بالآخر قصو رمیں معصوم زینب کا وہ ظالم قاتل قانون کی گرفت میں آہی گیا جس کی درندگی نے اصل درندوں کو بھی شرمسار کردیا ہے،میرے خیال میں ایسا کوئی خونخوار درندہ روئے زمین پر نہیں پایا جاتا جواپنی نسل کے معصوم بچوں کے ساتھ ایسا ہولناک سلوک کرتا ہو، انسان کے بھیس میں بربریت کا مظاہرہ کرنے والا کسی طور انسان کہلانے کے لائق نہیں ۔ دنیا کے تمام مذاہب بچوں کے ساتھ احسن سلوک کی تلقین کرتے ہیں اور جنگ کے موقع پر بھی بچوں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنے کا حکم ہے، پیغمبر اسلام ﷺ بچوں پر خصوصی شفقت فرمایا کرتے تھے۔ہندو مت کے مطابق بچوں کو بھگوان کا انمول تحفہ قرار دیا گیاہے جسکی ہر صورت میں حفاظت یقینی بنائی جائے۔بچے بلاشبہ قوم کا مستقبل کہلاتے ہیں اور زندہ قومیں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت بالخصوص حفاظت پرخصوصی توجہ دیتی ہیں۔اقوام متحدہ کا تو ایک پورا کنونشن ہی اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے حقوق کے متعلق ہے ، اس حوالے سے اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی ممبران ممالک میں بسنے والے بچوں کی صورتحال کے حوالے سے ہرسال اپنی رپورٹ جنرل اسمبلی کو پیش کرتی ہے ، جنرل اسمبلی میں اس اہم رپورٹ کو بنیاد بناکر بچوں کے حقوق کے حوالے سے قرارداد بھی لائی جاسکتی ہے۔ بحیثیت پاکستانی ہمارے لیے شرم کا مقام ہونا چاہیے کہ عالمی سطح پر ہمارے پیارے وطن کا تذکرہ ایک ایسے ملک کے طور پر کیاجارہا ہے جہاں معاشرے کا کمزورترین طبقہ شدید استحصال کا شکار ہے۔ آج ننھی زینب ظلم کا شکار ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تو پرزور مذمتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا اور ہر طرف سے سفاک قاتلوں کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ زور پکڑنے لگ گیا لیکن یہ معاملہ صرف قاتل کی سزا پر ختم نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں مستقبل میں مزید زینبوں کو درندوں سے بچانے کیلئے بھی ٹھوس حکمت عملی کا تعین کرنا چاہیے۔سانحہ قصور ملکی تاریخ کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ ماضی میں بھی معصوم بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناکر قتل کیاجاتا رہا ہے، زینب کا ایشو منظر عام پر آتے ہی مردان سمیت ملک کے دوسرے حصوں سے بھی بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ میں نے مختلف ٹی وی ٹاک شوز پر بھی اپنے موقف کا اظہار کیا کہ ریاست سے پہلے والدین کا بنیادی فریضہ اپنی اولاد کی پرورش اور حفاظت ہواکرتا ہے، اسی طرح میری نظر میں سانحہ قصور درحقیقت ہماری اخلاقی پستی کی ایک ایسی مثال ہے جس میں والدین اور معاشرے کی ذمہ داریوں کو نظرانداز کرکے فقط حکومت اور پولیس کو قصوروار ٹھہراناصحیح نہیں، میرا یہ بھی کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج سے لگتا ہے کہ بچی کے ساتھ چلنے والا شخص کوئی قریبی رشتہ دار ہے، پولیس نے لازمی طور پر ان خطوط پر تفتیش کی ہوگی اوراب قاتل کی گرفتاری کی ابتدائی میڈیا اطلاعات کے مطابق قاتل محلہ دارثابت ہوگیا ہے جسکا معصوم زینب کے گھر میں بھی آناجانا تھا، اگر واقعی ایسا کوئی قریبی فرد ملوث نکلتا ہے تو وہ کڑی سزا کا حقدار ہے جس نے معصوم بچی کے اعتبار کا خون کیا۔عالمی قوانین کی بات کی جائے تو اقوام متحدہ کا کنونشن برائے حقوق اطفال ممبران ممالک کی حکومتوں سے یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ وہ اٹھارہ سال سے کم عمربچوں کی پرورش کیلئے والدین کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے دیں، اسی طرح یورپی یونین کے کمیشن برائے حقوقِ اطفال کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر بچوں کے خلاف مظالم میں خاندان ہی کے لوگ ملوث ہوتے ہیں جبکہ کچھ بچوں کو بیرونی عناصر بھی نشانہ بناتے ہیں، برٹش کونسل کے مطابق یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو استحصال سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔کونسل آف یورپ نے یورپی کمیشن برائے حقوق انسانی کی نگرانی کیلئے اپنی سفارشات میں والدین کی ذمہ داریوں کو بھی شامل کیا، یورپی کونسل کا کہنا ہے کہ بچوں کا استحصال ہر اس شخص کی ناکامی ہے جو بطور والدین سرپرست اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا ،مغربی ممالک میں بچوں کی حفاظت میں ناکامی پر والدین کوقانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑجاتاہے۔ بطور پاکستانی آج افسوس اس امر پر ہوتا ہے کہ ہم اپنے مال و دولت کی حفاظت کی تو فکر کرتے ہیں لیکن بچوں کی حفاظت کے حوالے سے لاپروائی برتتے ہیں۔ ہم اپنے کاروبار کو چوروں ڈکیتوں سے محفوظ رکھنے کیلئے گارڈ ہائر کرتے ہیں، سی سی ٹی وی کیمروں سے اپنی دُکان پر نظر رکھتے ہیں، اپنی غیرموجودگی میں کسی دوسرے قابل اعتمادپارٹنر کو پابند کرجاتے ہیں کہ وہ ہمارے کاروباری مفادات کا تحفظ یقینی بنائے لیکن اپنے بچوں کو معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، میں تمام والدین سے یہ اپیل کرنا چاہوں گا کہ وہ خدارا اپنے بچوں کو خدا کی امانت سمجھ کر حفاظت یقینی بنائیں،اس سلسلے میں ہماری سوچ بالکل واضح ہونی چاہیے کہ اپنی طرف سے حفاظت کے ہرممکن اقدامات یقینی بنانے کے بعدپھر اللہ پر بھروسہ کرنے کا نام توکل ہے ۔ ہمارے معاشرے کی تباہی کا ایک اہم ترین فیکٹر اپنی ذمہ داریوں کو نظرانداز کرکے دوسروں بالخصوص حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانابھی ہے۔میں امریکہ، یورپ سمیت جدید دنیا میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے ہولناک واقعات کا حوالہ دیکر ثابت کرسکتا ہوں کہ کوئی بھی حکومت اور پولیس ملک بھر کے بچوں پر چوبیس گھنٹے نظر رکھنے سے قاصر ہے، ویسے بھی یہ سنگین جرائم چار دیواری کے پیچھے رونما ہوتے ہیں جسکا خاتمہ والدین اوراہل خانہ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں بیشتر جرائم کا ذمہ دار ٹیکنالوجی اور موبائل فون کوگردانا جاتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے بچوں کی حفاظت ماضی کی نسبت مزید آسان ہوگئی ہے، ہمیں اپنے بچوں کو موبائل فون اور دیگر ایجادات سے دور کرنے کی بجائے انکا مثبت استعمال کرنے کی آگاہی فراہم کرنی چاہیے، موبائل فون میں لوکیشن ٹریس کرنے کی ایپ کی بدولت دور بیٹھے بچوں کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جاسکتی ہے، بچوں کو یہ سمجھانا چاہیے کہ وہ اپنے ہم عمر وں کے ساتھ ہی دوستی کریں اوروالدین کی انکے تمام دوستوں سے شناسائی ضروری ہے، بچوں کوفیس بک سوشل میڈیا کے اجنبی دوستوں سے ایک حد تک ہی دوستی کی اجازت ہونی چاہیے ، بچوں کو سمجھانا چاہیے کہ اپنی گھریلو ذاتی معلومات شیئر کرنا پورے خاندان کیلئے بڑارسک ثابت ہوسکتا ہے۔معصوم زینب کا قاتل درندہ تو اپنے کیے کی سزا ضرور پائے گا لیکن بطور والدین ہمیں سانحہ قصور سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ ہمارے لئے اپنی اولاد کی حفاظت فرض عبادت کا درجہ رکھتی ہے اوراس حوالے سے ہم اپنے بچوں کے تحفظ میں کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے،ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم خود اپنے بچوں کو اسکول ، ٹیوشن آنے جانے کا انتظام کریں، اگر ہمیں شہر سے باہر یا بیرون ملک سفر بھی کرنا پڑتا ہے تواپنے بچوں کیلئے بھی کوئی ٹھوس سیکورٹی پلان مرتب کریں، اس سلسلے میں خاندان کے کسی ذمہ دار بزرگ کو ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے ، میری رائے میں والدین کی غیرموجودگی میں بچوں کی دیکھ بھال کیلئے دادا دادی، نانا نانی سب سے موثر کردار ادا کرسکتے ہیں،بچوں کو غیرضروری طور پر محلے داروں میں آنے جانے سے منع کرنا چاہیے، اسی طرح اہل محلہ کابھی فرض بنتا ہے کہ وہ تما م پڑوسیوں کے بچوں کو اپنا سمجھ کر انکا خیال رکھیں، اگر علاقہ معززین کو آس پاس کوئی مشکوک حرکت نظر آتی ہے تو وہ سانحہ رونماہونے سے قبل اپنا سماجی فریضہ نبھائیں۔ بطور پارلیمنٹرین میں سمجھتا ہوں کہ والدین کو انکی سماجی ذمہ داریوں سے روشناس کرانے کیلئے قانون سازی کی بھی اشد ضرورت ہے، نوبیاہتا جوڑوں کیلئے تحریری امتحان متعارف کرانا چاہیے کہ وہ اپنی شادیاں رجسٹرڈ کراتے وقت ثابت کریں کہ وہ گھر بسانے کیلئے اپنی نئی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہوگئے ہیں،حکومت کو چاہیے کہ وہ سول سوسائٹی کے تعاون سے ملک بھر کے والدین کو اپنے اٹھارہ سال کے کم عمر نابالغ بچوں کیلئے حفاظتی اقدامات یقینی بنانے کیلئے عالمی معیار کی گائیڈ لائن فراہم کرے۔