اسلام آباد(فصیح الرحمن خان)تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی طاہر القادری کے مظاہرے میں شرکت سے پی ٹی آئی رہنمائوں کو ڈرہے کہ اس سے پنجاب میں ووٹ بینک کو خطرہ ہے ،تحریک انصاف رہنما اب تک پی پی پر حملے کررہے تھے ،تفصیلات کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کا مال روڈ لاہور پر احتجاج کے باوجود سیاسی حکمت عملی میں یہ بہت کچھ کھوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور یہ اس کھیل کا اختتام ہے،کچھ سیاسی شخصیات محسوس کرتی ہیں کہ اس سے عوامی حمایت حاصل نہیں بلکہ یہ اس طرح اختتام ہوتے دکھائی دیتا ہے کہ اس سے اپوزیشن کو سیاست میں کچھ حاصل نہیں ہوگا،ایسا بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ایک مظاہرہ ایک بڑی مہم میں بدل جائے گی لیکن ماضی میں جنوری تا فروری عمران خان نہ کہ آصف زرداری طاہر القادری کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہونگے،اہم اپوزیشن شخصیات پہلے ہی سپریم کورٹ کے پاناما فیصلے پر بے چینی میں مبتلا ہیں کہ اس فیصلے سے شریف خاندان کو ریلیف ملا ہےاوراب عوامی تحریک کے مظاہرے سے اتنی توقعات نہیں ہیں لیکن ایسا سوچتے ہیں کہ یہ مسلم لیگ (ن) اور پنجاب حکومت کیخلاف مظاہرے کی سیریز کی طرف پہلا قدم ہے،اس اہم موقع پر بڑے سیاسی کھلاڑی یہ سوچتے ہیں کہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے اس معاملے سے ہاتھ ہٹا رکھا ہے،ایک اہم حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ طاقتور کوارٹرز کسی بھی سیاسی سرگرمی کی طرفداری کیلئے تیار نہیں ہے ،تما م سیاسی جماعتیں سال 2018 کے عام انتخابات کیلئے میدان میں ہیں،لیکن تحریک انصاف کے بعض ارکان اس بات سے بھی خوفزدہ ہیں کہ اس سے 2018 کے وزیر اعظم کیلئے شہباز شریف کو فائدہ ہوسکتا ہے،اس لیے تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے اپنی تازہ ہدایات میں بدھ کو اپنے پارٹی رہنمائوں کو ٹوکن احتجاج کے بعد متحرک ہوجانے کیلئے کہا ہے اور کہا ہے کہ (ن)لیگ کے ساتھ آئندہ انتخابات میں کھلنے کیلئے پچ پر آجائیں،تحریک انصاف کا خیال ہے کہ طاہر القادری اس صورت میں پنجاب حکومت کیلئے مسائل پیدا کرسکتے ہیں کہ اگر آنے والے دنوں میں مظاہرہ سال 2014 کے ماڈل ٹائون واقعے پر جاری رہے ،اب تک ایسے چانسز بہت کم ہیں کہ اس سیاسی دھوم دھام اور شو سے پنجاب حکومت یا شہباز شریف ہٹ جائینگے۔ڈاکٹر طاہر القادری تحریک انصاف اور پی پی کے بڑے رہنمائوں کو بدھ کو ہونے والے لاہور مظاہرے میں ایک ہی اسٹیج پر مسلم لیگ (ن)اور شریفوں کیخلاف لاسکتے ہیں لیکن اس سے کچھ پی ٹی آئی ارکان پریشان بھی ہیں۔ان میں سے بعض کو لگتا ہے کہ ان کا آصف زرداری کے ساتھ اسٹیج پر اکٹھے ہونا پارٹی کے موقف کو کمزور کرتا ہے اور اس سے پنجاب میں ووٹ بینک کیلئے غلط پیغام جائے گا۔اب تک تحریک انصاف کے رہنما پی پی رہنما آصف علی زرداری پر حملے جاری رکھے ہوئے تھے ،عمران خان کو مشورے دیے گئے ہیں کہ وہ پنجاب میں کچھ حاصل کرنے کیلئے دھیمے رہیں،پس پردہ معلوم ہوا ہے کہ اگر قومی اسمبلی سے زیادہ استعفے آجاتے ہیں تو پی پی اور تحریک انصاف رہنمائوں کو لگتا ہے کہ انتخابات جلد ہوجائینگے ،پی پی رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ کوئی بھی طاہر القادری کیلئے ایسی قربانی دے کر بڑی قیمت چکانا نہیں چاہتا،عوامی تحریک صرف ہمیں ایک اہم موقع فراہم کررہی ہے۔پیپلز پارٹی کیلئے لمحہ ہے کہ وہ طاہر القادری کے ساتھ ایک میل آگے چل کر پنجاب میں اپنا ووٹ بینک بنانے کی کوشش کرلے،لیکن عمران خان معمولی سی حمایت اس لیے کرنا چاہتے ہیں کہ وہ آئندہ انتخابات کیلئے پنجاب حکومت پر دبائو ہوجائے ،کچھ تحریک انصاف رہنما یہ بھی سوچ رہیں کہ اس مظاہرے میں شریک ہونے سے اور پی پی کے ساتھ کھڑے ہونے سے ایک غلط پیغام جائے گا اور ووٹ بینک کو بھی دھچکا لگے گا۔تحریک انصاف کے ایک رہنما کاکہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ ایسا پیغام گونجے کہ اپوزیشن (ن)لیگ اور خصوصی طور پر سابق وزیر اعظم کیخلاف ایک پلیٹ فارم پر ہو ۔انہوں نے مزید کہا کہ نوازشریف کے مخالف تمام اپوزیشن سیاسی جماعتیں آئندہ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو کمزور کردےگی۔