• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر عارف کی موت، سیاسی اثرات کیا ہوں گے؟

Death Of Hassan Zafar Arif What Will Be The Political Impact

متحدہ قومی موومنٹ (لندن) کے ڈپٹی کنوینر حسن ظفر عارف کی اچانک موت تاحال معمہ بنی ہوئی ہے۔حسن ظفر عارف ہفتے کی سہ پہر ڈیفنس میں واقع اپنی رہائش گاہ سے آرٹس کونسل کے قریب پارٹی کی لیگل ایڈ کمیٹی کے رکن عبدالمجید کاروانی سے ملنے گئے تھے۔

عبدالمجید کاروانی کہتے ہیں، ’’پروفیسر صاحب میرے آفس آئے اور شام سات بجے کے قریب گھر یہ کہہ کر لوٹ گئے کہ بیٹی کو اتوار کے روز بیرون ملک جانا ہےتاہم اتوار کی صبح ان کی اہلیہ کا فون آیا جنہوں نے بتایا کہ حسن ظفر عارف رات بھر گھرنہیں آئے اور فون بھی نہیں اٹھا رہے۔ پھر کچھ دیر بعد ان کی موت کی خبر موصول ہوئی تو میں اسپتال پہنچا جہاں ان کے اہل خانہ بھی موجود تھے۔‘‘

پولیس کا موقف ہے کہ حسن ظفر عارف کی لاش ریڑھی گوٹھ کے ویرانے میں کھڑی گاڑی کی پچھلی نشست سے برآمدہوئی تاہم ان کے جسم کے کسی بھی حصے پر چوٹ یا تشدد کا نشان نہیں ہے۔ لاش اسپتال منتقل کیے جانے پر جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ایمرجنسی ڈاکٹر سیمی جمالی نے بھی پولیس کے بیان کی تائید کی لیکن پھر بھی کئی گھنٹوں تک پوسٹ مارٹم جاری رہا اور ایکسریز کے بعد رپورٹ محفوظ کرلی گئی۔

بہتر سالہ حسن ظفرعارف 80 کی دھائی میں کراچی یونیورسٹی کے مقبول ترین لبرل اور بائیں بازو کے آزاد خیال اساتذہ میں شمار ہوتے تھے۔ انہیں جنرل ضیاء دور میں غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا تھا اور اسی وجہ سے وہ ملازمت سے بھی برطرف کردئیے گئے تھے۔

جیل سے رہائی کے بعد حسن ظفر عارف نے خود کو تعلیمی سرگرمیوں تک محدود کرلیا تھا تاہم اپنے خیالات پر ماضی کی طرح کاربند رہے۔

بائیس اگست 2016 کو جب پارٹی کے بانی رہنمانے کراچی پریس کلب پر ایک اجتماع میں اپنی ٹیلی فونک تقریر میں پاکستان مخالف نعرے لگائے اور کراچی میں موجود پارٹی قیادت نے الطاف حسین سے لاتعلقی کا اظہار کردیا، اس وقت کوئی الطاف حسین کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں تھا، ایسے میں پروفیسر حسن ظفر عارف نے ایم کیو ایم کے نظرئیے کے خلاف سوچ رکھنے کے باوجود اپنے کئی دیگر ساتھیوں سمیت پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے نتیجے میں انہیں جیل بھی جانا پڑا۔

جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کئی ماہ بعد رہائی ملی تو جیل کے دروازے سے ہی انہیں پولیس نے دوبارہ حراست میں لے لیا اور وہ کئی ماہ تک جیل میں رہے۔

ایم کیو ایم لندن اور پاکستان دونوں نے پروفیسر حسن ظفر عارف کی موت کو قتل قرار دیا ہے تاہم دونوں کی جانب سے اس کی ممکنہ وجوہات الگ الگ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دیگر سیاسی جماعتوں نے فی الحال اس معاملہ پر محتاط رویہ اختیار کیا ہوا ہے مگر سوشل میڈیا پر شہری بلاتفریق اسے قتل قرار دے کر اپنے اپنے انداز میں اس کی مذمت کر رہے ہیں۔

البتہ کراچی کی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی مظلومیت اور مقبولیت دونوں اس ایک اچانک موت کے باعث بڑھے گی اور یہ موت ایم کیو ایم کو پھر سے سیاسی دوام بھی بخش سکتی ہے اور جب تک حسن ظفر عارف کی موت کا معمہ حل نہیں ہوتا، تب تک اس کا فائدہ ایم کیو اہم کو ہی ہو گا۔

تازہ ترین