• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں گویا احتجاج کا موسم آن پہنچاہے،شعلہ نوائی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ کسی معاشرے میں احتجاج کی لہر کیوں اٹھتی ہے؟ عمومی طور پر یہ سماجی نا انصافی کے باعث نظام سے مایوسی کا شاخسانہ ہوتی ہے۔گاہےکوئی سانحہ لوگوں کو احتجاج پر آمادہ کر دیتا ہے۔ پاکستان میں صورتحال عجیب ہے کہسیاسی عناصر جو خود طبقہ اشرافیہ سے متعلق ہیں، اپنے اپنے مقاصد کے تحت احتجاج کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ دم تحریر لاہور میں صوبائی اسمبلی کے سامنے جلسہ گاہ سج چکی، جہاں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے انصاف کے حصول کی خاطر خطاب کریں گے، بقول ان کے آصف زرداری اور عمران خان بھی ان کے ساتھ ہوں گے۔پیر حمید الدین سیالوی نے 20جنوری کو داتا دربار سے پنجاب اسمبلی تک ختم نبوت مارچ کا اعلان کیا ہے تو ڈاکٹر اشرف جلالی 27جنوری سے جیل بھرو تحریک کا ۔ جمعیت علمائے پاکستان نیازی نے بھی احتجاج میں شرکت کا اعلان کیا ہے۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ قاد ری، عمران پہلے کی طرح اب بھی ناکام ہوں گے، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے احتجاجی عناصر کو قوم کا وقت ضائع نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ مذکورہ بالا تمام صورت حال حکومت کے لئے بلاشبہ مشکلات پیدا کر سکتی ہے، اگر حکومت اپنی مدت پوری کرنے کی خواہاں ہے تو اسے ان سب جماعتوں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنا ہوگا جو احتجاج کر رہی ہیں یا کرنے والی ہیں۔ سب جماعتوں کو وطن عزیز کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا جائے اور صرف اپنی منوانے کی روش کو ترک کر کے دوسروں کے جائز مطالبات پر غور وخوض اور عملدرآمد کی ہامی بھرلی جائے تو یہ سلسلہ بخیر و خوبی انجام پذیر ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے حالات اس امر کے متحمل نہیں کہ احتجاج ہوں اور ان کا سلسلہ پھیلتا چلا جائےکہ اس میں مذہبی عنصر نمایاں ہے۔ سیاسی جماعتوں کو دانش مندی اور حب الوطنی کا ثبوت دینا چاہئے، ورنہ سب کے ہاتھ سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ آئےگا۔

تازہ ترین