہ سانحہ ہماری تاریخ کو بنانے یا بگاڑنے کا سبب بن سکتا ہے اس لئے میں نے خود کو ذہنی طور پر تیار کرلیا تھا۔
دنیا کی بلند ترین عمارت کے تباہ شدہ ملبے کی دھول اور جلتے ہوئے جہاز کے اٹھتے ہوئے دھوئیں سے ایسا دکھائی دے رہا تھا جیسے کوئی ایٹمی دھماکہ ہوا ہے۔ بحیثیت صدر پاکستان، میرے ذہن میں بے شمار خیالات گردش کرنے لگے دنیا کا طاقت ور ترین ملک خود اپنی سرزمین پر اپنے ہی جہازوں سے میزائل کی مانند حملے کا شکار ہوگیا تھا۔
یقیناً یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا اور ایک بڑی طاقت کی انا پر کاری ضرب تھی یہ بات تو یقینی ہوگی کہ امریکا کا ردعمل کسی زخمی ریچھ کی مانند، پرتشدد ہوگا اور اگر ان واقعات کے ذمہ داروں کا تعلق القاعدہ سے ہوا تو زخمی ریچھ کا رُخ براہِ راست ہماری جانب ہوگا۔ جیسا کہ مجھے کامل یقین تھا اگلی صبح میرے دوست جنرل کولن پاول کی ٹیلی فون کال آئی انہوں نے کھلے الفاظ میں مجھ سے سوال کیا۔ ”آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالف ہیں۔“ یہ صریحاً ایک دھمکی تھی۔ میں اس اہم فون کال کیلئے تیار تھا۔ اس فون کال سے متعلق چند شائع شدہ رپورٹس کے برعکس یہ گفتگو کسی خاص نکتے سے متعلق نہیں تھی۔ میں نے انہیں آگاہ کیا کہ ہم گزشتہ سالوں سے دہشت گردی کا سامنا کررہے ہیں لہٰذا دہشت گردی کیخلاف ہم، امریکا کے ساتھ ہیں اور اس جنگ میں ہم ان کی حمایت کریں گے۔ آگے کیا ہوسکتا تھا۔ میرے پاس یہ سوچنے کیلئے کافی وقت میسر تھا۔ مجھے مطلع کردیا گیا تھا کہ اگر پاکستان نے امریکا کی مخالفت کی تو ہمیں تباہی کا سامنا کرنا ہوگا۔ جس کے نتیجے میں ہم پتھر کے دور میں واپس چلے جائیں گے میں یہاں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ امریکا کی جانب سے پیش کئے گئے تمام مطالبات ہم نے من و عن قبول نہیں کئے۔ میں نے صورتحال کا بغور جائزہ لیا اور تمام امکانی حقائق کو مدنظر رکھا۔ میں نے تمام ترجیحات کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا۔
موافق اور مخالف دلائل کا موازنہ کیا۔ میری اولین کوشش یہ تھی کہ پاکستان کسی طویل خون ریزی کا شکار نہ ہو اور اس کا کم سے کم حد تک نقصان ہو۔ میں صحیح فیصلہ کرنا چاہتا تھا۔
امریکا، افغانستان پر حملہ کرنے کیلئے کیا راستہ اختیار کرسکتا ہے۔ اس کیلئے صرف مشرق یعنی پاکستان کی جانب سے افغانستان پر حملہ کرنا ہی قابل عمل تھا۔
میں نے سوچا کہ اگر ہم اس معاملے میں رضا مند نہ ہوئے تو بھارت، امریکا کے ساتھ تعاون کرنے کو ہر قیمت پر تیار ہوگا۔ امریکا اور بھارت مل کر پاکستان کو روندتے ہوئے افغانستان تک رسائی حاصل کرلیں گے۔ یوں ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی بھی ہوتی۔ کیا ہمیں اپنی افواج کو امریکی اور بھارتی افواج کے مدمقابل کھڑا کردینا چاہئے؟ بھارت ہمارے اس فیصلے پر خوش ہوتا۔ یہ یقیناً بے دھڑک، دشوار اور انتہائی غلط فیصلہ ہوتا۔
ہم اپنے اسٹرٹیجک مفادات، ایٹمی صلاحیت اور کشمیر کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنے محدود علاقے دے کر یہ خطرہ مول لینا چاہئے تھا امریکا سے مخاصمت کے نتیجے میں پیدا شدہ معاشی نتائج ہمارے لئے خاصے تشویشناک بھی ہوسکتے تھے پاکستان کی برآمدات اور سرمایہ کاری، یورپی یونین اور امریکا کے ذریعے ہوتی ہے۔ ہماری ٹیکسٹائل کی 60 فیصد برآمدات کی آمدنی مغرب کے ذریعے ہوتی ہے۔ چنانچہ ہماری امریکا سے مخالفت ہماری برآمدی صنعت کو منفی طور سے متاثر کرسکتی تھی اور ہماری معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیتی۔
ہمارے دوست ملک چین کو بھی طالبان اور القاعدہ کی جانب سے خدشات لاحق تھے۔ مذہبی انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور پاکستان میں قبائلی ایجنسیوں کی وجہ سے چین میں ”ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ“ افغانستان میں واقعے کا سبب بنی۔
اگر پاکستان، القاعدہ اور طالبان کی حمایت کرتا تو یقیناً چین اس فیصلے سے ہر گز خوش نہ ہوتا۔ حتیٰ کہ مسلم امہ کو بھی طالبان حکومت کیلئے کوئی ہمدردی نہ ہوتی۔ ترکی اور ایران طالبان کے یکسر مخالف ہیں۔ پاکستان کے علاوہ صرف دو ممالک متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب ایسے تھے جنہوں نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ بعدازاں وہ بھی طالبان کی سرگرمیوں سے اس قدر خائف ہوئے کہ انہوں نے کابل میں اپنے سفارتی مشن بند کردیئے۔
میں نے اس معاملے کے فوائد اور نقصانات کا بغور جائزہ لیا۔ اگر ہم امریکا کی مخالفت کرتے تو ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا اس کے برعکس مغرب کے ساتھ اتحادی بن کر اس کا ساتھ دے کر سماجی، اقتصادی اور عسکری فوائد سے یکسر بے خبر نہیں تھا۔ 13 ستمبر 2001ء کو پاکستان میں امریکی سفیر وینڈی چمبرلین نے میرے روبرو سات مطالبات رکھے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کو بھی ان مطالبات سے مطلع کیا گیا تھا وہ سات مطالبات یہ تھے۔
(1) سرحدوں پر القاعدہ کے عمل دخل کو بند کیا جائے۔ پاکستان کے راستے ان کے اسلحے کی آمد و رفت کو بند کیا جائے بن لادن کیلئے سامان کی فراہمی روک دی جائے۔
(2) ضروری عسکری اور انٹیلی جنس کارروائیوں کیلئے پاکستان میں امریکا کو خفیہ پروازوں کی آمد و رفت کے حقوق دیئے جائیں۔
(3) امریکا اور اس کے اتحادی عسکری انٹیلی جنس کو ضرورت پڑنے پر پاکستان کی بندرگاہوں، ہو ائی اڈوں اور سرحدوں پر اسٹرٹیجک مقامات تک رسائی دی جائے تاکہ دہشت گردی کی معاونت اور اس کے مرتکب افراد کیخلاف کارروائی کی جاسکے۔
(4) امریکا اور اس کے اتحادیوں کی دہشت گردوں سے بچاؤ کیلئے امیگریشن اطلاعات، ڈیٹا بیس اور اندرونی سیکیورٹی معلومات مہیا کی جائیں۔
(5) امریکا اور اس کے دوست اتحادی ممالک کیخلاف دہشت گردی کے واقعات اور 11 ستمبر کے دہشت گردی کے واقعہ کی کھلے عام مذمت کی جائے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کیخلاف دہشت گردی کے حق میں اظہار خیال پر پابندی لگائی جائے۔
(6) طالبان کو ایندھن کی فراہمی پر پابندی لگائی جائے اور اس کے ساتھ ان تمام فوجی اور رضاکاروں پر بھی پابندی لگادی جائے جو کسی بھی جارحانہ کارروائی کا حصہ بن سکتے ہوں۔
(7) اگر ایسے شواہد مل جائیں جن سے یہ علم ہو کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کا نیٹ ورک افغانستان میں موجود ہے اور افغانستان، القاعدہ کو پناہ دے رہا ہے تو پاکستان کو طالبان اور ان کی حکومت سے سفارتی تعلقات ختم کردینے ہوں گے۔ پاکستان طالبان کی حمایت سے دستبردار ہوجائے گا اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے کیلئے پاکستان امریکا کی معاونت کرے گا۔
(8) ان مطالبات میں چند مثلاً امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کیخلاف ہونے والی دہشت گردی کیخلاف عوام کی رائے پر پابندی عائد کردینا کافی مضحکہ خیز تھی۔ میری حکومت عوام کے جذبات کے اظہار پر کیسے پابندی لگاسکتی تھی جبکہ میں خود اظہار رائے کی آزادی کے حق میں ہوں اور اس کیلئے کوشاں بھی تھا۔
میں نے سوچا کہ افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنا غیر حقیقی فعل ہوگا اور یہ ہمارے مفاد میں بھی بہتر نہیں تھا۔ طالبان حکومت کے خاتمے تک امریکا کو افغانستان تک رسائی کیلئے ہماری ضرورت تھی۔ اس قسم کے فیصلے کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات تصور کئے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے تمام واقعات اور طریقوں کے خاتمے کیلئے ہمارے عملی قدم اٹھانے میں کوئی دشواری نہیں تھی۔ درحقیقت ہم امریکا کا شکار بننے سے قبل ہی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بے چین تھے۔
یوں ہمیں مطالبہ نمبر 2 اور 3 سے مسائل درپیش ہوسکتے تھے۔ اپنے اسٹرٹیجک اثاثوں کو خطرے میں ڈالے بغیر ہم امریکا کو خفیہ پروازوں کی آمد و رفت کی اجازت کیسے دے سکتے تھے؟
اس مقصد کیلئے میں نے حساس علاقوں سے دور رہتے ہوئے محدود فضائی راستوں کی پیشکش کی ان کے مطالبہ پر ”ہم بندرگاہوں، ہوائی اڈوں اور سرحدوں پر اپنے اہم مقامات“ امریکا کو کیسے دے سکتے تھے؟
ہم نے اپنی بندرگاہیں اور فضائی اڈے دینے سے انکار کردیا۔ ہم نے صرف بلوچستان میں شمسی اور سندھ میں جیکب آباد کے دو فضائی اڈے امریکی جہازوں کو سامان کی فراہمی کیلئے دیئے تھے۔ وہاں سے کوئی حملہ ہرگز نہیں کیا گیا۔ باقی ماندہ مطالبات پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔
میں ان مطالبات کو کابینہ میں لے گیا۔ میں نے مختلف مکاتب فکر سے ملاقاتیں کیں۔ 18 ستمبر سے 3 اکتوبر تک کے درمیانی عرصے میں دانشوروں، ایڈیٹروں، کالم نگاروں، ماہرین تعلیم، قبائلی سرداروں، طلباء اور مزدور یونین کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ میں چین کے وفد سے بھی ملا اور ان کے ساتھ اس فیصلے پر گفتگو کی۔
اس کے بعد ملک بھر کی چھاؤنیوں میں گیا اور فوجیوں سے مشاورت کی ایک جامع عمومی رائے کے بعد ہی فیصلہ کیا گیا۔ مجھے اس وقت بڑی مسرت ہوئی جب امریکا نے ہماری جوابی تجاویز کو بغیر کسی لیت و لعل کے قبول کرلیا۔ بہرحال مجھے بڑا صدمہ ہوا جب مجھ پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ میں نے فوری طور پر کولن پاول کی ٹیلی فون کال پر ان کے تمام مطالبات مان لئے تھے۔میں نے اپنے فیصلے کے تمام عقلی دلائل تفصیلات سے پیش کردیئے ہیں اور مجھے اس پر قطعاً کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ پاکستان کے مفاد میں یہ ایک صحیح فیصلہ تھا۔بحیثیت صدر پاکستان میں نے بہت سے چیلنجر کا سامنا کیا ہے اور بڑے مشکل فیصلے کئے ہیں۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ مجھے یقین ہے کہ میں نے صحیح فیصلہ کیا تھا اور مجھے کامل اعتماد ہے کہ عوام کی اکثریت اس سلسلے میں میری ہم خیال ہوگی۔
میں دل پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں نے تمام معاملات میں پاکستان کے مفادات کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ میرا نصب العین ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ ”سب سے پہلے پاکستان“
تازہ ترین