• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور پاکستان کھلا تضاد…آصف محمود براہٹلوی

پیرس میں فنانشل ایکشن فورس کے سالانہ اہم اجلاس میں پاکستان کو عالمی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی جنگ میں اپنی مسلح افواج، معصوم شہریوں اور مالی طور پر سب کچھ قربان کرکے دنیا کے تحفظ اور امن کے لئے جنگ میں فرنٹ لائن پر لڑنے والا نڈر، بے باک ملک ٹھہرا، متعدد مقامات پر عالمی برادری نے پاکستان کے کردار کی تعریفیں بھی کیں۔ دہشت گردی کی کمر توڑنے پر مسلح افواج کے کردار کو سراہا گیا لیکن اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ امریکہ کھلے عام پاکستان دشمنی پر اتر آیا۔ امریکہ عالمی سطح پر برطانیہ، جرمنی، فرانس اور بھارت کو اپنا ہمنوا بنا کر یعنی ایکا کرکے پاکستان کے خلاف لابنگ میں مصروف ہوگیا اور دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے ملک پاکستان سے نہ صرف ڈومور کا مطالبہ کردیا بلکہ گرے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے پر اتر آیا، اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا یہ دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی نہ ہوگی؟ کیا یہ دہشت گردی کو پروان چڑھانے کا سبب نہیں بنے گا؟ اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو پاکستان جو دہشت گردوں کو شکست دے چکا ہے لیکن سفارتی محاذ پر پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کو شکست دینا ابھی باقی ہے۔ پاکستان نے بھی اپنی مہم تیز کردی ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف، مفتاح اسمٰعیل، تہمینہ جنجوعہ، تسنیم اسلم سمیت متعدد سفارتی حکام عالمی سطح پر لابنگ کے لئے متحرک ہوگئے ہیں، کیا متحرک ہونے میں تاخیر نہیں ہوئی؟ یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا جنگی محاذ پر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے، دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے بعد دنیا ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھے گی بلکہ پاکستان کو گرے ہوئے ممالک کی لسٹ میں شامل کرنے کے لئے لابنگ تیز کردے گی۔ یہاں پر دو باتیں انتہائی اہم ہیں، ایک یہ کہ پاک، چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے پاکستان اس قت عالمی سرمایہ کاروں کا مرکز بننے والا ہے، دوسرا دہشت گردی کی لعنت جس کے خلاف نیٹو جو تقریباً 45ممالک پر مشتمل اتحاد تھا، کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب پاکستان کی پوری قوم، مسلح افواج اور حکومت نے ایک صف میں کھڑے ہو کر دہشت گردوں کی کمر توڑ دی بلکہ پاک، افغان بارڈر کے درمیان پٹی جو عالمی دہشت گردی کا مرکز ٹھہرا ہوا تھا، نہ صرف فوجی آپریشن کے ذریعے انہیں ختم کردیا بلکہ ان میں سے متعدد گروپس ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہو کر پاکستان کے محافظ بن گئے۔ یہ اہم نقطہ بھی عالمی برادری کو اچھا نہیں لگتا۔ اب وہاں نہ صرف فوجی چوکیاں قائم ہیں بلکہ تعمیر و ترقی کا کام بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ہم ایک نئے سرے سے اپنی سمت کا تعین کریں اور عالمی سطح پر موجود اپنے دوست ممالک کو ہمنوا بناتے ہوئے سفارتی محاذ پر جنگی بنیادوں پر کام کریں، ملک کے متعلق پائے جانے والے خدشات کو دور کرتے ہوئے ٹھوس بنیادوں پر نئی ریلیشن شپ قائم کریں تاکہ دہشت گردی کے خلاف جیتی ہوئی جنگ سفارتی محاذ پر بھی جیت کر عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایاجائے۔ اس وقت پڑوسی ممالک خاصے پریشان ہیں اس لئے شاید عرب امارات میں بھی بھارت کا سواگت گرمجوشی سے کیا جاتا ہے اور ساڑھے 14سو سال بعد سرزمین عرب پر بھارتی وزیراعظم نے مندر کی بنیاد رکھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں دوسروں کی فکر چھوڑ کر پاکستان کو دنیا میں اعلیٰ مقام پر کھڑا کرنا ہوگا جس کے لئے دنیا بھر میں قائم پاکستان کے سفارت خانے، قونصلیٹ اور سب سے بڑھ کر اوورسیز کمیونٹی پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کا مقدمہ عالمی سطح پر لڑ کر ملک کا کھویا ہوا وقار بحال کریں۔

تازہ ترین