میاں نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو انتخابات سے قبل کے تمام وعدے بھول گئے۔وعدہ کیا تھا کہ میں اقتدار کی نہیں بلکہ اقدار کی سیاست کروں گا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اقدار بھول کر صرف اور صرف اقتدار کا لطف اٹھانے لگ گئے۔ بری طرح چمچوں اور خوشامدیوں میں پھنس گئے۔ پارٹی عملاً معطل کردی۔ پارلیمنٹ کو بے وقعت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ماضی سے بھی بڑھ کر شاہانہ انداز میں حکمرانی کرنے لگے۔ کابینہ تک کے اجلاس بلانے کی زحمت گوارا نہ کرتے ۔ چھوٹے صوبوں سے بے رغبتی کا ایسا مظاہرہ کرنے لگے کہ وزیراعظم پاکستان کے نام پر وزیراعظم وسطی پنجاب دکھائی دینے لگے۔ خارجہ پالیسی کے لئے بہترین ٹیم کے ذریعے پرفارمنس کی بنیاد پر معاملات اپنی طرف منتقل کرنے کی بجائے شاہانہ انداز میں خارجہ پالیسی کی مہار اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے برعکس اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی جس کی وجہ سے وہ برہم ہوئی۔ چنانچہ عمران خان اور طاہرالقادری کو میدان میں اتارا گیا۔ دھرنوں کے ذریعے غلط وقت پر ، غلط انداز میں میاں نوازشریف کو رخصت کرنے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے تمام جمہوریت پسند قوتیں بادل ناخواستہ میاں نوازشریف کے ساتھ کھڑی ہوگئیں۔ وہ نوازشریف جو محروم علاقوں اور محروم عوام کے غیض وغضب کا نشانہ بننے جارہے تھے، الٹا ہم جیسوں کی ہمدردی کے مستحق قرار پائے۔ اور تو اور پیپلز پارٹی اور اے این پی جیسی جماعتیں بھی ان کے ساتھ کھڑی ہوگئیں۔ گویا دھرنے میاں نوازشریف کی نفرت میں ان پر پہلا بڑا احسان تھا جو ان کے مخالفین نے ان پر کیا۔
دھرنوں سے بچ جانے کے بعد میاں نوازشریف ایک بار پھر روایتی بادشاہانہ روش پر گامزن ہوگئے۔ عرفان صدیقی انہیں باور کراتے رہے کہ وہ طیب اردوان ہیں تو طارق فاطمی ان کے ذہن میں بٹھاتے رہے کہ نیلسن مینڈیلا ان کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔ یوں میاں صاحب پہلے سے زیادہ بادشاہ بننے لگے۔وفاقی وزراء تک ان کے دیدار کے لئے ترسنے لگے۔ انہوں نے کوئٹہ اور پشاور کے کم جبکہ برطانیہ کے زیادہ دورے کئے۔ سی پیک جیسے منصوبے کو علاقہ پرستی کی بھینٹ چڑھا دیا۔اس کے سودے اس پراسرار انداز میں کئے کہ زرداری بھی شرما گئے۔ عدلیہ کو زیردام لانے اور میڈیا کو غلام بنانے کی کوششیں کیں۔ قومی اداروں کو چہیتوں کے حوالے کیا۔احتساب کا کوئی نظام بناسکے اور نہ نظام انصاف میں بہتری لانے کے لئے کوئی قدم اٹھایا۔ اتنے میں پانامہ کا معاملہ عالمی اور پاکستانی میڈیا سامنے لے آیا۔ اس حوالے سے شریف خاندان کی جو غلط بیانیاں سامنے آئیں، اس نے ان کی اخلاقی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا۔ اس ایشو کی بنیاد پر ان کا امیج اس تیزی کے ساتھ تباہ ہونے جارہا تھا کہ اچھے بھلے مسلم لیگی بھی دوسری جماعتوں میں پناہ ڈھونڈنے کے لئے ہاتھ پھیر مارنے لگے۔ میڈیا میں مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے ساتھ ایسا سلوک ہونے لگا کہ بڑے بڑے چرب زبان مسلم لیگی بھی صفائی پیش کرنے سے کترانے لگے ۔ وہ میڈیا پرسنز جو صحافت سے زیادہ شریف خاندان کے وفادار ہیں بھی ان کا دفاع کرنے سے قاصر ہوگئے ۔ لیکن اس دوران ایک بار پھر میاں نوازشریف کی مخالف طاقتیں ان کی نفرت میں اندھی ہو کر میدان میں آئیں ۔ انہوں نے حسب سابق اپنے پرانے مہروں یعنی عمران خان اور شیخ رشید کو آگے کیا۔ جب ہوا کا رخ دیکھا تو جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی میدان میں اتر آئے ۔ یہ جنگ سیاست کے میدان میں لڑی جاتی تو اگلے انتخابات تک مسلم لیگ (ن) کا وہ حشر ہوجانا تھا جو پچھلے دور میں پیپلز پارٹی کا ہوگیا تھا تاہم میاں نوازشریف کے مخالفین کو جلدی تھی اس لئے وہ سیاسی جنگ عدالتوں کے ذریعے لڑنے لگے۔ چنانچہ جس دن عدالت سے نااہلی کا فیصلہ آیا ، اس دن سے میاں نوازشریف ،ظالم کی بجائے مظلوم بن گئے ۔ ایک دن پہلے وہ کرپشن کے بدترین الزامات کی زد میں تھے لیکن اگلے دن جمہوریت کی علامت بن گئے۔ ایک دن پہلے وہ وزیراعظم کی شکل میں عرب بادشاہ تھے لیکن اگلے دن وہ عوامی لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ تماشہ یہ تھا کہ ان کی حکومت بھی ختم نہیں ہوئی اور انہیں اپوزیشن لیڈر کا رول بھی مل گیا۔ اپوزیشن کی کوئی سختی آئی نہیں لیکن اپوزیشن لیڈر جس طرح قوم کی ہمدردیوں کا مستحق قرار پاتے ہیں، اسی طرح وہ حکومت میں رہ کر بھی اپوزیشن لیڈر کی طرح ہمدردیوں کے مستحق قرار پائے ۔ رہی سہی کسر عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف عدالتی فیصلے نے پوری کردی اور میاں نوازشریف کو اپنا بیانیہ عوام کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے مزید مواد ہاتھ آگیا۔ چنانچہ ان کی مقبولیت روز بروز بڑھتی گئی اور اب چند ماہ گزرنے کے بعد ان کے دشمنوں کو بھی یقین ہونے لگا ہے کہ اگلے انتخابات میں ان کی پارٹی ہی اکثریت حاصل کرے گی ۔
البتہ میاں شریف یہ کامیابی صرف سیاسی اور عوامی محاذ پر حاصل کررہے ہیں ۔ قانونی محاذ پر صورت حال اس قدر الٹ ہے کہ ان کا اور ان کی سیاسی جانشین محترمہ مریم نواز شریف کا بچنا ناممکنات میں سے ہے ۔ اقامہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ سے نااہلی کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ پانامہ کے معاملے میں ان کے ہاتھ صاف ہیں ۔ سپریم کورٹ میں اپنی معصومیت ثابت کرسکے ، نہ جے آئی ٹی میں اور نہ اب احتساب عدالتوں میں ممکن نظر آتا ہے ۔ یوں بھی میاں صاحب اور مریم بی بی نے جو سخت رویہ اپنا رکھا ہے اس کے بعد ان کو کسی عدالت سے کسی قسم کا ریلیف ملنے کا کوئی امکان نہیں۔ یوں بھی جن قوتوں نے ان کو اس مقام تک پہنچایا ہے ، ان قوتوں نے کسی صورت میاں صاحب اور مریم بی بی کو کوئی راستہ نہیں دینا ہے ۔ تاہم مخمصہ یہ ہے کہ ان قوتوں نے عمران خان صاحب کو میاں صاحب کے خلاف استعمال کیا اور ان کے مقابلے میں ان کو مزید زندہ رکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے ذہنوں کے کسی بھی خانے میں یہ بات نہیں کہ وہ خان صاحب کو وزیراعظم بھی بنادیں ۔ وہ خان صاحب کی بچگانہ حرکتوں سے ایسے نالاں ہیں کہ زرداری صاحب کو تو دوبارہ اقتدار دینے پر آمادہ ہوسکتے ہیں لیکن خان صاحب کو کبھی یہ سعادت نہیں بخش سکتے۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دو اہم ترین دوست ممالک نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ عمران خان کو پاکستان کاوزیراعظم دیکھنا نہیں چاہتے جبکہ ان دو سمیت تین دوست ممالک نے یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ وزارت عظمیٰ کے لئے ان کے فیورٹ میاں شہباز شریف ہیں ۔ میاں نوازشریف خود کسی صورت میاں شہباز شریف کو وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتے تھے ۔ مریم بی بی تو کسی صورت اس کے حق میں نہیں ۔ خود میاں نوازشریف ہر معاملے میں اپنا جانشین مریم بی بی کو بنانا چاہتے ہیں لیکن اب قانونی طور پر ایسا ممکن نہیں رہا۔ چنانچہ ان کے پا س اب کوئی راستہ نہیں بچا سوائے اس کےکہ وہ میاں شہباز شریف کو آگے کرلیں ۔ دوسری طرف چونکہ ووٹ اور سپورٹ شہباز شریف کا نہیں بلکہ میاں نوازشریف کا ہے ۔ اس لئے شہباز کبھی بھی اپنے بھائی سے بغاوت نہیں کرسکتے ۔ عوامی سطح پر پذیرائی میاں نوازشریف کے بیانیے کو مل رہی ہے ، اس لئے وہ اسی سخت اور بے لچک بیانیے کو لے کر چل رہے ہیں ۔ جبکہ مقتدر حلقوں اور عالمی دوستوں کو میاں شہبازشریف کا بیانیہ اور طرز سیاست پسند ہے ، اس لئے وہ اسی سمت گامزن رہیں گے۔ میاں نوازشریف عوام میں مقبول اپنے بیانیے سے پیچھے ہٹ جائیں تو شہباز شریف کا بھی نقصان ہے کیونکہ نوازشریف کا ووٹ ہی مسلم لیگ (ن) کو پڑنا ہے اور میاں شہباز شریف ، اپنے بیانیے سے پیچھے ہٹ جائیں توان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوسکتا ہے جو میاں نوازشریف کے ساتھ ہوا ۔ یوں شہباز شریف کا نقصان بھی نوازشریف کا نقصان ہے۔ اس لئے بظاہر متضاد سمتوںمیں یہ سفر اگلے انتخابات تک جاری رہے گا جو مسلم لیگ (ن) کی ایک اور حکومت اور میاں شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ پر منتج ہوگا۔