• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمع پونجی
چیئرمین نیب نے کہا ہے:عوام کی عمر بھر کی جمع پونجی لوٹنے والے عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹا جا رہا ہے۔ جو کچھ نیب چیئرمین کہتے ہیں اسی لئے تو نیب کا ادارہ قائم ہوا تھا اور اب تو یہ اچھا خاصا عمر رسیدہ اور تلخ و شیریں چشنیدہ ہے، مگر عوام کی عمر بھر کی جمع پونجی تو مل جل کر کھائی گئی، نیب نے کبھی خود مختار ادارے کا کردار ادا نہیں کیا لوٹنے والوں کے ساتھ بنا کر رکھی، موجودہ نئے چیئرمین کو اگر عوام کی جمع پونجی کے لٹنے کا خیال آ گیا ہے تو یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے، مگر یہ تبدیلی وہ نہ ہو جو عمران خان نے متعارف کرائی ہے۔ بہتر مثبت تبدیلی نظر بھی آنی چاہئے، ہم نے تو نیب کی کارکردگی کا یہ حال دیکھا ہے کہ
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے ’’محتسب‘‘ سے کچھ بھول ہوئی ہے
قوم کا نہ صرف حافظہ کمزور ہے حساب بھی خاصا کمزور ہے، 5نمبر ڈال کر بھی نہ نیب پاس ہوئی نہ قوم، سیکنڈ، فرسٹ آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؎
ہم بھول گئے ہر بات
مگر نہیں بھولے بُری عادات
بری بات، بری عادات والے بَری ہوتے رہے اور ہم خاموش رہے، نیب چیئرمین دھیان سے کہیں ہماری جمع پونجی واپس لانے میں کسی کی حق حلال کی پونجی لوٹا نہ لائیں کیونکہ ہمیں اپنی جمع پونجی کی پہچان ہے، قوم میں زیادہ تر عوام ہوتے ہیں، خواص تو بہت تھوڑے ہوتے ہیں، جمع تفریق کی جائے تو لوٹ مار کی تان اشرافیہ پر ہی ٹوٹتی ہے مگر اشرافیہ ساری کی ساری لٹیری نہیں ہوتی، اس میں کاروباری لوگ، تاجر پیشہ حضرات بھی ہوتے ہیں اور محنت سے براستہ حلال دولت کماتے ہیں، اور یہ بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ 90یصد رزق تجارت میں ہے اس لئے اگر کوئی زیادہ امیر ہو جائے تو اس کے امیر ہونے کو اس کا جرم نہیں سمجھنا چاہئے، اگر کوئی ڈاکو لٹیرا ثابت ہو جائے تو اس سے چوری کا مال ضروری برآمد کر کے عوام تک پہنچائیں مگر ایسا ہوتا نہیں، غریب غریب ہی رہتا ہے۔
٭٭٭٭
بھارت حد سے گزر رہا ہے
ایک طرف کنٹرول لائن پر بلا ناغہ جارحیت، ایک جانب مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم، اور ایک طرف سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے ناپاک کوششیں، اب وقت آ گیا ہے کہ ہماری قیادت بھارت پر کچھ ضروری باتیں واضح کر دے، اور اس سے حتمی طور پر جواب مانگے، اس کے ساتھ ہی عالمی برادری کو اعتماد میں لینے کی سفارتی کوششیں بھی تیز کی جائیں، بھارت کے تیور اچھے نہیں دکھائی دے رہے، وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہا، ہم ہرگز جنگ و جدل نہیں چاہتے مگر بھارت آ بیل مجھے مار کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے، افغانستان میں بڑھتا ہوا بھارتی اثر و رسوخ اور عمل دخل امریکہ کا مرہون منت ہے، اس لئے پاکستان امریکہ سے دو ٹوک بات کرے، اور ساتھ ہی خارجہ پالیسی اس طرح سے مرتب کرے کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ماضی جیسے ہو جائیں، ایران کی چابہار کے بعد اومان کی دکم پورٹ کے لئے بھارت کا معاہدہ، یہ بات درست ہے کہ ان معاہدوں کا مقصد چابہار اور دکم کے ذریعے گوادر بندر گاہ پر تجارتی جہازوں، پاکستانی اور چینی بحریہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا ہے۔ بلاشبہ گوادر، سی پیک کو ناکام کرنے اور پاکستانی بحریہ پر نظر رکھنے کے لئے اب بھارت ایک نیا منصوبہ تیار کر چکا ہے، ہم شتر مرغ پالیسیوں سے باہر نکلیں، وزارتِ خارجہ اپنا بیانیہ اور اسٹانس مرتب کرے، نئے خطرات و خدشات جن کا بھارت کی جانب سے مزید بڑھنے کا امکان نظر آ رہا ہے ان کے آگے مضبوط بند باندھے، مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ کنٹرول لائن پر آئے دن کی جارحیت کے حوالے سے بھی اب کچھ سوچنے اور کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ بغل میں بیٹھا یہ دشمن ہمسایہ ہمیں کوئی بڑا نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔
٭٭٭٭
کالا چشمہ اور چھنا نن چھنانن
چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے:عینک لگا کر دیکھنا ہو گا کہ الیکشن کب ہوں گے۔ چوہدری صاحب کالا چشمہ اتاریں عینک کی ضرورت نہیں، الیکشن اپنے وقت پر ہوتے نظر آ رہے ہیں، ویسے کالے چشمے کی دھوم بھی ہے اور آپ کے چہرے پر تو یہ بہت سجتا ہے اس لئے اب کالے پر ’’چٹا‘‘ چشمہ لگا کر الیکشن ڈھونڈنے کا خیال ترک کر دیں اور کسی اور کو بھی یہ مشورہ نہ دیں، ان دنوں اکثر سیاسی حکومتی لوگ کالا چشمہ زیادہ استعمال کرنے لگے ہیں بس ان کے پاس سفید چھڑی نہیں ہوتی، مگر اس سے فرق نہیں پڑتا کہ انہیں سڑک پار کرنے کی زحمت ہی نہیں اٹھانی پڑتی۔ اس وقت وطن عزیز میں شدید سردی بھی ہے کڑی دھوپ بھی، اور روپ بھی ہے سروپ بھی مغرب سے سورج نکلنے کا تو علم نہیں البتہ مشرق سے کئی سورج طلوع ہونے والے ہیں، تب کالے چشمے بہت بکیں گے۔ ہمارے نقار خانہ سیاست و ریاست میں طوطی عجیب و غریب مکالمے بول رہے ہیں، ان مکالموں کو میڈیا گم نہیں ہونے دیتا بلکہ ایمپلی فائر لگا کر ہر کان تک پہنچا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آدھے سے زیادہ کان قوت سماعت سے محروم ہو چکے ہیں ایوان عدل سے دل کی آواز اٹھ رہی ہے، شاید وہ عین موقع پر پہنچ چکا ہے، اور جب عدل سے عین چھوٹا تو باقی دل ہی تو رہ گیا اسی لئے تو بہ تصرف عرض کیا ہے؎
عدل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت
انصاف سے بھر نہ آئے کیوں
عوام کو اس قدر رگڑا گیا کہ وہ کندن بن گئے، اب وہ الیکشن کی ضمنیوں میں بھی بڑے واضح نوٹ لکھ رہے ہیں اور پا بھی رہے ہیں، جنرل الیکشن کی جھلک بھی دکھائی دے رہی ہے، ایک عام شخص کو یہ کہتے بھی سنا کہ اگر پاک صاف نظام آ گیا تو ہم جو اپنے کام کچھ لے دے کر پیپر ورک کی صورت میں کرانے کے عادی ہو چکے ہیں ہمارے تو سارے کام بند ہو جائیں گے، ایک ووٹر کو یہ کہتے سنا کہ میں نے ووٹ تو ڈالا نہیں مگر میرا ووٹ کاسٹ ہو گیا، ہم نے کہا آپ نے نہیں سنا وہ گیت کہ
’’میں نے پائوں میں پائل تو باندھی نہیں
آتی ہے صدا چھنانن چھنانن‘‘
٭٭٭٭
تماشا در تماشا
....Oمریم نواز:آئین کا تماشا بنانے والے کا نام ای سی ایل میں کیوں نہیں ڈالا،
اس لئے کہ وہ آئینہ نہیں دیکھتا،
....Oحسین حقانی:ریڈ وار نٹس کو بیرونی ممالک میں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی،
تو سفید وارنٹس بھجوا دیتے، رنگ میں کیا رکھا،
بہرحال وارنٹ تو وارنٹ ہے۔
....Oشیخ رشید:نواز شریف ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں،
پاگل خانے میں سارے پاگل ہم سب کو پاگل سمجھتے ہیں،
....Oحافظ آباد میں ’’بون میرو‘‘ نکالنے کا معاملہ بے بنیاد ہے:فرانزک ایجنسی بہرحال کچھ نکالا جاتا ہے جو بون میرو نہیں ہوتا،
آخر ایسا بھی کیوں کیا جاتا ہے، کیا یہ جرم نہیں؟

تازہ ترین