• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں دیگر پولیس مقابلے کی تحقیقات کا مطالبہ بھی سامنے آرہا ہے

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں میزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ کراچی میں دیگر پولیس مقابلے کی تحقیقات کا مطالبہ بھی سامنے آرہا ہے،شہباز شریف نیب کی کارکردگی پر سوال اٹھارہے ہیں تو عمران خان بھی نیب سے مطمئن نہیں ہیں،پاکستان میں موجود ایگزیکٹ سے جعلی ڈگری لینے والوں پر کسی نے توجہ نہیں دی۔میزبان نے اپنے تجزیئے میں مزید کہا کہ نقیب محسود کے لواحقین کراچی پہنچ چکے ہیں مگر اب تک تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے، کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں محسود برادری کا جرگہ ہوا جس میں محسود قبیلے کے عہدیداروں نے نقیب محسود قتل کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے، محسود عمائدین نے موقف اختیار کیا ہے کہ عدالتی کمیشن بننے تک احتجاج جاری رہے گا،نقیب محسود کے لواحقین نے اس کے قتل کا مقدمہ آج درج کروانے کا فیصلہ کیا ہے، مقدمہ میں دہشتگردی کی دفعات بھی شامل کی جائیں گی، دوسری طرف مبینہ جعلی مقابلہ کرنے والے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار تحقیقات سے فرار ہورہے ہیں، راؤ انوارنہ انکوائری ٹیم کے پاس پیش ہورہے ہیں نہ آئی جی سندھ کے پاس جارہے ہیں، راؤ انوار کی پوری ٹیم ہی تحقیقات سے فرار ہوگئی ہے، راؤ انوار اور ان کی ٹیم نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس پاکستان کے سامنے بھی پیش نہیں ہوئے، یہ ہیومن رائٹس کمیٹی وہ ریاستی ادارہ ہے جو انسانی حقوق کی پامالی پر اپنی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرتا ہے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ راؤ انوار کے بار بار طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر سوال اٹھ رہا ہے کہ راؤ انوار جب اعلیٰ پولیس افسران کو خاطر میں نہیں لارہے تو ملزمان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہوں گے، تحقیقاتی ٹیم واضح کرچکی ہے جعلی پولیس مقابلہ کا کیس نقیب محسود کے لواحقین کی مدعیت میں ہی درج کیا جائے گا، تحقیقاتی ٹیم کا موقف ہے کہ وہ نقیب کے لواحقین سے ملاقات کریں گے چاہے انہیں نقیب کے گھر ہی کیوں نہ جانا پڑا، تحقیقاتی افسر ایس ایس پی عابد قائم خانی نے خبردار کیا ہے اگر راؤ انوار پیش نہ ہوئے تو انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے، تحقیقاتی ٹیم کے مطابق راؤ انوار صرف پندرہ منٹ کیلئے کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اس کے بعد سے غائب ہیں، انہوں نے اپنا فون بھی بند کردیا ہے، گھر پر بھی وہ موجود نہیں ہیں لیکن بیانات وہ بہرحال جاری کررہے ہیں، راؤ انوار کے بیان کے مطابق ان کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی جارہی ہے ، جہاں سے انصاف ملتا ہوا نظر نہ آئے وہاں جاکر کیا کروں گا، راؤ انوار نے واضح کیا کہ ان کا اس معاملہ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، انہوں نے نہ تو نقیب محسود کو اٹھایا اور نہ ہی اس سے تحقیقات کی، انکوائری ٹیم کو دو پولیس افسران کے نام دیدیئے ہیں جنہوں نے ممکنہ طور پر نقیب کو اٹھا کر مارا، اس میں میرا کوئی کردار نہیں میں تو مقابلہ کے بعد پولیس کا مورال بلند کرنے کیلئے وہاں گیا تھا، راؤ انوار کا کہنا ہے کہ انہیں اسی طرح گمراہ کیا گیا جس طرح شاہراہ فیصل میں ہونے والے مبینہ مقابلے میں نوجوان کی ہلاکت کے بعد آئی جی سندھ کو گمراہ کیا گیا اور بعد میں وہ مقابلہ غلط ثابت ہوا، راؤ انوار کے مطابق کیا آئی جی سندھ اس میں ملوث ہوسکتے ہیں، اس سے پہلے راؤ انوار نے الزام لگایا کہ آئی جی سندھ کی قائم کردہ انکوائری کمیٹی کے دو افسران پر انہیں اعتبار نہیں ہے، انکوائری کمیٹی پر اعتراض لگا کر راؤ انوار خود غائب ہوگئے، راؤ انوار تحقیقات سے فرار ہورہے ہیں البتہ میڈیا پر بیانات جاری کررہے ہیں اور اپنے ہی موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، راؤ انوار نے اس سے پہلے واضح موقف اختیار کیا تھا کہ نقیب محسود کا مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے اور وہ مطلوب دہشتگرد تھا مگر اب وہ اس بات سےپیچھے ہٹ رہے ہیں اور ماتحت پولیس افسران پر الزام لگارہے ہیں لیکن اس کا ثبوت انکوائری کمیٹی کے سامنے رکھنے کے بجائے بھاگ رہے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ راؤ انوار کے خلاف جعلی پولیس مقابلہ کے ساتھ مبینہ خودکش حملے کی تحقیقات بھی ہورہی ہے، ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ کے مطابق راؤ انوار پر ہونے والے مبینہ خودکش حملے کی تحقیقات سے متعلق بھی افسران کو لکھا گیا ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ کراچی میں ہونے والے دیگر پولیس مقابلوں کے حوالے سے بھی تحقیقات کا مطالبہ سامنے آرہا ہے، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں 2009ء سے اب تک 765 پولیس مقابلہ ہوئے جن میں 1360لوگ مارے گئے، ان پولیس مقابلوں میں صرف 18کی ایف آئی آر درج ہوئی جبکہ باقی کا ریکارڈ موجود نہیں ہے، ان پولیس مقابلوں میں سب سے زیادہ واقعات ملیر میں دیکھنے میں آئے جن کی سربراہی ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے کی، پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق راؤ انوار کی سربراہی میں 2009ء سے اب تک ملیر ٹاؤن میں 60 سے زائد پولیس مقابلے کیے گئے جس میں 260لوگ مارے گئے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ کراچی میں کئی ایسے پولیس مقابلے ہیں جنہیں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے قرار دیا جاتا ہے، مارے جانے والے افراد کے لواحقین ان مقابلوں کو ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہیں، اس حوالے سے کئی شکایات سامنے آئیں ، کچھ لوگ عدالت میں بھی گئے مگر ان شکایات پر کوئی ٹھوس ایکشن نہیں ہوا، گزشتہ سال سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر آئی جی سندھ نے 65پولیس مقابلوں پر انکوائری رپورٹ تیار کر کے عدالت میں جمع کروائی مگر اس پر بھی ٹھوس اقدامات دکھائی نہ دیئے، نقیب محسود سے پہلے بھی لوگوں کا ماورائے عدالت قتل ہوتا رہا مگر ان پر اس طریقے سے آواز نہیں اٹھی تو تحقیقات بھی اس طرح نہیں ہوئیں، اب نقیب محسود کے بعد کیا باقی مبینہ جعلی پولیس مقابلوں پر بھی تحقیقات ہوں گی، پاکستان میں روایت یہی رہی ہے کہ کیسوں کی صحیح طریقے سے چھان بین نہیں کی جاتی، وقت گزرتا ہے فائلیں دب جاتی ہیں، میڈیا سے چیزیں غائب ہوتی ہیں تو کیس بھی منظرعام سے غائب ہوجاتا ہے، سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ نقیب کے معاملہ کو بنیاد بنا کر جعلی پولیس مقابلوں اور انسانی حقوق کی پامالی پر کوئی ایکشن لے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم لاہور میں مبینہ کرپشن کے معاملہ پر پیر کو نیب حکام کے سامنے پیش ہوئے، شہباز شریف نے نہ صرف الزامات کو مسترد کردیا بلکہ اپنی طلبی کو بدنیتی قرار دیتے ہوئے چیئرمین نیب سے غیرجانبدار ہوکر تحقیقات کا مطالبہ کیا، شہباز شریف نے اپنے موقف کے دفاع میں نہ صرف دستاویزی ثبوت پیش کیے بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کرپشن کیسوں کی تحقیقات نہ کرنے پر بھی نیب کے اوپر سوالات اٹھائے ۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات مسترد کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کی کرپشن کے الزامات بھی بتائے اور چیئرمین نیب سے مطالبہ کیا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ نہ دیں، شہباز شریف کے بیانات میں صرف تاریخ اور سالوں کا فرق ہے، شہباز شریف اب سے پانچ سال پہلے یہی باتیں کرچکے ہیں، وہ چیئرمین نیب سے غیرجانبداری کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ لوٹی ہوئی رقم واپس لانا نیب کے بس کی بات نہیں ہے،شہباز شریف نیب کی کارکردگی اورا ہلیت پر سوال اٹھارہے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب ماضی میں کرپشن کرنے والوں سے متعلق بڑے بڑے دعوے کرتے آئے ہیں مگر آج کہہ رہے ہیں نیب کے بس کی بات نہیں ہے، نیب کی اصلاحات اور احتساب کا آزاد ادارہ بنانا اگر ن لیگ کی ذمہ داری نہیں تھی تو کس کی تھی، شہباز شریف ماضی کے وعدے پورے نہیں کرسکے مگر اب نئے وعدے کررہے ہیں، شہباز شریف نے ماضی میں آصف زرداری سے متعلق جو دعوے کیے تھے ان پر معافی مانگ لی تھی اب نئے دعوے کررہے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہشہباز شریف نیب کی کارکردگی پر سوال اٹھارہے ہیں تو عمران خان بھی نیب سے مطمئن نہیں ہیں، وہ آصف زرداری کے کیسز اور حدیبیہ کیس ختم کرنے پر نیب کو تنقید کا نشانہ بناچکے ہیں، عمران خان کو گلہ ہے نیب نے حدیبیہ کیس میں شریف خاندان کو بچایا جبکہ شہباز شریف کو گلہ ہے نیب اپوزیشن کے کہنے پر ان کیخلاف ایکشن لے رہا ہے، اپوزیشن میں ہونے کی حیثیت سے عمران خان کا مطالبہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن شہباز شریف کی تو صوبے اور وفاق میں حکومت ہے اس کے باوجود وہ ماضی کے وعدے پورے نہیں کرسکے اور اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں دیئے گئے بیانات پر معافی مانگ چکے لیکن الیکشن قریب آتے ہی ایک بار پھر انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین پر پرانے الزامات لگانا شروع کردیئے ہیں، شہباز شریف نیب کی کارکردگی پر سوالات اٹھارہے ہیں جبکہ نیب قوانین میں اصلاحات ان کی اپنی جماعت کی ذمہ داری تھی لیکن اس حوالے سے کوئی قانون سازی سامنے نہیں آئی بلکہ سینیٹ میں مجوزہ نئے نیب قوانین سے متعلق بھی کوئی فیصلہ اب تک نہیں ہوسکا ہے، شہباز شریف لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے معاملہ میں نیب کو بے بس قرار دے رہے ہیں لیکن یہ نہیں بتارہے کہ نیب بے بس کیوں ہے، اسے طاقتور کیوں نہیں بنایا گیا، احتساب کا ایسا نیا نظام کیوں نہیں لایا گیا جس کا پچھلے الیکشن سے قبل وعدہ کیا گیا تھا، آئندہ الیکشن میں ن لیگ اگر دوبارہ کامیاب ہوتی ہے تو شہباز شریف کیسے لوٹی ہوئی رقم واپس لائیں گے اور کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات کریں گے جب ماضی میں کچھ نہیں کیا ۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پاکستان پر عالمی برادری کا دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی جانب سے کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کے خلاف اقدامات یقینی بنائے بالخصوص وہ 27تنظیمیں اور 33افراد جو سلامتی کونسل کی لسٹ کے مطابق مبینہ طور پر پاکستان میں سرگرم ہیں۔

تازہ ترین