• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصور کے واقعے پر آئی جی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

Ig Report Submitted To Supreme Court In Kasuri Incident

ننھی زینب پر تشدد کیا گیا ، چہرے کی ایک ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی ، آئی جی پنجاب نے سپریم کورٹ میں تفصیلی رپورٹ جمع کرادی، 67 مشتبہ افراد کے ڈی این اے سیمپل پنجاب فارنزک لیب بھجوائے جا چکے ہیں ، ملزم کی اطلاع دینے پر ایک کروڑ روپے انعام کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔

آئی جی پنجاب پولیس نے سپریم کورٹ میں قصور واقعہ کی رپورٹ جمع کرادی ۔

پولیس رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ4جنوری کی شام 7 بجے محمد عدنان نے تھانے میں بچی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی کہ اس کی بھتیجی زینب امین جس کی عمر 7 سال ہے ، وہ اپنے کزن محمد عثمان کے ساتھ خالہ کے گھر قرآن پڑھنے گئی تھی،محمد عثمان تو استانی خالہ کے گھر پہنچ گیا لیکن زینب وہاں نہیں پہنچی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زینب کی خالہ نے سمجھا کہ بچی گھر واپس چلی گئی ہوگی لیکن وہ گھر واپس نہیں پہنچی تھی۔ اس کے بعد عدنان نے اپنے بھائی اور بھتیجے کے ہمراہ زینب کو ڈھونڈنا شروع کیا، ساڑھے 9 بجے بچی کی گمشدگی کی اطلاع 15 پر بھی دی گئی اور پھر مقدمہ درج ہوا۔

ایف آئی آر نمبر 8/2018 ضابطہ فوجداری کی دفعہ 363 کے تحت درج کی گئی، پولیس رپورٹ کے مطابق ایف آئی آر درج ہونے کے بعد بچی کی بازیابی کے لیے ایس ڈی پی او ز سٹی اور صدر کی سربراہی میں ٹیمز تشکیل دی گئیں ، 8 ایس ایچ اوز نے پوری پولیس فورس کے ذریعے آپریشن کیا، 80 کے قریب مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی گئی ، وقوعہ کا معائنہ کیا ، شہادیں اکٹھی کیں،زیر تعمیر مکانوں کی تلاشی بھی لی، پولیس کو جو سی سی ٹی وی وڈیو ملی اس کی کوالٹی اچھی نہیں تھی، یہ فوٹیج لاہور بھجوائی گئی ہے تاکہ اس کی کوالٹی بہتر کی جاسکے۔

پولیس رپورٹ کے مطابق 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے بچی کی لاش ملی، بچی کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا، زیادتی ثابت ہوئی، چہرے کی ایک ہڈی ٹوٹی ہوئی اور چہرے پر مختلف زخموں کے نشانات بھی تھے،بچی کے ڈی این اے سیمپل فارنزک لیب بھجوا دیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچی کی لاش ملنے پر بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے اور مشتعل مظاہرین نے ڈی سی آفس پر حملہ کردیا، پرائیویٹ اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا،ڈپٹی کمشنر قصور کے گارڈ نے فائرنگ کی ، واقعہ کا انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، پنجاب حکومت نے 10 جنوری کو زینب کیس میں جے آئی ٹی تشکیل دے دی جس کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی انوسٹی گیشن ابوبکر خدابخش ہیں۔

پولیس رپورٹ کے مطابق عینی شاہد کے بیان پر ملزم کا خاکہ بنایا گیا ہے، 67 مشتبہ افراد کے ڈی این اے سیمپل بھی پنجاب فارنزک لیب بھجوائے گئے ہیں، پنجاب پولیس نے ملزم کی اطلاع دینے والے کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کا بھی اعلان کیا ہے، ملزم کی گرفتاری کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے اور تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔

پولیس رپورٹ کے مطابق 2016 اور 2017 میں اسی طرح کے 4 واقعات سامنے آئے، زیادتی کے بعد قتل کے ان 4 میں سے 2 واقعات تھانہ صدر اور 2 قصور ڈویژن میں ہوئے تھے ۔

تازہ ترین