شدت پسندی کسی بھی شکل، کسی بھی معاملے میں ہو، ناپسندیدہ اور سنگین مضمرات کا حامل فعل ہے اسی لئے اسلام نے اپنے پیروکاروں کو اعتدال، تحمل، برداشت اور میانہ روی کا درس دیا ہے مگر کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ آج پورا عالم اسلام شدت پسندی کی زد میں ہے اور مسلمان، مسلمان کو نہ صرف قتل کر رہا ہے بلکہ ایسا کرتے ہوئے اپنے تئیں خود کو حق پر سمجھتاہے۔ہمارے دین میں ایک انسان کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے لیکن اسلامی معاشروں میں اتنا بگاڑ پیدا ہو گیا ہے کہ اس مذموم اجتماعی رویے کا بتدریج نجی زندگیوں میں بھی عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان بھی اس خرابی سے مستثنیٰ نہیں۔ لوگ کسی بھی بات پر مشتعل ہو کرکسی کو بھی قتل کرنے لگے ہیں اور اس کا جواز پیش کرنے کے لئے اور کچھ ہاتھ نہ آئے تو توہین مذہب کی آڑ لے لیتے ہیں۔ چند ماہ قبل توہین رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے الزام میں مشتعل ہجوم نے مردان میں ایک طالب علم مشال خان کو دن دیہاڑے قتل کر دیا اور پیر کو شبقدر میں سیکنڈ ایئر کے ایک طالب علم نے اپنے کالج کے پرنسپل کو یہی الزام لگا کر جان سے مار دیا۔ اطلاعات کے مطابق شبقدر کے نجی کالج کا طالب علم فہیم شاہ کالج سے چھٹی لئے بغیرفیض آباد دھرنے میں شریک ہوا۔ کالج میں اس کی غیر حاضری لگا دی گئی۔ فہیم شاہ کو اس کا رنج پہنچا، کالج کے پرنسپل سریر احمد سے جو اسلامی علوم میں ماسٹر کی ڈگری کے حامل اور حافظ قرآن تھے اس معاملے پر اس کی تکرار ہو گئی۔ کہا جاتا ہےکہ پرنسپل نے اسے غیر حاضری سے اجتناب کرنے اور تعلیم پر توجہ دینے کی تلقین کی۔ طالب علم نے اس کا برا منایا اور یکے بعد دیگرے چھ گولیاں پرنسپل کے جسم میں اتار دیں جس سے وہ جاں بحق ہوگئے۔ پولیس اور ایف سی نے بر وقت کارروائی کر کے ملزم کو آلہ قتل سمیت گرفتار کر لیا، ملزم فہیم شاہ نے اقبال جرم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے پرنسپل کو توہین رسالت ﷺپر اللہ کی راہ میں قتل کیا ہے۔ ہمیں بار بار بتایا جاتا رہا ہے کہ اللہ کی راہ میں کسی کو قتل کرنے سے ہر گز نہ ہچکچائو۔ میں یہ قتل قبول کرتا ہوں اور اب جو بھی سزا ملے اس سے نہیں ڈرتا، کالج کے طلبا، مقتول کے ورثا اور شہریوں نے اس افسوسناک واقعہ کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا اور سڑکیں بند کر دیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ مقتول پرنسپل ایک باعمل مسلمان تھے۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسر نے میڈیا کوبتایا کہ توہین رسالت ﷺکے الزام کی تصدیق نہیں ہوئی۔ واقعے کی تحقیقات کیلئے خصوصی ٹیم مقرر کردی گئی ہے طالب علم کے ہاتھوں پرنسپل کا قتل ایک انتہائی دردناک واقعہ ہے۔ اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئے۔ توہین رسالتﷺ ایک ناقابل معافی جرم ہے اور اس کی روک تھام کیلئے باقاعدہ قانون موجود ہے جرم کوئی بھی ہو، کسی فرد کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنے طور پر کسی کیلئے سزا مقرر کرے اور اس پر عمل بھی کر دے۔ اس سے تو معاشرے میں قتل و غارت اور خانہ جنگی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم کی سزا کا اختیار افراد کو نہیں ریاست کو دیا گیا ہے۔ ریاست کے مقرر کردہ ادارے ہی کسی جرم کی تحقیقات کر کے عدالتوں کے ذریعے مجرموں کو سزا دلوا سکتے ہیں۔ ملک کے جید علمائے کرام نے حال ہی میں شدت پسندی اور دہشت گردی کو حرام قرار دیتے ہوئے ایک متفقہ فتویٰ جاری کیا ہے جو وقت کی ضرورت تھا۔ یہ فتویٰ دس ،پندرہ سال پہلے آجاتا تو اس کے زیادہ بہتر نتائج برآمد ہوتے۔ اس فتوےکے اجرا میںغیر ضروری تاخیر کی وجہ سے شدت پسندی میں روز افزوں اضافہ ہو ا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اس حوالے سے سخت قوانین بنائے جن پر سختی سے عملدرآمد ہو، علما مشائخ، مصلحین اور سرکاری و غیر سرکاری اصلاحی اداروں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں اور عامتہ الناس کو شدت پسندی سے روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ اغماض برتنے کی وجہ سے انتہا پسندی دہشت گردی کا روپ دھار لیتی ہے اور یہ جتنی زیادہ ہو گی ملک و قوم کو اس کا اتنا ہی زیادہ نقصان پہنچے گا۔ اس سے بچنے کیلئے سزا کے علاوہ ذہنی و اخلاقی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔