• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

30نومبر 2017کو ’’انقلاب محسود جنوبی وزیرستان فرنگی راج سے امریکی سامراج تک‘‘ کے نام سے منظرعام پر ایک کتاب نظر آئی جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ کتاب ایک طالبان رہنما ابومنصور عاصم مفتی نور ولی نے لکھی اور جس میں محترمہ بینظیربھٹو کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی گئی ۔ ایسا پہلی دفعہ تھا کہ طالبان نے سرعام محترمہ کو شہید کرنے کادعویٰ کیا۔ قبل ازیں ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر کی سربراہی میں قائم جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے بھی اپنی تحقیقات کے بعد تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ کو ہی بینظیر کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود اور اس کے ساتھیوں نے یہ سازش میرانشاہ جو کہ شمالی وزیرستان کا ایک شہر ہے، میں تیار کی تھی۔جے آئی ٹی کی تحقیقات میں بیت اللہ محسود کی طرف سے بھیجے دونوں خود کش حملہ آوروں کی شناخت ہوگئی۔ ایک کا نام بلال عرف سعید تھا جس نے خود کو لیاقت باغ میں اس جگہ اڑایا جہاں بینظیر بھٹو کی شہادت ہوئی ،جبکہ اکرام اللہ اس کا ساتھی تھا وہ بچ نکلا اوراب افغانستان میں ہے۔ کتاب کے مصنف کی طرف سے کیے جانے
والے دعوئوں کا یہاں تجزیہ پیش کیا جارہاہے۔ بینظیر بھٹو کو شہید کرنے کی پہلی کوشش کارساز کراچی میں کی گئی ، اس افسوسناک واقعہ سے متعلق مصنف نے لکھا ہے کہ ’’بی بی کی وطن واپسی سے قبل ہی بیت اللہ محسود نے ان کے خلاف کارروائی کی منصوبہ بندی کرلی تھی کیونکہ وہ امریکاکی خواہش پر ’مجاہدین اسلام‘کے خلاف کارروائی کرنے کی منصوبہ بندی کے ساتھ وطن لوٹ رہی تھیں، امریکی منصوبہ ناکام بنانے کےلیے محسن محسود اور رحمت اللہ محسود نامی دو خودکش حملہ آور بھیجے گئے جنہوں نے کارساز پر اکتوبر2007 میں دو دھماکے کئے جس کے نتیجے میں 200 افراد شہید ہوئے تاہم محترمہ بینظیر بھٹو اس حملے میں محفوظ رہیں۔ حملے کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ حملہ آوروں نے ہدایات سے انحراف کیا۔ انہوں نے اپنی مقررہ جگہ چھوڑ دی جوکہ اسٹیج کے بالکل قریب تھی اور حملہ کرنے میں بھی جلدی کی۔ دونوں حملہ آور مولوی عظمت اللہ کے ٹریننگ کیمپ سے منسلک تھے۔ لاڑکانہ میں بھی بینظیر پر حملہ ناکام رہا کیونکہ ایک طالبان لیڈر مہراج کائی خیل نے پولیس کو معلومات دیدیں‘‘۔ مصنف نے کتاب میں بینظیر کی راولپنڈی میں شہادت کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ’’بی بی 27دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ایک خودکش حملے کا نشانہ بن گئیںجو کہ ٹی ٹی پی کی طرف سے کیا گیا تھا۔بلال عرف سعید اور اکرام اللہ دو خودکش حملہ آوروں کو یہ ٹاسک سونپا گیا تھا۔ بلال عرف سعید نے سب سے پہلےبی بی کو گردن پر پستول سے گولی ماری، پھر اس نے اپنی خودکش جیکٹ پھاڑ دی اور خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس وقت وہ عوام کے مجمع کے بالکل درمیان میں تھا۔ دوسرے حملہ آور اکرام اللہ جو کہ سائوتھ وزیرستان کے ایک قصبہ’’مکین‘‘ کا رہائشی تھا ،حملے میں محفوظ رہا ،وہ اب بھی زندہ ہے۔ بے نظیر کو قتل کرنے کے لیے مولوی عمران کی مدد احمد، قاری اسماعیل اورملاّ احسان نے کی ۔ جس وقت کمانڈر نصراللہ عرف احمد ایجنسیوں کی نظر میں آیا تو وہ پشاور سے نکل کر مہمند ایجنسی منتقل ہو گیا۔2008ء میں وہ قاری اسماعیل اور ایک کم عمر خود کش حملہ آور نقیب اللہ محسود کے ساتھ فوج کے ہاتھوںماراگیا جب وہ تینوں مہمند ایجنسی میں حملہ کرنے کی غرض سے جارہے تھے اور نکئی چیک پوسٹ پر فوجی جوانوں کی طرف سے انہیں روکا گیا جہاں طرفین کے مابین لڑائی ہو گئی اور فوج نے انہیں گولی مار دی۔‘‘اگرچہ بی بی کارساز حملے میں بچ نکلیں تاہم پھر بھی اس وقت کی حکومت نے انہیں سیکورٹی فراہم نہ کی۔ جس کی وجہ سے فدائین ان تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔راولپنڈی دھماکے کے بعد تحقیقات کو سبوتاژ کرنے کےلیے تمام ثبوت مٹا دیئےگئے۔ اوپر بیان کردہ تمام دعوے ابو منصور عاصم مفتی نورولی کے ہیں اور اب یہاں ایف آئی اے کی جی آئی ٹی کی تحقیقات کے بعد کے بیانات دیے جا رہے ہیں جو کہ عدالتی ٹرائل کا حصہ ہیں۔ ایف بی اے کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ اکرام اللہ کو پہلے ہی دوسرے حملہ آور کے طور پر شناخت کیا جا چکا تھا جو کہ بلال عرف سعید کے حملے کے بعد منظر نامے سے غائب ہو گیا۔ تحقیقات کے دوران وہ عدالت کی طرف سے اشتہاری قرار دیا گیا۔ ملزموں میں سے گرفتار ہونیوالے رشید ترابی نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ قاری اسماعیل عرف نادر ،نصراللہ عرف احمد کے ساتھ اس کے مدرسہ ’’منبع العلوم ‘‘میرانشاہ کے ہوسٹل میں قیام کیا جہاں انہوں نے بیت اللہ محسودسے خودکش حملہ آور بلال عرف سعید کو لانے اور لے جانے تک قیام کیا۔ قاری اسماعیل خودکش حملہ آور کو اکوڑہ خٹک میں لے گیا جہاں سے اسے نصراللہ کے حوالے کیا گیا جو اسے ایک دوسرے حملہ آور اکرام اللہ کے ساتھ راولپنڈی لے آیا۔ قاری اسماعیل عرف نادر خان کو بھی متعدد بار عدالت کی طر ف سے اشتہاری قرار دیا گیا، ایف آئی اے کی تحقیقات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ نصراللہ عرف احمد جو کہ دونوں حملہ آوروں کے ساتھ رات کو ٹھہرا تھا وہی انہیں ہینڈل کر رہا تھا۔ وہ رات کو رفاقت حسین نامی شخص کے گھر ٹھہرے جو کہ بی بی کے قتل کے وقت پنڈی میں موجود تھا۔ احمد کی رفاقت حسین کے گھر موجودگی اور جائے وقوعہ پر موجودگی جیو فیسنگ کے ذریعے ثابت ہوئی اور فرانزک ثبوتوں کے ذریعے نصراللہ کو بھی اشتہاری ملزم قرار دیا گیا۔جے آئی ٹی نے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا کہ مشرف حکومت نے بی بی کو مناسب سیکورٹی فراہم نہیں کی تھی حالانکہ ان کی جان کو خطرہ تھا اور یہ جانتے ہوئے کہ طالبان انہیں قتل کی دھمکی دے چکے تھے ،اس سےخود کش بمباروں کو عوام کے درمیان بے نظیر تک پہنچنے میں مدد کی۔طالبان رہنما مفتی نور ولی کی کتاب میں بیان کردہ تمام باتوں نے ایف آئی اے کی تحقیقات سے سامنے آنے والے نتائج کی بھی تصدیق کی جیسا کہ: - 1بی بی کے قتل کا حکم بیت اللہ محسود نے دیا تھا۔-2 قتل کی سازش مدرسہ حقانیہ کے ہوسٹل کے ایک کمرے میں تیار کی گئی۔3- بلال عرف سعید اور اکرام اللہ خودکش حملہ آوروں کے طور پر شناخت کئے گئے۔4- نصراللہ عرف احمد کی شناخت بطور ہینڈلر ہوئی۔5- قاری اسماعیل کی شناخت ہوئی جو دونوں حملہ آوروں کو مدرسہ حقانیہ میں لے کر آیا۔جے آئی ٹی تحقیقات کے مطابق کہ مدرسہ حقانیہ سے ہی نصراللہ عرف احمد دونوں خودکش بمباروں بلال عرف سعید اور اکرام اللہ کو 26 اور 27 دسمبر کی درمیانی شام پنڈی لے کر آیا۔ جنہیں عبادالرحمن نامی شخص سے ہدایات ملیں جوکہ عدالت کی طرف سے اشتہاری قرار دیا گیا اور خیبر ایجنسی میں ایک ڈرون حملے میں مارا گیا۔ کتاب میں کئے گئے انکشافات کے مطابق ایف آئی اے کی طرف عدالت میں پیش کردہ چالان مستند اور مصدقہ تھا۔ یہ مقدمہ عدالت میں9 سال 8 ماہ اور تین دن چلا اور گو کہ ثبوت ناقابل تردید تھے پھر بھی عدالت نے پانچ مرکزی ملزمان حسین گل، رفاقت حسین، عبدالرشید ترابی، شیرزمان اور اعتزاز شاہ کو بری کر دیا۔ حکومت پاکستان نے بری افراد کے خلاف اپیل دائر کی اور اب یہ مقدمہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ باوثوق ذرائع سے اس بات کی بھی تصدیق ہو چکی ہے کہ ملزم اکرام اللہ افغان صوبے پکتیا میں موجود ہے اور اب ٹی ٹی پی کا سینئر رہنما بن چکا ہے۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ گزشتہ سال وہ ایک قاتلانہ حملے میں بچ نکلا تھا۔ وہ سانحہ لیاقت باغ کا دوسرا خود کش حملہ آور اوربہت اہم ملزم ہے جو بی بی قتل کیس میں بیش قیمت معلومات اگل سکتا ہے۔ مزید تحقیقات کےلیے اکرام اللہ اور اس کتاب کے مصنف مفتی نور ولی سے تفتیش کی جانی چاہیے۔ میرا وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ ان نئے انکشافات کی تصدیق کی جائے اور افغانستان سے دونوں افراد ابومنصور عاصم مفتی نور ولی اور اکرام اللہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا جائے تاکہ کیس کےلیے مزید ٹھوس معلومات حاصل ہو سکیں۔

تازہ ترین