• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لق و دق صحرا ہے، ارد گرد پہاڑ ہیں اور صحرا کے بیچوں بیچ شہر ، آپ دنیا کے عالیشان شہروں کی فہرست بنائیں تو یہ شہر اس میں پہلے نمبر پر آئے گا، آپ دنیا کے بہترین تفریحی مقامات کی فہرست بنائیں تو یہ شہر اُس میں بھی اول نمبر پر موجود ہوگا اور اگر آپ دنیا کے رنگین ترین شہروں کا مقابلہ کریں تو یہ شہر باآسانی ایسا مقابلہ جیت جائے گا۔ ویلکم ٹو لاس ویگاس۔
McCarranائیر پورٹ میں جہاز سے اترنے کے بعد پہلی چیز جس پر آپ کی نظر پڑتی ہے وہ جوئے کی مشین ہے، یہ غالباً دنیا کا واحد شہر ہے جہاں ہوائی اڈے پر بھی جوئے کی مشینیں نصب ہیں، ٹوائلٹ کے علاوہ شہر بھر میں ہر جگہ یہ مشینیں نظر آتی ہیں اور وہ دن دور نہیں جب وہاں بھی کم بختوں نے یہ مشینیں لگا دینی ہیں۔ لاس ویگاس بولیوارڈ شہر کی مرکزی شاہراہ ہے اور اس کا ایک حصہ Stripکہلاتا ہے، یہاں دنیا کے بہترین اور عالیشان ہوٹل ہیں، قطار اندر قطار یہ ہوٹل دراصل چھوٹے چھوٹے شہر ہیں، ہر ہوٹل میں کیسینو ہے، ریستوران ہیں، عالیشان اسٹور ہیں، بڑے بڑے تھیٹر ہیں جن میں تماشے ہوتے ہیں، نمائشیں سجائی جاتی ہیں، سرکس ہوتا ہے، فیشن، کامیڈی اور میجک شوز ہوتے ہیں، چوبیس گھنٹوں میں سے کسی بھی وقت آپ یہاں کسی بھی ہوٹل میں چلے جائیں کوئی نہ کوئی تفریح مل جائے گی۔ ان ہوٹلوں کی خاص بات مخصوص تھیم ہے جس پر یہ ہوٹل تیار کئے گئے ہیں، مثلاً ایک ہوٹل اہرام مصر کی طرز پر بنایا گیا ہے، اس کے باہر ابولہول کا دیو قامت مجسمہ ہے، ہوٹل کے اندر داخل ہونے کے لئے اس مجسمے کے اندر سے گزرنا پڑتا ہے، ہوٹل کی عمارت اہرام (pyramaid) کی طرح ہے، آپ کو لگتا ہے جیسے آپ جدید اہرام مصر میں ٹھہرے ہیں۔ اسی طرح پیرس کی طرز پر بنائے گئے ہوٹل کے داخلی دروازے پر ایفل ٹاور ہے، نیویارک ہوٹل کے باہر مجسمہ آزادی اور سیزرز ہوٹل کی تعمیر قدیم روم کی طرز پر کی گئی ہے، پہلی نظر میں اندازہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اصل زیادہ بہتر ہے یا نقل۔ دنیا کے سب سے بڑے جوئے خانے لاس ویگاس میں ہیں، یہاں روزانہ کروڑوں ڈالر کا جوا ہوتا ہے، دنیا بھر سے سیاح یہاں آتے ہیں، جوئے میں پیسے لٹاتے ہیں اور اگر جیت جائیں تو یہیں کی تفریحات پر پیسے خرچ کرکے جیتی ہوئی رقم انہی مالکان کو لوٹا آتے ہیں جن کے کیسینو سے رقم جیتی ہوتی ہے کیونکہ ایک ہی کمپنی ہوٹل، کیسینو، شاپنگ مال، ریستوران، کھیل تماشے سب کچھ چلاتی ہے۔ مگر لاس ویگاس کے جوئے خانے اس شہر کی صرف ایک خصوصیت ہے، اس کی دوسری خصوصیت اصل میں وہ تفریحات ہیں جو کسی دوسرے شہر میں اس انداز میں ایک ساتھ نہیں مل سکتیں۔ ہر ہوٹل کی وجہ شہرت مخصوص تفریحی شوز ہیں جو ہر شام منعقد کئے جاتے ہیں، میں نے یہاں پہلی مرتبہ Penn and Teller شو براہ راست دیکھا، یہ امریکہ کا مشہور زمانہ میجک شو ہے جو اپنے اندر مزاح بھی لئے ہے، ڈیڑھ گھنٹے کے اس شو میں آپ بور نہیں ہوسکتے۔ کرس اینجل اور ڈیوڈ کاپر فیلڈ سے لے کر دنیا کا ہر بڑا فنکار یہاں اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے، ہر ٹیکسی کے پیچھے، ہر بس اسٹاپ کے تختے پر، ہر اشتہاری بورڈ پر آپ کو ایک نئے شو کا اشتہار نظر آئے گا اور ہر شو کے بارے میں لگے گا جیسے اس سے بہترین تفریح نہیں ہو سکتی۔ شہر میں نہایت دلچسپ قسم کے عجائب گھر بھی ہیں جن میں سے ایک
Museum of Organized Crime
ہے جہاں آج جانے کا ارادہ ہے، یہاں میوزیم میں داخلے کے ٹکٹ کی رعایت بچوں، بوڑھوں، ویگاس کے شہریوں، فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کے علاوہ جن کو دی جاتی ہے وہ اساتذہ ہیں (اپنے یہاں استاد کو ایسی عزت دینے کا رواج صرف زبانی کلامی ہے)۔ یہ غالباً واحد شہر ہے جس کے بارے میں بتانا مشکل ہے کہ اس شہر کی کون سی جگہ سب سے زیادہ دیکھنے لائق ہے، تاہم میں نے سب سے زیادہ نمبر Stratosphereہوٹل کو دئیے، اس ہوٹل میں ساڑھے گیارہ سو فٹ بلند ٹاور (مینار) ہے جس کی چوٹی سے آپ پورے لاس ویگاس کا نظارہ کر سکتے ہیں، یہ ایک ناقابل بیان منظر ہے، لاس ویگاس کے اطراف میں پہاڑیاں ہیں، ساتھ میں صحرا ہے اور یوں پورا شہر صحرا میں گھرا نظر آتا ہے، ہوٹل اور کیسینوز کی طویل قطاریں ہیں جن کی روشنیاں جگ مگ کرتے ہوئے ایک سمندر کا سماں پیش کرتی ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے روشنیوں کے سمندر کو صحرا نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہو۔ اس مینار کے ایک حصے سے آپ چاہیں تو چھلانگ بھی مار سکتے ہیں، آپ کو مشین کے رسے سے کس کر باندھ دیا جاتا ہے اور پھر آپ کو چھلانگ لگانے کے لئے کہا جاتا ہے، خدا کو جان دینی ہے، خون خشک ہو جاتا ہے۔
لاس ویگاس میں دو دنیائیں آباد ہیں، ایک وہ جو ان تمام ہوٹلوں، کیسینوز اور شاپنگ مالز کے مالک ہیں، یہ چند لوگ ہیں جو ایک مافیا کی طرح یہ کاروبار چلاتے ہیں، ان کا شمار امریکہ کے بڑے ارب پتیوں میں ہوتا ہے، جرائم کی شرح یہاں بہت کم ہے اور وجہ اس کی یہی مافیا ہے جو اپنے ’’علاقے‘‘ میں کوئی ایسی واردات نہیں ہونے دیتا، امریکہ کا سرمایہ دارانہ نظام نیویارک کے بعد اگر کسی شہر میں عروج پر دکھائی دیتا ہے تو وہ لاس ویگاس ہے۔ لوگ اس پہلی دنیا کی سیر کرنے آتے ہیں اور چند دن یہاں گزار کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ دوسری دنیا وہ ہے جو اِن تمام کھیل تماشوں کے پیچھے آباد ہے، یہ لوگ روزانہ صبح اٹھ کر ہوٹل اور کیسینو میں کام کرنے آتے ہیں، شاپنگ مالز میں بطور سیلزمین یا سیلز گرل چیزیں بیچتے ہیں، شوز کی ٹکٹیں فروخت کرنے کے لئے سیاحوں کے ساتھ دماغ کھپاتے ہیں اور لوگوں کو روزانہ کروڑوں ڈالر جوئے میں ہارتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہ لوگ انتھک محنت کرتے ہیں اور اس سرمایہ دارانہ نظام کو اپنا خون پلا کر زندہ رکھتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ یہ ورکنگ کلاس خوشحال نہیں، امریکی سرمایہ دارانہ نظام کی کامیابی کی وجہ ہی یہی ہے کہ یہاں انہوں نے اس متوسط طبقے کو بھی وہ تمام سہولتیں دے رکھی ہیں جو ایک مناسب زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہیں۔ بنکاک، دبئی، جکارتہ، کوالالمپور کے مقابلے میں یہاں کی لیبر کلاس کہیں بہتر اور آسودہ ہے مگر روزانہ کیسینو میں تھرکنے والی لڑکیاں اور مارکیٹنگ پر مامور اسٹاف بہرحال ایک ایسی دنیا کی کہانی سناتا ہے جہاں روشنیوں کی چکا چوند کے پیچھے بھی ایک شہر آباد ہے جو سیاحوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔
لاس ویگاس کے بعد لاس اینجلس شہر ذہن میں کچھ ماند سا پڑ گیا ہے، لاس اینجلس سے اگر ہالی وڈ نکال دیا جائے تو پیچھے ایک نارمل سا گندا مندا شہر بچے گا جس میں جاذبیت نظر نہیں آتی سوائے بیورلی ہلز اور برینٹ وڈ اسٹیٹ کا علاقہ جہاں ہالی وڈ کے ارب پتی اداکاروں نے اپنی پر تعیش رہائش گاہیں بنا رکھی ہیں۔ لاس ویگاس میں البتہ جگہ جگہ امارت جھلکتی ہے، یہ شہر امریکہ کا کمائو پوت ہے، ہر سال یہاں ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ مسافر MaCarranائیر پورٹ پر اترتے ہیں اور اربوں ڈالر خرچ کرکے جاتے ہیں، اس کی وجہ شہرت تو جوئے خانے ہیں مگر لاس ویگاس کو صرف کیسینوز کا شہر کہنا زیادتی ہوگی، یہ شہر اس نوبیاہتا دلہن کی طرح ہے جس کی دلکشی کبھی کم نہیں ہوتی۔

تازہ ترین