یہ قریباً دو سال پہلے کا واقعہ ہے۔ تب وہ مکمل طور پر صحت مند تھا۔ میں اسے ملنے گیا تو اس وقت قطعاً یہ اندازہ نہ تھا کہ اس سے کوئی خاص بات ہوگی۔ بس ایئر پورٹ سے واپسی پراس کے گھر کے سامنے سے گزرا تو اس کے صحن اور ڈرائیو وے کو خلاف معمول خالی دیکھ کر میں نے گاڑی اس کے گھر کی طرف موڑ لی۔ اجمل اپنے کمرے میں فون پر بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے اندر انٹر کام پر اطلاع دی اور دو منٹ بعد ہی جاوید ہاشمی اپنے مخصوص انداز میں ہنستا ہوا میرے سامنے موجود تھا۔
میں جاوید ہاشمی سے ہر دوسرے تیسرے مہینے ملنے چلا جاتا ہوں۔ اس ملاقات کا واحد مقصد پاکستان کی سیاست کے بارے میں اس کے تجربے سے مستفید ہونا۔ اس سے سیاسی تاریخ کے چھپے ہوئے گوشوں کا تذکرہ سننا اور اس سے جی بھر کر اختلاف کرنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات میں صرف شغل کے طور پر اس سے اختلاف کرتا ہوں مگر وہ فوراً سمجھ جاتا ہے اور بات وہیں ختم ہو جاتی ہے ۔ اس روز وہ خلاف معمول ضرورت سے زیادہ سنجیدہ تھا۔ اس کی باتوں میں نہ تو حسب معمول والی چاشنی تھی اور نہ ہی تسلسل۔ وہ اس روز ویسا نہیں تھا جیسا ہمیشہ ہوتا تھا۔ میں نے کہا جاوید بھائی! آپ کچھ پریشان ہیں؟ وہ مسکرایا اور کہنے لگا میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ تم ایک خطرناک آدمی ہو۔ جتنا بہتر تم مجھے جانتے ہو شاید کم ہی لوگ مجھے اتنی اچھی طرح جانتے ہیں۔ تم سے ڈرنا چاہئے۔ یہ اس کا ایک خاص انداز ہے۔
اس نے فون اٹھا کر اجمل کو انٹرکام پر کہا کہ جب تک خالد بیٹھا ہے وہ کوئی فون اندر نہ ملائے۔ پھر وہ میری طرف پلٹ کر کہنے لگا تم سے ایک مشورہ کرنا ہے۔ میں نے کہا کہئے۔ وہ کہنے لگا میں اسمبلی کی سیٹ اور مسلم لیگ حتیٰ کہ سیاست چھوڑنا چاہتا ہوں۔ تمہارا کیا مشورہ ہے؟ میں نے کہا آپ پہلی دو چیزیں تو چھوڑ سکتے ہیں مگر کیا آپ سیاست چھوڑ سکتے ہیں؟ کیا مچھلی پانی کے بغیر زندہ رہ سکتی ہے؟ وہ مسکرا کر کہنے لگا سیاست سے میری مراد جماعتی سیاست ہے۔ میں اس شہر کے لئے ، اپنے اس خطے کیلئے ، جنوبی پنجاب کیلئے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس علاقے کی محرومیاں ختم کرنے کیلئے کوئی کردار ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ ”مین سٹریم“ چھوڑ کر کچھ کرنے کا سوچنا بھی ایک کار بے کار ہے۔ لوگ کمزور یادداشت کے مالک ہیں وہ چند دنوں بعد آپ کو بھول جائیں گے۔
وہ کہنے لگا پھر کیا کیاجائے؟ میں نے کہا آپ وہی کریں جو آپ کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں۔ آپ اپنی پارٹی میں حق سچ کا علم بلند کئے رکھیں۔ درست اور غلط پر اپنی بات باآواز بلند کہتے رہیں۔ پارٹی میں وہ بات مسلسل کہتے رہیں جو مفاد پرست اور موقع پرست نہیں کہہ رہے۔ وہ کہنے لگا کب تک؟ میں نے کہا جب تک اللہ تعالیٰ کوئی بہتر سبب نہیں پیدا کرتا۔ جب تک آپ کو بہتر متبادل میسر نہیں آتا یا جب تک یہ پارٹی آپ کو برداشت کرتی ہے اور اٹھا کر باہر نہیں پھینک دیتی۔ پھر میں نے کہا یہ آخری بات میں صرف ازراہ تفنن کہہ رہا ہوں۔ کوئی آپ کو اٹھا کر باہر پھینکنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ کوئی یہ بات کرنے کی ہمت ہی نہیں رکھتا۔ آپ جب تک چاہیں اپنی پارٹی میں حق سچ کہہ سکتے ہیں۔ عام لوگ یہ سب کچھ سننا چاہتے ہیں اور آپ کی لیڈر شپ یہ سب کچھ سن کر خاموش رہنے اور آپ کو برداشت کرنے پرمجبور ہے۔ آپ انتظار کریں۔ ایک بہت بہتر متبادل آپ کا منتظر ہے۔ تب اس نے شاید سوچا بھی نہیں ہوگا کہ یہ بہتر متبادل تحریک انصاف ہوگی۔ تب جاوید ہاشمی اپنی لیڈر شپ کے رویے ، اپنی قربانیوں کی ناقدری پر اور چوری کھانے والے مجنوؤں کی پذیرائی پر دکھی تھا۔ اٹھارہ ارکان کی پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی اسے سونپی گئی اور اسی سے زائد ارکان پر مشتمل پارٹی کی قیادت چوہدری نثار علی خان کے حوالے کردی گئی۔ جب وہ سفید پوشوں کا تشدد برداشت کر رہا تھا تب لوگ ہسپتالوں میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ جب وہ جیل کاٹ رہا تھا تب لیڈر شپ سرور پیلس میں مزے کر رہی تھی لیکن جب سینئر منسٹر بنانے کی باری آئی تو قرعہ فال نثار علی خان کے نام نکلا۔ جب حکومت سے علیحدگی ہوئی اور لیڈر آف دی اپوزیشن بنانے کا مرحلہ درپیش آیا تو چوہدری نثار علی خان کو یہ بار اٹھانے کے قابل سمجھا گیا اور جب چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی نامزدگی کا مرحلہ آیا تو قرعہ فال ایک بار پھر چوہدری نثار علی خان کے نام ہی نکلا۔
میں نے ایک روز اس کے گھر کے صحن کے ایک کونے میں کھڑا ہو کر یہ دیکھنا چاہا کہ وہ اپنے حلقے کے لوگوں سے کس طرح ڈیل کرتا ہے تو مجھے اس کی ہمت پر رشک آیا۔ ساری عمر دائیں ہاتھ سے لکھنے والا شخص اپنے ہاتھ کی معذوری کو جواز بنا کر آرام سے بیٹھنے کے بجائے اب بائیں ہاتھ سے لکھنا سیکھ چکا تھا اور رقعوں پر دستخط کر رہا تھا۔ بائیں ہاتھ سے فون اٹھا کر سفارشیں کر رہا تھا اور لوگوں کے مسائل حل کرنے میں لگا ہوا تھا۔
آج کل ملتان کی مسلم لیگی قیادت اس کے بارے میں وہ کچھ کہہ رہی ہے جو جاوید ہاشمی کے مرتبے کو تو کم نہیں کر رہی مگر مسلم لیگ کی مقامی قیادت کے ظرف کو ضرور ظاہر کر رہی ہے۔ ایک ایم این اے کا کہنا ہے کہ بوڑھے جاوید ہاشمی نے جوانی جنرل ضیاء الحق کے قدموں میں گزاری تو صرف تاریخ کی درستی کیلئے عرض ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے خلاف اسمبلی میں جو پہلی حزب اختلاف بنی تھی اس کا بانی جاوید ہاشمی تھا اور جاوید ہاشمی اس آئی جی پی (انڈیپنڈنٹ گروپ آف پارلیمنٹرینز) کا سربراہ تھا۔ مسلم لیگ کے نام پر سرکاری اداروں میں تنخواہ دار ملازم آج جاوید ہاشمی میں وہ ساری برائیاں دیکھ رہے ہیں جو شاید اس میں تو موجود نہیں مگر مسلم لیگ کی ٹاپ قیادت میں موجود ہیں۔ ملتان کی مسلم لیگی قیادت اور میاں نواز شریف کو جاوید ہاشمی سے ایک گلہ یہ ہے کہ وہ جاتے ہوئے خدا حافظ نہیں کہہ کر گیا۔11 دسمبر 2000ء کو اسلام آباد میں رات گئے تک بیگم کلثوم نواز شریف بضد تھیں کہ ان کیلئے سعودی عرب سے کوئی جہاز نہیں آیا۔ علی الصبح میاں صاحب کسی کو بھی خدا حافظ کہے بغیر چالیس صندوقوں کے ساتھ جدہ چلے گئے اور جاوید ہاشمی کو بے آسرا مسلم لیگ کا سربراہ بنانے کا دوسطری رقعہ چھوڑ گئے۔ ساری مسلم لیگ کو اپنی یتیمی اور میاں صاحب کی سعودی عرب روانگی کا علم تب ہوا جب طیارہ پاکستان چھوڑ کر جا چکا تھا۔ جاوید ہاشمی مسلم لیگ کو چھوڑتے ہوئے صرف دو صندوق اپنے ساتھ لے کر گیا ہے۔ ایک صندوق قربانیوں کا تھا اور دوسرا صندوق صبر کا اور بھلا وہ یہ دونوں صندوق مسلم لیگ میں چھوڑ کر بھی کیوں جاتا؟ اس کے علاوہ یہ وزن اور اٹھا بھی کون سکتا تھا؟