ہفتہ 22 اکتوبر 2011ء کو ممتاز اینکر اور صحافی سلیم صافی کا وہ انٹرویو جیو ٹیلی ویژن پر نشر ہوا جو انہوں نے ایک روز قبل جمعتہ المبارک کو افغانستان میں افغان صدر حامد کرزئی صاحب سے لیا تھا، یوں تو انٹرویو خاصا طویل تھا لیکن اس میں چند ایک ایسی مثبت باتیں بھی سامنے آئیں جو افغان صدر حامد کرزئی نے سلیم صافی کے پوچھے جانے والے سوالات کے جواب میں کہیں۔ حامد کرزئی صاحب کی ان مثبت باتوں سے امن پسند اور حقیقت پسند عوام کو نہ صرف خوشگوار حیرت ہوئی بلکہ کچھ لوگ تو یہ کہتے ہوئے بھی سنے گئے کہ کاش افغان صدر حامد کرزئی اور افغانستان کے عوام کڑے اور برے وقتوں میں بڑھ چڑھ کر پاکستان کا اسی طرح سے ساتھ دیں جس کا اظہار افغان صدر حامد کرزئی نے پاکستان کے حوالہ سے انتہائی نیک جذبات اور خیالات سے کیا ہے ۔ کچھ لوگوں نے تو افغان صدر حامد کرزئی کے مثبت جوابات اور خیالات سن کر خوشی کے عالم میں یہ جملے بھی کہہ ڈالے کہ افغان صدر حامد کرزئی کے یہ جملے تپتے ہوئے صحرا میں برسنے والے پانی کے وہ قطرے ہیں جس سے صحرا کی نہ صرف تپش میں کمی ہوئی بلکہ ٹھنڈی ہوائیں بھی چلنا شروع ہوگئیں۔ کاش پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں جو تپش ہے وہ بھی ختم ہو اور موسم خوشگوار اور ماحول پرسکون ہو جائے۔
قارئین کرام آیئے ! سلیم صافی کے پوچھے جانے والے چند سوالات اور افغان صدر حامد کرزئی صاحب کے جوابات کو دوبارہ نقل کئے دیتا ہوں تا کہ وہ قارئین بھی انہیں پڑھ سکیں جو انٹرویو دیکھنے سے محروم رہے۔
سلیم صافی: پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر جنگ ہوتی ہے تو آپ کس کا ساتھ دیں گے ؟
افغان صدر حامد کرزئی: یقیناً افغانستان پاکستان کا ساتھ دے گا ۔
سلیم صافی: اور اگر امریکا اور پاکستان کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو اس صورت میں افغانستان کی کیا پالیسی ہوگی ؟
افغان صدر حامد کرزئی: ہر صورت میں ہم پاکستان کا ساتھ دیں گے ۔ ہم تو اس سے بھی آگے جانا چاہتے ہیں کہ ہر جنگ کی صورت میں افغانستان، پاکستان کے ساتھ ہر حد تک جانے اور کسی بھی قوت کی ناراضگی مول لینے کو تیار ہے ۔
قارئین کرام! یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ دوران انٹرویو افغان صدر حامد کرزئی صاحب کا انداز گفتگو اور لہجہ انتہائی نرم اور مفاہمانہ تھا ۔ حامد کرزئی صاحب کے اس انٹرویو نے پوری دنیا میں ایسی ہلچل مچا ڈالی کہ پوری بین الاقوامی دنیا کا کوئی بھی چوٹی کا اخبار ایسا نہ تھا جس میں یہ انٹرویو جلی سرخیوں کے ساتھ شائع نہ ہوا ہو لیکن اس کے برعکس کچھ ممالک اور اداروں میں ” حسد“ کی اوس بھی پڑ گئی۔ امریکی میڈیا اور بھارتی میڈیا میں افغان صدر حامد کرزئی کو پاکستان کے ایجنٹ ہونے کے القابات سے نوازا گیا اور افغان پارلیمنٹ کے ارکان بھی حامد کرزئی پر لعن طعن کرنے لگے۔ دوسری طرف اس انٹرویو پر سلیم صافی کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے بیہودہ اور من گھڑت الزامات کی دھواں دار برسات بھی کی جانے لگی۔ اس صف میں جہاں ایک جانب بعض قلم فروش صحافیوں نے اپنے اپنے کمالات دکھائے وہیں دوسری جانب نام نہاد غیر جانبدار اینکر پرسن بھی اپنی لفاظی کے جوہر دکھانے میں کسی سے پیچھے نہ رہے لیکن مجھے ذاتی طور پر ایک آرٹیکل پڑھ کر شدید صدمہ پہنچا کہ جب لعن طعن کا معاملہ حسد اور جلن سے نکل کر فسطائیت (CHAUVINISM) کی سرحدوں میں داخل ہوگیا اور موصوف کالم نگار نے صرف سلیم صافی کو ہی اپنی تنگ نظر سوچ کا شکار نہیں بنایا بلکہ ان کی پوری قوم کو بڑے ہی شاطرانہ انداز میں گالی بھی دے ڈالی اور بڑے ہی جگلری کے انداز میں اپنی تنگ نظری کو چھپانے کی خاطر برطانوی صحافی کا حوالہ دیکر خودکو چھپانے کا مظاہرہ کچھ اس طرح کیا کہ
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
ان کالم نگار موصوف نے اپنے آرٹیکل میں برطانوی صحافی لوسی مارگن ایڈورڈز (Lucy Morgan Edwards) کے حوالے سے پختونوں کے خلاف ایک محاورہ نقل کیا ہے میں بعض حاسدوں کی جانب سے سلیم صافی اور پختون قوم کو پہنچنے والے دکھ اور کرب پر ان سے اظہار ہمدردی کرتا ہوں۔ سلیم صافی نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور پاکستان سے محبت میں یہ سب محنت کی جس پر وہ شاباش ااور خراج تحسین یک مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر افغان صدر حامد کرزئی صاحب کا نہ صرف انٹرویو لیا بلکہ ان کے منہ سے پاکستان کیلئے مفاہمانہ اور دوستی کا پیغام بھی لیا جسے پوری دنیا نے دیکھا اورسنا مگر یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک جانب سلیم صافی کو افغانستان میں آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیا جارہا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان میں انہیں افغانستان اور صدرحامد کرزئی صاحب کا ایجنٹ قرار دیا جارہا ہے اور تیسری طرف پختونوں کے خلاف نفرت انگیز اور انتہائی بے ہودہ جملے استعمال کئے جارہے ہیں۔ ان نفرت انگیز جملوں کو کسی ایک یا چند افراد سے وابستہ کرنا ہر گز درست نہ ہوگا بلکہ یہ ایک سوچ کا نام ہے جو تعصب اور فسطائیت پر مبنی ہے اسی متعصبانہ اور فسطائی سوچ نے پاکستان کا بیڑہ غرق کر رکھا ہے اسی نفرت، عصبیت اور فسطائی سوچ نے پاکستان کو دو لخت کروایا۔ بنگالی مسلمانوں کو غدار قرار دلوایا عدم تشدد کے داعی باچا خان، بابا بلھے شاہ اور سائیں جی ایم سید سمیت درجنوں بڑی بڑی ہستیوں کو کفر اور غداری کے خطابات سے نوازا اسی نفرت، تعصب اور فسطائی سوچ نے بلوچ عوام میں نفرت کے بیج بوئے انہیں بار بار گولہ باروں سے دبانے کا عمل کیا۔ اسی فسطائی سوچ نے قیام پاکستان کیلئے 20/ لاکھ جانوں کی قربانیاں پیش کرنے والوں کے ان باقی ماندہ خاندانوں کو جنہوں نے پاکستان ہجرت کی انہیں بھی غدار قرار دیا۔ اگر ہم نے اس متعصبانہ اور فسطائی سوچ کو نہیں بدلا، ملک میں انصاف کا نظام قائم نہیں کیا، قانون قائم نہیں کیا، قانون کی علمداری قائم نہیں کی اور صبیت کا خاتمہ نہ کیا تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ۔ سلیم صافی صاحب! میں ایک مرتبہ پھر آپ کی دل شکنی کئے جانے کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے آپ سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اور آپ سے مودبانہ درخواست کرتا ہوں کہ سلیم صافی بھائی صبر کیجئے، اللہ تعالی صبر کرنے والوں کو اجر عظیم عطا فرماتا ہے اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ رکھیں وہی بہتر انصاف کرنے والا ہے۔ ا للہ تعالی آپ کو ہمت دے(آمین ثم آمین)