کراچی (ٹی وی رپورٹ)وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانون بیرسٹر ظفر اللہ خان نے کہا ہے کہ معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی حیوانیت کی بھی بدترین شکل ہے، قصور جیسے مکروہ اور غم ناک واقعات پر لوگوں کا ردعمل کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا ، غم و غصے کا اظہار ہونا چاہئے یہ زندہ سماج کی نشانی ہے، اس سے حکومتوں پر دبائو پڑتا اور معاشرے میں بہتری آتی ہے، ایسے واقعہ پر جلائو گھیرائو یا سیاست کرنے سے تحقیقات پر اثر پڑتا ہے، دبائو کے باعث تحقیقات میں نقائص رہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ملزمان ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے چھوٹ جاتے ہیں۔وہ جیو کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد علی سیف بھی شریک تھے۔محمد علی سیف نے کہا کہ قصور واقعہ کے بعد اتنی زیادہ ہنگامہ آرائی کی ضرورت نہیں تھی، ہوسکتا ہے پنجاب حکومت کے سیاسی مخالفین نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہو، طاہر القادری کو پہلے کسی معصوم بچے کے جنازے پر جاتے نہیں دیکھا لیکن قصور وہ فوراً پہنچ گئے۔میزبان سلیم صافی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قصور کے سانحہ کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے، اٹھائیس اپریل 2016ء کو خیبرپختونخوا کے علاقے نتھیا گلی میں جرگہ کے حکم پرا یک بچی کو بیہوش کر کے گاڑی میں باندھ کر زندہ جلادیا گیا، اس وقت جس نے اس واقعہ پر سیاست چمکانی تھی اس نے چمکالی،ہم جیسے جن لوگوں نے اس پر صحافت چمکانی تھی اس نے صحافت چمکالی لیکن پھر ہم اس کو بھول گئے، اسی طرح سیاست اور صحافت چمکانے کے بعد ایک دن ہم قصور کے واقعہ کو بھی بھول جائیں گے۔سلیم صافی نے مزید کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایک ایسا ہی دلخراش واقعہ ہوا تھا جس میں ایک بچی کو ناکردہ گناہ میں برہنہ کر کے گلیوں میں گھمایا گیا، اس پر بھی کچھ وقت کیلئے اسی طر ح سیاست اور صحافت چمکائی گئی۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانون بیرسٹر ظفر اللہ خان نے کہا کہ معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی حیوانیت کی بھی بدترین شکل ہے، ہمارے سماج کی اخلاقی قدریں بہت کمزور ہیں جس کی وجہ سے ایسے واقعات پنپتے ہیں، ہمارا سماج عمومی طور پر عورت اور بچے کے بارے میں رائے ٹھیک نہیں رکھتا ہے، ایسے واقعات وہاں زیادہ ہوتے ہیں جہاں سزا و جزا کا نظام نہ ہو، بدقسمتی سے ہماری پولیس کی کارکردگی اچھی نہیں ہے، ہماری حکومتیں ستر سال میں ان معاملات کوحل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان کا کہنا تھا کہ ہمارا نظام تعلیم و تربیت وہ ماحول پیدا نہیں کررہا جہاں انسان کو اعلیٰ اقدار سکھائی جائیں، ایسے واقعات کی عمومی وجوہات اخلاقی، سماجی اور تعلیمی ہوتی ہیں، اس میں حکومتوں کی نااہلی اور ان معاملات پر توجہ نہ دینا بنیادی اسباب ہیں، جو شخص اتھارٹی رکھتا ہے وہ ذمہ دار ہوتا ہے، حکمرانوں سے ان کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا، یہ معاملات کسی ایک آدمی یا کاز سے زیادہ بڑے ہیں، جب تک سماج کی بنیادی اخلاقیات ٹھیک نہیں ہوتیں ان واقعات کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ظفر اللہ خان نے کہا کہ قصور جیسے مکروہ اور غم ناک واقعات پر لوگوں کا ردعمل کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے، غم و غصے کا اظہار ہونا چاہئے یہ زندہ سماج کی نشانی ہے، اس سے حکومتوں پر دبائو پڑتا اور معاشرے میں بہتری آتی ہے، ایسے واقعہ پر جلائو گھیرائو یا سیاست کرنے سے تحقیقات پر اثر پڑتا ہے، اس صورتحال میں پولیس دبائو میں آکر تفتیش کرتی ہے اس لئے تحقیقات میں نقائص رہ جاتے ہیں، نچلی عدالت کا جج بھی دبائو میں سزا دے سکتا ہے لیکن ملزم ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں چھوٹ جاتے ہیں۔ایم کیو ایم کے رہنما محمد علی سیف نے کہا کہ ہم انسان کہلاتے ہیں لیکن ہمارے رویے حیوانی ہیں، مذہب نے ہمارے رویوں کو کنٹرول کر کے انسان بنایا ہے،معاشرے کے رویوں کا اثر انسان کے انفرادی رویے پر بھی ہوتا ہے، ہمارے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کی ذمہ داری ہمارے اجتماعی نظام اور اسے کنٹرول کرنے والے لوگوں پر عائد ہوتی ہے، معاشرے میں کسی خرابی کے ذمہ دار حکمران ہوتے ہیں۔ محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ انفرادی اخلاقیات سے شروع کر کے اجتماعی اخلاقیات تبدیل کی جانی چاہئے، قانون کی گرفت نظام سے ہوتی ہے، حکومت پولیس کو وسائل دے تاکہ وہ جدید سہولیات استعمال کرتے ہوئے اچھی تفتیش کرسکے اور اچھے قابل لوگ پولیس میں آسکیں۔