• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز اگر دہشت گردی کے حوالے سے دنیا بھر میں مطعون ہے تو اس کا ایک سبب ہماری سفارتکاری ہے، جواتنی موثر نہ رہی جتنی کہ ہونا چاہئے تھی۔ مغربی پروپیگنڈا غالب رہا اور پاکستان مشکل میں آ گیا کہ اسے جارحیت ہی نہیں اقتصادی حوالے سے بھی خدشات لاحق ہو گئے۔ 19جنوری کو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھرو نوریٹ نے کہا کہ حافظ سعید کا نام اقوام متحدہ کی تیار کردہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔ اس پر پاکستان میں بڑی ہلچل پیدا ہوئی، مذہبی جماعتیں اپنی جگہ نالاں تھیں تو انتظامیہ حالات سے نمٹنے کا لائحہ عمل طے کرنے میں مشغول۔ پیر کے روز صدرِمملکت ممنون حسین نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کر دیا، جس کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے قرار دی جانے والی کالعدم تنظیمیں اور افراد اب ملک میں بھی قابل گرفت ہوں گے۔ مذکورہ ترمیمی بل کے بعد حافظ سعید کی جماعۃ الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن سمیت الاختر ٹرسٹ اور الرشید ٹرسٹ بھی کالعدم تنظیموں میں شامل ہو گئی ہیں۔ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 18فروری کو امریکہ اور بھارت کی سربراہی میں پیرس میں فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا پہلا اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ دونوں ملکوں کی خواہش ہے کہ پاکستان اس حوالے سے سخت اقدامات کرے اور بین الاقوامی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی وسائل کی فراہمی سے متعلق نگراں کا کام کرے۔ اگرچہ فورس کے پاس اقتصادی پابندیوں کا اختیار نہیں لیکن اس کی سفارشات پر اقتصادی سرگرمیاں اضافی مالی بوجھ کی زد میں ضرور آ جائیں گی۔ ان حالات میں آتش زیرپا ہونے کی بجائے یہ دیکھنا چاہئے کہ جن تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ان پر گرفت کرنا بھی ملکی اختیار میں ہے، غیرملکی اختیار میں نہیں۔ اگر یہ سب اپنے اختیار میں ہے اور ہم پاکستان پر لگے الزامات بھی غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں تو یہ ایک آزمائش کی بجائے ایک بہترین موقع ہے، ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

تازہ ترین