• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صبح صبح جو پہلی چند چیزیں ذہن سے ٹکرائیں ان میں ایک جگر مراد آبادی کی غزل بھی ہے؎
جو اب بھی نہ تکلیف فرمائیے گا
تو بس ہاتھ ملتے ہی رہ جائیے گا
نگاہوں سے چھپ کر کہاں جائیے گا
جہاں جائیے گا ہمیں پائیے گا
مرا جب برا حال سن پائیے گا
خراماں خراماں چلے آئیے گا
نہیں کھیل ناصح! جنوں کی حقیقت
سمجھ لیجئے گا تو سمجھائیے گا
ستم عشق میں آپ آساں نہ سمجھیں
تڑپ جائیے گا جو تڑپائیے گا
ترا جذبہ شوق ہے بے حقیقت
ذرا پھر تو ارشاد فرمائیے گا
محبت محبت ہی رہتی ہے لیکن
کہاں تک طبیعت کو بہلائیے گا
جنوں کی جگر کوئی حد بھی ہے آخر
کہاں تک کسی پر ستم ڈھائیے گا
پوری غزل جگر صاحب کے دیوان سے نکال کر دوبارہ پڑھی۔ ٹائٹل پر ان کی تصویر دیکھ کر کچھ شک سا ہوا کہ شاید ایسے باریش شخص نے یہ غزل کہی ہی نہ ہو یا پھر سوچا کہ وہ دور ہی کچھ اور ہوگا۔ آخر کو حسرت موہانی، مولانا حالی ایسے باریش حضرات نے بھی تو رومانوی غزلیں کہی ہیں، پھر سوچا شاید ہمارے ہی دور کا قصور ہے جس نے معاشرے میں نزاکت کی جگہ خرافات بھردی ہیں۔ ہم فن کی گہرائیوں میں سے بھی فضولیات ہی تلاش کرتے ہیں۔ ہم فن پر ناز کرنے والوں کو جنہیں عالمی سطح پر اعزازات ملتے ہوں، قابل نفرت گردانتے ہیں۔
ایک طرف جہاں مذہبی جنونی عاصمہ جہانگیر اور ملالہ ایسی خواتین کو مطعون کرتے ہیں وہیں لبرل فاشسٹ اپنے لبرل ازم کی بنیاد پر اس ملک کی اقدارکے پیچھے ہیں۔ ان کی لڑائی اس وقت سوشل میڈیا پر بھی لڑی جارہی ہے لیکن دونوں ہی اس بات کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ عالمی سطح پر اس وقت پاکستان کو گھیرنے کے لئے کیا منصوبے بن رہے ہیں۔ امریکہ برطانیہ کے ساتھ مل کر اس وقت اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح پاکستان کا نام ان ملکوں کی فہرست میں شامل کرالے کہ جو ٹیررازم کے لئے فنڈنگ کرتے ہیں۔ پاکستان کے سفارتی حلقے اگرچہ جرمنی اور فرانس کو ہمنوا بنوا کراس مصیبت سے چھٹکارا پانے کی کوشش میں ہیں لیکن ان کی کامیابی کا امکان کم ہے، اگر پاکستان پر پابندی لگ گئی تو اس ملک کی مشکلات میں جو اضافہ ہوگا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ہم پر قرضوں کا بوجھ بڑھ کر 89ارب ڈالر ہوچکا ہے۔
ہماری ٹریڈ برے حال میں ہے۔ ایکسپورٹ بہت کم اور امپورٹ بہت زیادہ ہے۔ کرنسی ڈی ویلیو ہورہی ہے اور ہم بس ا سی دھن میں مگن ہیں کہ اس ہنود و یہود کی سازش سے کوئی طاقت ہمیں بچالے گی۔ ایسی صورتحال میں ہمارے پاس سوائے اس کے کہ دوبارہ کشکول لے کر آئی ایم ایف کے پاس جائیں اور کوئی راستہ نہیں ہے لیکن اگر ہم پر پابندی لگی تو آئی ایم ایف بھی ہمیں قرض نہیں دے گا۔ یوں سمجھیں کہ پوری دنیا ہمیں ڈو مور کرنے کے لئے کہہ رہی ہے جس میں لشکر طیبہ، حقانی گروپ ایسے گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کو کہا جارہا ہے ہم اب تک پوری سنجیدگی سے شاید یہ کام نہیں کررہے۔
لبرل فاشسٹ اور جنونیوں کی جس لڑائی کا میں نے پہلے ذکر کیا وہ اس بات کا ادراک نہیں کررہے اور خواہ مخواہ کی خرافات میں مبتلا ہیں۔ ہمارے سابق وزیر خزانہ صاحب مشرف کی طرح ملک سے بھگوڑے ہوچکے ہیں۔ مشرف نے اگر کمر دردکا بہانہ تراش کر علاج کے لئے باہر کا رخ کیا تو اسحق ڈار کو کونسی ایسی بیماری ہے جس کے علاج کے لئے وہ لندن کی سڑکوں پر مٹر گشت کرتے نظر آتے ہیں۔ مشرف تو صاف کہتے ہیں کہ’’میں کسی سے نہیں ڈرتا‘‘ لیکن اسحق ڈار شاید یہ کہتے نظر آتے ہوں گے کہ ’’کرلو جو کرنا ہے‘‘افسوس یہ کہ نواز شریف و مریم نواز بھی حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں کرپارہے۔
وہ سوائے اس کے کہ اپنے اوپر بنائے گئے مقدموں سے نکلنے کے لئے عدلیہ کو مطعون کرنے کی پالیسوں پر عملدرآمد کے اور کچھ نہیں کررہے ، ایسے میں کہاں ہیں شاہد خاقان عباسی اور ان کی وزارت خزانہ، ایسے میں مذہبی جماعتوں کےکردار کا کیا ذکر کریں جس طرح یہ جماعتیں عورتوں کے حقوق کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہیں کیا ایسا ادراک کر پائیں گی کہ اکٹھے ہو کر ملک کی معاشی ابتری کے خلاف بھی کچھ کریں۔ شاید وہ یہ بات جانتی ہیں کہ کمزور کے خلاف تو وہ جو چاہیں سو کریں لیکن طاقتور کے خلاف ان کا بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ یہ یہود و ہنود کی سازش ہے۔ کاش! ان مذہبی جماعتوں سے ایسے ذہن پیدا ہوسکتے کہ جو دنیا میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں سے ا ٓگاہ ہوتے اور پھر ان تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی مثبت کردار ادا کرتے۔ ان کی اس معاملے میں کم علمی یا لاعلمی لبرل فاشسٹ کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ ان پر اٹیک کریں۔
ہم نے آج آغاز ایک غزل سے کیا تو چلیں اختتام بھی ایک غزل سے کرتے ہیں۔
منیر نیازی فرماتے ہیں؎
دیتی نہیں اماں جو زمیں، آسماں تو ہے
کہنے کو آگئے، دل میں کوئی داستاں تو ہے
یوں تو ہے رنگ زرد مگر ہونٹ لال ہیں
صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے
اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
اس غزل کے خاص طور پر آخری شعر پہ غور کریں اور اگر پھر بھی تسلی نہ ہو تو اس پر غور کرلیں،
تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا

تازہ ترین