تیسری صدی ہجری کا آغاز ہو چکا تھا۔ دوسری صدی کے آٹھویں عشرے میں ہارون الرشید کی زندگی میں ہی چیف جسٹس امام ابو یوسف کا انتقال ہو چکا تھا۔ ہارون الرشید کا تخت سنبھالنے والے خلیفہ امین الرشید صرف پانچ سال ہی مسند خلافت پر فائز رہنے کے بعد وفات پا چکے تھے۔ امین کی جگہ ان کے چھوٹے بھائی مامون الرشید کو خلافت عباسیہ کا ساتواں مسند نشین بنایا جا چکا تھا۔ مامون الرشید 813ء سے 833ء تک مسند خلافت پر رونق افروز رہا۔ اس دور میں نئے مذہبی مباحث کا آغاز ہوا۔ اسی دور میں ہی معتزلہ اور جہمیہ فرقوں کو عروج حاصل ہوا۔ مامون کی تخت نشینی کے 6 سال بعد امام شافعی کا انتقال ہوا تو مسند فقہ پر امام احمد بن حنبل جلوہ فگن ہوئے۔
پھر یوں ہوا کہ مامون الرشید نے وقفہ وقفہ سے خلافت اسلامیہ کے تمام گورنروں کو تین خطوط روانہ کئے۔ اس نے اپنے فرمان میں لکھا کہ خلق قرآن کے عقیدے کی مخالفت کرنے والے ناقص، مردود الشہادت، ساقط لاعتبار اور شرار امت ہیں۔ لہٰذا جو سرکاری ملازم، جج صاحبان، علماء، اسکالرز اور دانشور اس عقیدے کے مخالف ہوں انہیں ملازمتوں سے فارغ کر دیا جائے۔ خلیفہ کے فرمان کے بعد جو لوگ قرآن مجید کو خدا کی مخلوق ماننے کی بجائے اسے کلام اللہ کہتے ان کی گردنیں اڑا دی جاتیں۔ مامون الرشید نے طوس میں بیٹھ کر بغداد پر توجہ مرکوز کر رکھی تھی۔ اس نے گورنر بغداد اسحاق بن ابراہیم کو جو تیسرا خط لکھا۔ اس کی نقول تمام گورنروں کو بھجوائی گئیں۔ اس فرمان میں تمام سرکاری ملازمین، اعلیٰ حکام اور ججوں کے انٹرویو لے کر ان کے جوابات خلیفہ کو ارسال کرنے کی ہدایت کی گئی۔ خلیفہ نے دو علما بشر بن الولید اور ابراہیم بن المہدی کو قتل کرنے کا حکم دیا چنانچہ ان دونوں علما کی گردنیں اڑا دی گئیں۔ اب خلیفہ کا یہ فرمان تھا کہ باقی لوگوں سے اصرار کر کے انہیں خلق قرآن کے عقیدے کا قائل کیا جائے اور جو اپنی رائے پر قائم رہے اس کے ہاتھوں اور پیروں میں زنجیر ڈال کر میرے پاس بھجوا دیا جائے۔
پوری خلافت اسلامیہ سے امام احمد حنبل سمیت 19 علما کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال کر طوس روانہ کر دیا گیا۔ خلیفہ کے معتوب اسیروں کا قافلہ الرقہ کے مقام پر پہنچا تو وہاں خلیفہ کے انتقال کی اطلاع ملی۔ مامون الرشید کا ایک اور بھائی معتصم اس کی جگہ خلیفہ مقرر ہوا۔ خلیفہ تو بدل گیا مگر خلق قرآن کے مسئلہ پر ریاستی اسٹیبلشمنٹ کا نقطہٴ نظر جوں کا توں برقرار رہا۔ اب نئے خلیفہ اور اس کے چیف جسٹس ابن ابی داؤد کے مد مقابل امام احمد بن حنبل رہ گئے تھے۔ نئے خلیفہ کی تخت نشینی کے ساتھ ہی پابجولاں امام احمد بن حنبل کو واپس بغداد بلوایا گیا۔ الرقہ سے بغداد واپس آتے ہوئے باب البستان کے مقام پر امام احمد بن حنبل کیلئے سواری لائی گئی۔ پاؤں میں بوجھل زنجیریں پڑی ہوئی تھیں۔ ان سے کہا گیا کہ وہ کسی سہارے کے بغیر پیروں میں پڑی بیڑیوں کے ساتھ سواری پر سوار ہوں۔ امام حنبل سوار ہونے کی کوشش میں کئی بار منہ کے بل گرتے گرتے بچے۔ آخر چار رونا چار وہ سواری پر سوار ہو گئے اور آدھی رات کو بغداد میں پہنچے۔ انہیں خلیفہ کے محل میں ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی میں قید کر دیا گیا جہاں باہر سے ہوا کا گزر تک نہیں تھا۔ حبس زدہ کال کوٹھڑی میں امام احمد بن حنبل ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں لئے طلوع صبح اور سرود طائران سحر کا انتظار کرتے رہے۔ اگلے روز صبح انہیں خلیفہ کے دربار میں پیش کیا گیا۔ خلیفہ کے ایک طرف چیف جسٹس ابن ابی داؤد کی کرسی رکھی تھی۔ چیف جسٹس کے پاس وزیر اور مشیر کے عہدے بھی تھے۔ یہ خلیفہ کا دربار تھا یا چیف جسٹس کی عدالت تھی یا کورٹ مارشل کی کارروائی تھی یا کوئی پبلک جیوری تھی۔ بغداد کے دربار میں ایتھنز، روم اور قاہرہ کی شاہی عدالتوں کا منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔ امام احمد بن حنبل کو مرعوب کرنے کے لئے ان کے سامنے دو آدمیوں کی گردنیں اڑائی گئیں۔ اس عدالت میں قانون، اخلاق، اجماع، قیاس، استنباط استخراج اور اجتہاد سب کچھ سمٹ کر خلیفہ اور چیف جسٹس کی ذات میں یکجا کر دیا گیا تھا۔ مدعی، استغاثہ، وکیل، عدل، عدلیہ، منصف، انصاف اور قانون ایک طرف اور تنہا 54 سالہ امام احمد حنبل دوسری طرف تھے۔ امام احمد بن حنبل اپنے موقف کے خلاف کتاب اللہ اور سنت نبوی سے ایک دلیل، ایک برہان قاطع مانگ رہے تھے مگر خلافت، عدلیہ، عدالتی معاونین اور درباری صرف اپنے موقف کو درست تسلیم کرانے پر بضد تھے۔ خلیفہ امام احمد بن حنبل کے دلائل سن کر نرم پڑنے لگا تو چیف جسٹس خلیفہ کو اشتعال دلاتے ہوئے اس کی غیرت کا ماتم کرنے لگا اور کہنے لگا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ معتصم اپنے بھائی اور پیش رو خلیفہ امیر المومنین مامون الرشید کے مسلک سے ہٹ گیا ہے۔ تین روز تک مقدمہ کی سماعت جاری رہی۔ عدالتی بقراط برہان قاطع پیش کرنے کی بجائے فلسفیانہ موشگافیاں کرتے رہے۔
امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ تیسرے روز میں نے ایک ڈوری منگوائی اور اس سے اپنی پیروں کی بیڑیوں کو کس لیا اور جس آزار بند سے میں نے بیڑیاں باندھ رکھی تھیں۔ اس اپنے پائجامہ میں دوبارہ ڈال لیا تاکہ اگر کوئی سخت وقت آ جائے تو مجھے برہنہ نہ کر دیا جائے۔ تیسرے روز جب امام احمد بن حنبل کو دربار میں لایا جا رہا تھا تو راستے میں کچھ لوگ تلواریں لئے کھڑے تھے، کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں کوڑے تھے۔ دربار بھرا ہوا تھا مگر دربار میں نئے لوگ زیادہ تھے۔ پچھلے دو روز میں امام کے دلائل سننے والوں میں سے بہت کم لوگوں کو تیسرے روز دربار میں آنے دیا گیا۔ امام احمد بن حنبل لکھتے ہیں کہ میری آواز تمام آوازوں پر بھاری تھی۔ مناظرہ کرنے والے بحث کر رہے تھے اور امام احمد بن حنبل صرف ایک دلیل مانگ رہے تھے۔ خلیفہ معتصم پھر نرم پڑ رہا تھا۔ اس پر چیف جسٹس ابن ابی داؤد نے پھر معتصم کو غیرت دلائی اور پوچھا کہ کیا تم مامون کے مسلک سے ہٹ جاؤ گے۔ اس پر خلیفہ برہم ہوگیا۔ اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ”انہیں پکڑو، کھینچو اور ان کے بازو اکھیڑ دو۔ خلیفہ یہ کہہ کر کرسی پر بیٹھ گیا اور پھر کوڑے مارنے والے بلوائے گئے۔ ایک آدمی پوری طاقت سے صرف دو کوڑے مارتا اور اس کی جگہ دوسرا کوڑا مارنے والا آجاتا۔ ہر کوڑے کے بعد خلیفہ امام احمد بن حنبل سے خلق قرآن کے عقیدے کے بارے میں سوال کرتا اور امام احمد بن حنبل کتاب اللہ اور سنت سے صرف ایک دلیل مانگتے۔ اس جواب پر خلیفہ جلاد کو حکم دیتا کہ پوری قوت سے کوڑے لگاؤ۔ اس دوران امام احمد بن حنبل بیہوش ہو گئے۔ اس حالت میں انہیں اوندھے منہ گرا دیا گیا۔ انہیں بری طرح روندا گیا۔ محمد بن اسماعیل کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل کو جس طرح کوڑے مارے گئے اس طرح ایک کوڑا کسی ہاتھی کو پڑ جاتا تو وہ چیخ مار کر بھاگ جاتا۔ جس روز امام احمد بن حنبل کو مارا جا رہا تھا اس روز وہ روزے سے تھا۔ ایک روایت میں بتایا گیا ہے کہ امام احمد بن حنبل کو 80کوڑے مارے گئے۔ انہیں 28 ماہ تک قید میں رکھا گیا۔ مگر پھر کیا ہوا، پھر یوں ہوا کے متعصم کے بعد اس کے بھائی واثق کے دور میں بھی یہ سلسلہ ستم چلتا رہا مگر جب معتصم کا بیٹا متوکل خلیفہ بنا تو اس نے قرآن مجید کو مخلوق قرار دینے کے حکم پر پابندی لگا دی اور یوں امام احمد بن حنبل کی استقامت کے سامنے معتصم، واثق اور چیف جسٹس ابن ابی داؤد تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو گئے۔ امام احمد بن حنبل نے اپنے عہد کی سب سے بڑی بادشاہی کا تنہا مقابلہ کیا۔
آوازئہ خلیل ز تعمیر کعبہ نیست
مشہور شد ازاں کہ در آتش نکونشت