ہمارے ساتھ ”شیرآیا‘ شیر آیا“ کی اتنی وارداتیں ہو چکی ہیں کہ اس مرتبہ جب تک واقعی شیر نہیں آ جاتا‘ ہم اس پکار کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے لیڈروں اور میڈیا نے جنگ و جدل کی جو فضا بنانے کی کوشش کی اور جس پہ امریکہ کی طرف سے پورا بلکہ کچھ زیادہ حصہ ڈالا گیا‘ پاکستانی عوام میں اسے خاص پذیرائی نہیں ملی۔ لوگ اس سارے جوش و خروش اور جنگ آزمائی سے اسی طرح بیگانہ رہے‘ جیسے کوئی روزمرہ کی بات ہو۔ کچھ چینلز نے عام آدمی کا ردعمل دینے کی کوشش کی۔ مگر دس میں سے ایک ہی ایسا ہو گا‘ جس نے امریکہ کے خلاف جوش و جذبے کا اظہار کیا اور وہ بھی اس لئے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت امریکہ پر پہلے ہی سے ناراض ہے۔ مگر جب سے حکمرانوں اور میڈیا نے جنگی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی‘ تو لوگوں نے اپنے غصے پر تھوک دیا۔ کسی کو یقین ہی نہیں کہ ہمارے حکمران امریکہ سے لڑیں گے۔ بیشتر کا خیال یہی تھا کہ دونوں میں کوئی ان بن ہو گئی ہو گی۔ جو ختم ہو جائے گی۔خوامخواہ اپنا بلڈپریشر بڑھانے کا کیا فائدہ؟ ہمارے لیڈر اور دانشور اس خیال میں رہتے ہیں کہ عوام کو کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ جبکہ عوام سے زیادہ شاید ہی کسی کو پتہ ہوتا ہو۔ وہ جب بھی اجتماعی طور پر کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ درست نکلتا ہے۔ جبکہ حکمرانوں کے فیصلے عموماً غلط ثابت ہوئے ہیں۔ امریکہ کے خلاف نعرے بازی سے پاکستانی عوام کی عدم دلچسپی کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔
ہمیں وطن کے نام پر جنگ اور اسلام کے نام پر جہاد کے لئے بار بار جوش دلایا گیا اور ہر بار پتہ یہ چلا کہ سب ڈھکوسلا تھا۔ جوش و خروش کے سے صرف خون ہی نہیں جلا‘ بیکار خون بہانا بھی پڑا اور مشکلات بھی پہلے سے زیادہ ہو گئیں۔ پہلا جوش ہمیں اس وقت آیا جب جہاد کشمیر شروع کیا گیا۔ ہمیں یقین دلا دیا گیا کہ جموں و کشمیر ہمارا ہے اور ہم اسے لے کر رہیں گے۔ پورے مغربی پاکستان میں جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی۔ ہزاروں لوگ جہاد کے لئے جوق در جوق نکل کھڑے ہوئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ کشمیر پر تو بھارت کا قبضہ ہو گیا ہے اور ہمارے پاس وہی علاقے رہ گئے ہیں ‘ جنہیں آج آزاد کشمیر کہا جاتا ہے۔ دوسری مرتبہ جوش و خروش اس وقت پیدا ہوا جب ہمیں بتایا گیا کہ بھارت نے ہماری سرحدوں پر اپنی فوجیں کھڑی کر دی ہیں۔ جواب میں لیاقت علی خان نے مکا دکھایا اور عوام جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر دشمن کو سبق سکھانے پر تل گئے۔ بعد میں کچھ بھی نہ ہوا۔ رن کچھ کی لڑائی ہوئی تو ہمیں بتایا گیا کہ ہم نے بھارت کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر کے فتح حاصل کر لی ہے۔ تفصیل معلوم ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ تو تھوڑا سا دلدلی علاقہ ہے‘ جس میں کھارے گارے کے سوا کچھ نہیں۔ 1965ء میں ایک مرتبہ پھر جوش و خروش کا طوفان اٹھا‘ جب ہمیں بتایا گیا کہ دشمن نے رات کے اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کر دیا ہے۔ ہمارے عوام اور ہماری فوج کے افسروں اور جوانوں نے بے مثال قربانیاں پیش کر کے بھارت کے اچانک حملے کو پسپا کر دیا۔ یہ عوام کا کارنامہ تھا۔ لیکن حکمرانوں کے لئے یہ حملہ اچانک نہیں تھا۔ اکھنور کے محاذ پر جنگ ہماری حکومت نے شروع کی تھی اور ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں مسلح جنگجو داخل کر دیئے تھے۔ بھارت نے اس کے جواب میں حملہ کیا تھا۔ یہ پاکستان کی مسلح افواج اور عوام کا جوش و جذبہ تھا‘ جس نے بھارت کے جوابی عزائم کو ناکام بنایا۔ نتیجے میں ہمارے حکمران نہ صرف جنگ بندی پر آمادہ ہوئے بلکہ معاہدہ تاشقند پر دستخط کر کے وہ کشمیر پر پاکستان کے روایتی موقف سے بھی پیچھے ہٹ گئے۔ 1971ء میں ایک بار پھر جنگی جذبات بیدار کئے گئے۔ ہم پھر قومی ترانے گاتے ہوئے جنگ کے لئے تیار ہو گئے۔ مگر چند ہی روز کے بعد پتہ چلا کہ جنگ تو مشرقی پاکستان میں ہی ختم ہو گئی اور ہمارے حکمرانوں کے احکامات پر جنرل نیازی نے ڈھاکہ میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار پھینک دیئے۔ اس جنگ کے نتیجے میں جو شرمندگی اور ہزیمت اٹھانا پڑی‘ وہ ہمارے عوام کے لئے ایک اذیت ناک تجربہ تھا۔ 1979میں ہمیں پتہ چلا کہ ہم پر جہاد واجب ہو گیا ہے۔ یہ خبر ہمیں امریکہ نے سنائی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ڈالر اور اسلحہ دیا اور عرب ملکوں کے جتنے چور اچکے‘ یورپ میں پناہ گزین تھے‘ انہیں جمع کر کے ہمارے قبائلی علاقوں میں پہنچا دیا اور سادہ لوح قبائل کو بتایا گیا کہ یہ اسلام کی خاطر جہاد کرنے آئے ہیں۔ اس دور میں عرب ملکوں سے کچھ سادہ لوح اور جذباتی افراد بھی سچ مچ جہاد کے لئے آ گئے تھے۔ مگر ان کی تعداد بہت کم تھی۔ ابتداء میں ہمارے علاقوں سے جانے والے جنگجوؤں نے پرامن افغانوں کی بستیوں پر بم اور راکٹ چلائے۔ یہ غریب بھاگ کر پاکستان آنے لگے اور ان کے مہاجر کیمپوں سے افغانوں کو جمع کر کے ہم نے مجاہد بنانا شروع کر دیے اور آہستہ آہستہ اپنی عمدہ تربیت اور جدید ہتھیاروں کے بل بوتے پر یہ قابض روسی افواج کو زک پہنچانے لگے۔ اس جنگ نے روس کو سیاسی اور معاشی اعتبار سے کمزور کر دیا اور اس نے افغانستان سے فوجیں نکال لیں۔جب افغانستان ‘ مجاہدین کے قبضے میں آیا تو اللہ کی راہ میں لڑنے والے ان مجاہدین نے ایک دوسرے کا قتل عام شروع کر دیا۔ امریکہ ‘ سوویت افواج کی واپسی کے بعد جہاد‘ افغانستان اور پاکستان تینوں کو چھوڑ کے واپس چلا گیا اور تب سے افغانستان کی بلا ہمارے گلے پڑی ہے۔ کارگل کی جنگ کے موقع پر ہمیں پھر جوش دلایا گیا۔ یہ جوش اس وقت ٹھنڈا پڑا جب حملہ کرنے والے پاکستانی جنرلوں نے اپنے وزیراعظم سے کہا کہ امریکہ سے مدد مانگ کر ہمیں بچاؤ۔انتہا یہ ہوئی کہ جہاد افغانستان میں ہمارا اتحادی امریکہ‘ خود افغانستان پر فوجی قبضہ کر کے بیٹھ گیا اور اب وہ جہاد طالبان کے خلاف شروع ہو گیا‘ جنہیں ہم نے خود منظم کر کے افغانستان پر قابض کیا تھا۔ باقی ساری کہانی آپ جانتے ہیں۔ میں اسے دہراؤں گا نہیں۔ بات ان جنگوں اور جہادوں کی ہو رہی تھی‘ جن کے نام پر پاکستانی عوام کو جوش دلا کر قربانیوں کے لئے تیار کیا گیا اور ہر مرتبہ نتیجہ ہزیمت‘ پریشانی‘ ابتری‘ معاشرتی خرابیوں اور معاشی تباہی و بربادی کی صورت میں سامنے آیا۔ پہلے ہم ایک جنگجو قوم کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ اب ہمیں ایک ایسا ملک کہا جاتا ہے‘ جہاں سے دنیا بھر میں دہشت گردی کے منصوبے بنتے ہیں۔ ہر جنگ کے بارے میں ہمیں جو کچھ بتایا گیا‘ حقائق اس کے برعکس ثابت ہوئے۔ ہمارا ملک جو تیزرفتاری سے ترقی کر رہا تھا‘ جنگوں اور جہادوں کے کھیل میں پھنس کر زوال اور پسماندگی کی راہ پر چل نکلا اور آج تک اسی راہ پر چل رہا ہے۔ اب ہمارے حکمرانوں نے ایک بار پھر امریکہ کے خلاف جوش و خروش کی فضا پیدا کرنا شروع کی ہے۔ عوام اپنے پرانے تجربوں کی بنا پر جانتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کے نعرے کھوکھلے ہوتے ہیں۔ وہ جو کچھ کرنے کے دعوے کرتے ہیں‘ اس کے لئے نہ ان کی تیاری ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے پاس طاقت ہوتی ہے۔ بلاوجہ کسی نہ کسی کو دشمن قرار دے کر اس سے ٹکرا جاتے ہیں اور پھر انہیں جو شکست اور ناکامی ہوتی ہے‘ اسے ہمارے سر مڑھ دیا جاتا ہے اور ہم بلا وجہ یہ سوچ کر ڈپریشن میں ڈوب جاتے ہیں کہ ہمیں شکست ہو گئی۔ عوام اب جان چکے ہیں کہ جوش و خروش دلانے والے نئے نعروں کا انجام بھی پرانے نعروں کی طرح ٹائیں ٹائیں فش ہو گا۔ امریکہ نے ہماری امداد میں کمی کرنا ہے‘ ایسا وہ کر کے رہے گا۔ ہماری گیدڑ بھبھکیوں سے وہ ہماری امداد میں اضافہ نہیں کرے گا اور نہ ہی ماضی کی طرح کسی حساب کتاب کے بغیر ڈالر حکمرانوں کے حوالے کرے گا۔ ہمارے حکمرانوں کو نئے حالات کے تحت ہی امریکہ سے تعلقات نبھانے پڑیں گے۔ افغانستان کے بارے میں ہمارے موقف سے ہمدردی کرنے والے بہت ہوں گے۔ مگر ساتھ دینے والا کوئی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا اتحادی بھی کوئی نہیں۔ یا ہمارے مخالفین ہیں یا ہمیں ناقابل اعتماد سمجھنے والے۔پاکستانی عوام کی طاقت‘ ذہانت‘ توانائیوں اور ہنرمندیوں کا ساری دنیا اعتراف کرتی ہے اور ہمارے عوام اس کے مستحق بھی ہیں۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے ہمارا امیج بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔اس مرتبہ عوام حکمرانوں کے کسی بھی نئے فریب میں آنے کو تیار نہیں۔موجودہ سیاسی اور فوجی قیادت سے انہیں کوئی امید نہیں۔ لیکن پاکستان کے عظیم عوام ناامید ہونا بھی نہیں جانتے۔ انہیں تبدیلی پر یقین ہے۔ ساتھ یہ بھی یقین ہے کہ تبدیلی وہ خود لا سکتے ہیں۔ ان کے لیڈر اس قابل نہیں۔عوام تبدیلی کیسے لاتے ہیں؟ یہ سب کچھ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اب میں اپنی ٹوپی سے کوئی خرگوش نکال کر آپ سے کہوں گا کہ” آج سے یہ آپ کا لیڈر ہے۔“ خاطر جمع رکھیے‘ مری ٹوپی میں کوئی خرگوش نہیں۔ مصر‘ تیونس اور لیبیا میں میں انقلاب برپا ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود ان میں سے کسی بھی انقلاب کا کوئی لیڈر نظر نہیں آ رہا۔ ٹوپیوں سے نکالے گئے خرگوش ہمارے ہاں بھی لیڈر نہیں بنیں گے۔ ہمارے ہاں بھی انقلاب پہلے آئے گا اور لیڈر اس کے اندر سے برآمد ہوں گے۔