کراچی (ٹی وی رپورٹ) سپریم کورٹ کے فیصلے پر جیو کے خصوصی ٹرانسمیشن میں میزبان شاہزیب خانزادہ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گی کہ جو فیصلہ ہے ہمیں اسی طرح کی اُمید تھی کیونکہ پاناما کے بعد ہر فیصلہ ایک شخص کو ٹارگٹ کرنے کے لئے کیا جارہا ہے ۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہاکہ لودھراں الیکشن بھی چیلنج ہوسکتا ہے،شاہدخاقان عباسی کا متبادل کون ہوگا۔تجزیہ کار منیب فاروق نے کہا کہ سینیٹ کے لئے دوبارہ سے نامزدگی بھیجی جاسکتی ہے۔سابق چیف جسٹس ناصر اسلم زاہد نے کہا کہ فیصلہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے ، فیصلے کا ن لیگ کو فائدہ ہوگا ، انہیں ہمدردی کے ووٹ مل سکتے ہیں ۔ ماہرین قانون رشید اے رضوی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 62، 63پر زیادہ بھروسہ کیا ، لوگوں کے ذہنوں میں جو ابہام تھا اس کی وضاحت کردی ہے ۔ پروگرام میں نمائندہ جیو نیوزعبد القیوم صدیقی نے بھی اظہار خیال کیا۔مریم اور نگزیب نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد کسی قسم کا دھچکا نا مسلم لیگ ن کو لگا ہے نہ محمد نواز شریف کو اور اس فیصلے سے محمد نواز شریف کا بیانیہ کہ ایک ہی شخص کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے اور ان کو ایک اقامے کے کمزور فیصلے پر نکالا گیا اور اس ایک کمزور فیصلے کو ڈیفنڈ کرنے کے لئے باقی تمام فیصلے آرہے ہیں اس لئے اُن کے بیانیہ کو اور بھی زیادہ تقویت ملی ہے پاکستان مسلم لیگ ن کی پارٹی کا جو بھی فیصلہ ہوگا اس کی بعد حکمت عملی ہوگی وہ نواز شریف کرے گا۔انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے بھی کہاہے کہ ہماری حکمت ِ عملی ایک ہی ہے پاکستان مسلم لیگ ن کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ نواز شریف کریں گے اور یہ فیصلہ نیا نہیں ہے ہمارے لئے یہ وہی پرانا فیصلہ ہے لیکن اس کے بعد ہمارے بیانیہ کو اور بھی زیادہ تقویت ملی ہے،سینیٹ کے الیکشن میں تمام اداروں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا تھا کرنا ہے اور ہوگا اگر کسی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی تو یہ پاکستان کے عوام کے لئے ٹھیک فیصلہ نہیں ہوگا۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشیدنے کہا کہ میں خود اس کا درخواست گزارہوں فروغ نسیم کو ہم نے ہائر کیا اُن سے یہ کیس کروایاعوامی مسلم لیگ اس میں ٹاپ پارٹی ہے اور سب سے اہم اور اچھے دلائل فروغ نسیم کے تھے اور میں سمجھتا تھا کہ وہ آئین اور دستورکو بہت اچھا سمجھتے ہیں اس لئے میں نے ان کو کراچی میں زحمت دی جو انہوں نے قبول کی اور ہمارے کیس میں متعدد بار اُن کو آنا پڑا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ صرف صدارت کا مسئلہ نہیں ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ نوا ز شریف کی اگلی صدارت کون کلثوم نواز صاحبہ لیں گی یا شہباز شریف صاحب لیں گے کیا سینیٹ کے سارے ٹکٹ جو دوبارہ جاری ہوں گے الیکشن وقت پر ہونے چاہیں ،سب سے بڑی بات ہے شاہد خاقان عباسی کا متبادل کون ہوگا کیونکہ اور لودھراں کا الیکشن بھی چیلنج ہوسکتا ہے کیونکہ جتنے ٹکٹ نواز شریف نے جاری کئے ہیں وہ تمام کے تمام فیصلے کے بعد نااہل قرار پائے ہیں کیونکہ آئین کے تقاضوں کے مطابق 62-63 میں آدمی دیانت دار ہونا اور آدمی کا قانون اور آئین کا پابند ہونا لازمی قرار ہے ۔ شیخ رشیدنے کہاکہ ساری مسلم لیگ ن دودھ پینے والی مجنوں ہے اور بھٹو نے جس وقت لاہور اُترا ہے سمندر تھا یہ لاہور اُتر کے دیکھ لیں۔نواز شریف خاندان کو نکال کے کسی اور خاندان کو آپ نے حکمرانی دینی ہے یہ نواز شریف کو قبول نہیں ہے یہ یاد رکھیں مشرق سے مغرب سورج طلوع ہوسکتا ہے نوازشریف کسی صورت میں اپنے خاندان کے علاوہ کسی کے لئے یہ جدوجہد نہیں کرسکتے یہ پاناما سے بڑا فیصلہ ہے۔ مسلم لیگ کھلی ڈلی پارٹی ہے یہ اقتدار کے بغیر نہیں چل سکتی اگر مسلم لیگیوں کو مسلم لیگی ممبر کو یہ پتہ لگ گیا کہ اقتدار فاصلہ پر ہے تو یہ گڈ بائی کرتے دیر نہیں لگائیں گے۔ میں آپ کو مفت مشورہ دیتا ہوں آپ لودھراں اور چکوال میں نہ پھنسے رہیں شہباز شریف بہت اُستاد فنکار ہے وہ زیادہ اُستاد ہے نواز شریف میں یہ چالاکیاں نہیں ہیں جو شہباز شریف میں ہیں نواز شریف مشرف کے وقت بھی اس کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگیا تھا آج بھی پوری کوشش کر رہا ہے اور پوری کوشش میں ہے کہ وکٹ کی دونوں طرف کھیلے خاقان عباسی بھی اسی قسم کا پلیئر ہے۔ تجزیہ کارمنیب فاروق نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ عدالت کسی ایک صوبے کو اور اتنے سارے جو ایم پی ایز منتخب ہوئے ہیں اُن کو ڈس ان فرنچائز کر دے گی کہ وہ سینیٹ کے اندر ایک پارٹی اپنی بالکل نمائندگی نہ بھیج سکے اور اپنے ٹکٹ جن کو میاں نواز شریف نے دیئے تھے بے شک جیسے ہم نے پہلے بھی ڈسکس کر رہے تھے اگر کالعدم قرار دے دیا جو کہ اب ہوچکا ہے تو ٹھیک ہے وہ نامینشن کالعدم قرار دے دی گئی ہیں لیکن دوبارہ سے نامینشن بھیجی بھی جاسکتی ہیں یہ سوال میرے اور آپ کے لئے ضرور ہے کہ کیا اتنے کم وقت میں جب تین تاریخ کے لئے غالباً شیڈول ہے اگلے مہینے کی سینیٹ کا الیکشن تو کیا مختصر سے وقت میں یہ کام ہوسکتا ہے یا نہیں الیکشن کمیشن کیا تشریح کرتا ہے۔منیب فاروق نے کہا کہ نواز شریف کو شاید اس اسٹیج پر کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ وہ پارٹی صدر ہیں یا نہیں ہیں ۔نمائندہ جیو نیوزعبد القیوم صدیقی نے کہا ہے کہ نواز شریف پارٹی صدارت سے نا اہل ہوگئے ہیں یہ فیصلہ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں نواز شریف کے نا اہل ہونے کے بعد سے تمام فیصلے کالعدم قرار دے دئیے ہیں، عدلیہ نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ بطور پارٹی سربراہ نواز شریف کے اقدامات کی اب قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ، اس کے علاوہ سینیٹ ٹکٹ جن پر نواز شریف کے دستخط تھے وہ بھی کالعدم ہوگئے ہیں، جبکہ لطیف کھوسہ نے بھی یہ کہا ہے کہ وہ اب بطور سینیٹ امید وارانتخابات میں بھی حصہ نہیں لے سکیں گے۔ عبد القیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ سب after effectsہیں لودھراں کے انتخابات کی کامیابی کا تو نوٹیفکیشن بھی جاری ہوچکا ہے وہاں انتخاب ہوا جبکہ یہاں انتخاب ہونا باقی ہے۔ سنیئر صحافی سہیل وڑائچ نے کہا کہ میرا خیال ہے یہ لازمی طور پر سیاسی نقصان ہے لیکن اس کا تاثر سیاست پر ویکٹم کارڈ کے طور پر استعمال ہوگا کیونکہ پوری پاکستان کی تاریخ میں پہلے بھی لوگ نااہل ہوتے رہے ہیں ایبڈو کے ذریعے پوڈا کے ذریعے پروڈا کے ذریعے ایوب خان دور میں اس سے پہلے بھی لیکن کسی کو پارٹی عہدوں کے لئے نااہل قرار نہیں دیا گیا بھٹو کو پھانسی کی سزا ملی اور اس کے باوجود لوگ پارٹی چیئرمین اور ہمیشہ سیاست کے لئے انہیں ریلونٹ سمجھتے رہے میرا خیال ہے کہ یہ سیاسی سائیڈ کے اوپر آج ایک بہت بڑا یوں سمجھئے کہ گہرا گھاؤ لگا ہے۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ جب بھی پاکستان کے اندر اس طرح کی سزائیں ہوئی ہیں جب بھی اس طرح کی پابندیاں لگی ہیں تو پنجاب کے لوگ بالخصوص سندھ کے لوگوں کی جو قومی مزاج ہے اس میں یہ ہے کہ یہ مظلوم کا ساتھ دیتے ہیں مظلوم کا ساتھ دینے والا اس وقت تو کچھ نہیں کرسکتا لیکن آپ دیکھیں ستر سے اٹھاسی تک پیپلز پارٹی اسی طرح زور و شور سے برقرار رہیاسی طرح 1999 ءسے لے کے آپ 2002 ء تک دیکھتے ہیں اسی طرح پارٹی برقرار رہی نون کی اور پھر 2007 ء میں دوبارہ وہ پنجاب میں ری امرچ کئے تو بنیادی بات یہ ہے جو قانونی فیصلہ ہوتے ہیں یہ جو عدالتی فیصلے ہوتے ہیں جو انتظامی فیصلے ہوتے ہیں اس سے سیاسی حیثیت ختم نہیں ہوسکتی آپ اُس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں دھکچا دے سکتے ہیں لیکن in the long term وہ ری امرچ کرتے ہیں ۔