پی پی پی کے سینئر رہنماچوہدری اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ میں ججوں کی بحالی کیلئے پرویز مشرف دور میں جو تحریک چلائی تھی جس کے سبب جج حضرات بحال ہوئے، یہ حقیقت ہے کہ پرویز مشرف کی ایوان صدر سے رخصتی اور جمہوریت کی بحالی کا سہرا بھی انہی کے سر جاتا ہے لیکن ججوں کی بحالی اور جمہوریت کیلئے ان کی جدوجہد کو خاطر میں نہیں لایا گیا ہے اور انہیں وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔ انہی دنوں میں میاں نوازشریف کے ساتھ بھی ان کے تعلقات بہت اچھے رہے تھے اور اعتزاز احسن کے میاں نوازشریف کے ساتھ روابط و تعلق کی بنا پر پی پی پی کے بعض عناصر نے ان کے خلاف یہ مہم بھی چلائی کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونا چاہتے ہیں حالانکہ اعتزاز احسن نے کئی بار اس کی تردید کی لیکن اتنی ہی بار مخالف ٹولے نے اپنے کارکنوں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ اعتزاز احسن پی پی پی کو خیرباد کہنا چاہتے ہیں لیکن اعتزاز احسن بدستور پی پی کے ساتھ رہے اور انہوں نے قول و فعل سے یہ ثابت کردیا کہ وہ اس پارٹی کو چھوڑ کر جانے والے نہیں، پھر مفاد پرست عناصر نے یہ خبر پورے ملک میں پھیلادی کہ وہ عمران خان کی جماعت میں شامل ہورہے ہیں۔ویسے بھی اعتزاز احسن کے گھرکے دروازے ہر ایک کیلئے کھلے ہوئے ہیں، وہ لاہور میں ہر مکتبہ فکر میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، ان کے ان سے بھی گہرے مراسم ہیں جن کا پی پی پی سے کوئی تعلق نہیں، نیز وہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو ٹال دیتے ہیں چنانچہ ان اوصاف کی بنا پر اعتزاز احسن پاکستان کی سیاست میں پی پی پی کے پلیٹ فارم سے اپنا رول ادا کررہے ہیں تاہم گڑھی خدابخش میں صدر آصف زرداری نے انہیں اپنے بعد تقریر کرنے کی اجازت دیکر سب کو حیران کردیا چنانچہ لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ اب اعتزاز احسن صدر صاحب کو کیوں یاد آئے؟ اور وہ کونسی ادا تھی جس نے صدر صاحب کو مجبور کیا کہ وہ انہیں اپنے بعد تقریر کرنے کا اعزاز عطا کریں۔ دراصل صدر زرداری کو اس بات کا احساس ہوچلا ہے کہ پاکستان کے عوام ان کی حکومت کی کارکردگی سے انتہائی ناخوش ہیں۔ حکومت کی ناقص کارکردگی اور کرپشن اوپر سے نیچے تک ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہے، کوئی محکمہ اس سے نہیں بچ سکا ہے۔ صنعتی پیداوار ٹھپ ہوچکی ہے جبکہ بیروزگاری نے ہنرمند اور غیرہنرمند دونوں کو افلاس کے اندھیرے میں دھکیل دیا ہے، کہیں قانون کا اطلاق نظر نہیں آتا۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے معیشت کے ہر شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ان حالات نے ملک کو ایک ناکام ریاست کے پیکر میں ڈھال دیا ہے۔ اس تکلیف دہ صورتحال نے ہر خاص و عام میں غم و غصے کی لہر پیدا کررکھی ہے، خصوصیت کے ساتھ مڈل کلاس اور غریب طبقے میں حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کو تھوڑا بہت سہارا دینے کیلئے صدر صاحب نے اعتزاز احسن کو پکارا ہے کہ شاید ان کی وجہ سے حکومت کی بھی نیک نامی ہوجائے۔ نیز اپنے بعد تقریر نے انہیں عمران خان کی طرف جانے سے بھی روکا جائے۔ اعتزاز احسن نے نیم دلی سے تقریر تو کردی لیکن انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ وہ موجودہ سیاسی و معاشی حالات میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کے نہ تو اہل ہیں اور نہ ہی مفاد پرست ٹولہ انہیں کام کرنے دے گا۔ دراصل اب پرمعنی اصلاحات لانے اور حالات کو سدھارنے کے سلسلے میں خاصی دیر ہوچکی ہے بلکہ وقت گزر رہا ہے۔ اگر انہیں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جگہ وزیراعظم بھی بنادیا جاتا ہے تو وہ کیا کرلیں گے؟ کیا ایک سال کے اندر وہ کرپشن کے علاوہ ملک کے بیشتر اداروں کے زوال کو روک لیں گے؟ زرداری صاحب جس جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں وہ جمہوریت نہیں ہے بلکہ ستائش باہمی کا ایک کلب ہے جہاں شب و روز ملک کے وسائل کو لوٹ کر ذاتی تصرف میں لانے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور ہر باخبر انسان کو یہ نظر بھی آرہا ہے۔ وہ فیڈریشن کو مضبوط و مستحکم کرنے کی باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہson of the soil نے فیڈریشن کو نقصان نہیں پہنچایا ہے حالانکہ پاکستان کی تاریخ زور شور سے بتارہی ہے کہ ملک اور فیڈریشن کو son of the soil نے بھی توڑا ہے۔یعنی شیخ مجیب الرحمن اور بھٹو صاحب! تاہم جناب اعتزاز احسن و رہنما ملک اور ملت کیلئے کوئی نیک کام کرنا چاہتے ہیں تو وہ موجودہ حکومت کے تمام ذمہ داروں کے اثاثوں سے متعلق پی پی پی کے مخلص افراد پر مبنی ایک کمیٹی قائم کریں اور یہ دریافت کریں کہ حکومت میں شامل ہونے سے پہلے اور شامل ہونے کے بعد ان کے پاس پاکستان کے اندر اور باہر کتنی دولت ہے۔ اس احتسابی کمیٹی کا یہ بھی کام ہونا چاہئے کہ وہ ان اداروں کے سربراہوں سے پوچھے کہ انہوں نے حکومت کے ذمہ دار افراد کو کک بیک اور مالی وسائل لوٹنے میں کتنی مدد کی ہے؟ اگر اعتزاز احسن صرف اتنا ”چھوٹا“ کام کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں یا انہیں کرنے دیا جاتا ہے تو لوگوں کے دلوں میں ان کیلئے ایک بار پھر محبت و اخلاص کے در وا ہوجائیں گے اور پاکستان کی تاریخ کے اوراق میں ان کا نام اور کام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ ورنہ اعتزاز احسن سے میری درخواست ہے کہ وہ پی پی پی میں اپنی وابستگی برقرار رکھیں اور انتخابات کا انتظار کریں جب خلق خدا عوام کے حقوق پر شب خون مارنے والوں کا احتساب کرے گی، جب تاج اچھالے جائیں گے!