کراچی (تجزیہ : مظہر عباس) پیپلز پارٹی کے اب بھی وزیراعظم نوازشریف سے خوشگوار تعلقات ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے پارٹی رہنمائوں کومیاں صاحب پر غیر ضروری تنقید سے روک دیا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ساتھ کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر داخلہ ہی پیپلز پارٹی کا اولین ہدف کیوں ہیں؟ ان کے خیال میں چوہدری نثار ہی نے کراچی آپریشن کا رخ پیپلز پارٹی اور حکومت سندھ کی جانب موڑا ہے۔ اب یہ کہاں تک درست ہے اور کوئی مزید ’’سیز فائر‘‘ ہوگی یا ’’فرینڈلی اپوزیشن ’’ڈیڈ لی اپوزیشن‘‘ میں تبدیل ہو جائے گی۔ جمعرات کو بڑوں کی جنگ میں چوہدری نثار اور خورشید شاہ نے ایک دوسرے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس بات نے وزیراعظم نواز شریف کو ایک مشکل اوربڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ بیرون ممالک دورے سے واپسی پر انہیں آرمی چیف کے اپنے معیاد میں توسیع نہ لینے کے قبل از وقت اعلان سے نمٹنا پڑا۔ وزیراعظم بظاہر کشیدگی کو ہوا دینا نہیں چاہیں گے۔ اس حوالےسے انہوں نے اپنی کلیدی ٹیم کے ساتھ اجلاس کیا۔ گوکہ چار سدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گرد حملے کے بعد امن و امان کی عمومی صورتحال ایجنڈے پر تھی لیکن چوہدری نثار علی خان کے ساتھ علیحدہ سے ملاقات پیپلز پارٹی سے نمٹنے کی حکمت عملی کے حوالے سے ہوئی ہوگی۔ لیکن اس میں رینجرز کے اختیارات نیب اور ایف آئی اے کی جانب سے تحقیقات کے معاملے پر کوئی یوٹرن نہیں آیا تاہم انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنائے جانے کے تاثرکو دور کرنے پر اتفاق رائے پایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ چوہدری نثار کو اس معاملے میں وزیراعظم کی حمایت حاصل ہوگی یا نہیں۔ صلح نہیں تو وزیراعظم مسئلہ کے حل کے خواہاں ضرور ہیں۔ ماضی میں اس بارے میں تو وہ کامیاب رہے۔ اب بھی وہ ایسا کر سکتے ہیں؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس صورتحال کا تعلق کراچی میں پیش آنے والے واقعات اور رینجرز ، نیب اور ایف آئی اے کی زیر التواتحقیقات سے ہے۔ جن کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے بعض رہنما سنگین مشکلات سے دو چار ہو سکتے ہیں۔ آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کے شوہر منور علی تالپور کے خلاف حالیہ تحقیقات نے صورتحال کو مزید بگاڑا ہے۔ سابق صدر نے اس اقدام کو طنزیہ طور پر’’شریف کی جانب سے سال نو کا تحفہ‘‘ قرار دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک اور رہنما جن کا پیپلز پارٹی سے براہ راست ٹکرائو ہے وہ سینیٹر مشاہد اللہ خان ہیں۔ جنہیں اپنے ایک بیان پر اسٹیبلشمنٹ کے مشتعل ہونے پر اپنی وزارت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ پیپلز پارٹی پر کچھ ناقدین کے خیال میں چوہدری نثار روز اول سے مک مکا کے خلاف تھے۔ اور جب کراچی آپریشن کے دوران پیپلز پارٹی کے کچھ رہنمائوں اور وزراء کے خلاف رپورٹس آنا شروع ہوئیں تو وزیر داخلہ نے کارروائی کی اجازت دے دی۔ پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ میں فاصلوں کو وسیع کرنے کا بھی ان پر الزام عائد کیا جاتا ہے۔ کچھ پس پردہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ2014میں نواز شریف اور چوہدری نثار کے درمیان کچھ اختلافات اس وقت پیدا ہوئے تھے جب نیب نے سابق صدر اور 2008 سے 2013 کے درمیان پیپلز پارٹی کے دو سابق وزرا اعظم کے خلاف کیسز دوبارہ کھولے۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر وزیراعظم تذبذب میں رہے لیکن چوہدری نثار کا موقف تھا کہ حکومت کو تحقیقات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ گزشتہ سال جب دہشت گردی میں مالی معاونت اور منی لانڈرنگ میں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں اور وزراء کے ملوث ہونے کی سنگین اطلاعات سامنے آئی تھیں، جن پر آصف زرداری نے اپنے شدید رد عمل کا اظہار بھی کیا تھا۔ اس وقت وفاقی وزارت داخلہ نے کوئی مداخلت کی اور نہ ہی رینجرز کو مبینہ طور پر ریڈلائن عبور کرنے سے روکا۔ تاہم ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ جب رینجرز نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر چھاپہ مارا اور جس انداز میں ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری عمل میں آئی، اس پر چوہدری نثار نے ذاتی طور پر ڈی جی رینجرز سے رابطہ کر کے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ لیکن ساتھ ہی ایف آئی اے جو وزرات داخلہ کے تحت ہے اسے آپریشن جاری رکھنے کی اجازت دی گئی اور رینجرز نے ایس بی سی اے سے چائنا کٹنگ کے حوالے سے 15 ہزار فائلیں لے جانے میں مدد دی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خلیج وسیع کرنے میں وزیر داخلہ کے کردار کا بھی شبہ ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کا کیس سندھ اور مرکز کے تعلقات میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ اول انہیں جس انداز میں اور دوسرے جب انہیں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ وزیر داخلہ کے قریبی ذریعہ کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار کی موجودگی میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی ملاقات کے بعد ڈاکٹر عاصم حسین کو کچھ سہولت یا رعایت دی گئی جنہیں علاج کیلئے جناح اسپتال منتقل کیا گیا۔ لیکن پیپلز پارٹی کو شکایت رہی کہ اسپتال میں تمام تر سہولتیں نیب نے واپس لے لیں۔ اب یہ دیکھنا دلچسپی کا باعث ہوگا کہ جب مقدمہ 30 جنوری کو انسداد دہشت گردی عدالت میں زیر سماعت آئے گا تو رینجرز انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت اپنے مقدمے پر زور دے گی یا نہیں۔ لیکن جو بات زیادہ باعث تشویش ہے وہ منی لانڈرنگ اور کرپشن کے کیسز میں نیب اور ایف آئی اے کی تحقیقات ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کو ایف آئی اے اور خصوصاً رینجرز کی کارروائیوں میں وزیر داخلہ کے کردار کا شبہ ہے اور نیب نے جس طریقے سے مبینہ طور پر اربوں روپے کے اسیکنڈلز میں ڈاکٹر عاصم حسین سے پوچھ گچھ کی، اگر اسے روکا نہیں گیا اور پیپلز پارٹی کے اعلیٰ رہنمائوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں تو صورتحال براہ راست تصادم کی صورت اختیار کر لے گی۔ لہٰذا پیپلز پارٹی کے پریشان دکھائی دینے کی وجہ سمجھ میں آتی ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ چوہدری نثار کی جگہ کوئی اور وزیر داخلہ ہو۔ اور پیپلز پارٹی کے کچھ رہنمائوں نے اس حوالے سے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار سے رابطے بھی کئے۔ تاکہ وہ کشیدگی دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ وزیراعظم کیلئے وزیر داخلہ کو تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ماضی میں وزیراعظم نے چوہدری نثار اور چوہدری اعتزاز احسن میں صلح کرائی تھی۔ آج کی صورتحال ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ دھماکہ خیز ہے۔ میاں صاحب اس سے بچنا چاہتے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی نے چوہدری نثار کے خلاف اپنی حکمت عملی بنالی ہے اور وہ ان کے استعفیٰ کا مطالبہ دہرا سکتی ہے۔ اپوزیشن چوہدری نثار کے بیان پر وزیراعظم سے جواب چاہتی ہے۔ نمبر ایک انہوں نے وزیر داخلہ کو کراچی جانے کی بھی ہدایت نہیں کی،۔ نمبر دو حکومت اور پیپلز پارٹی میں مک مکا اور نمبر تین حکومت نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی حمایت کی۔ قومی اسمبلی اور خصوصاً سینیٹ میں صورتحال بے قابو ہونے کی صورت میں اگر وزیراعظم نے اپنے پارٹی رہنمائوں کو وزیر داخلہ کا ساتھ دینے کی اجازت دی تو صورتحال واقعی قابو سے باہر ہو جائے گی۔ لہٰذا قومی اسمبلی اجلاس میں تاخیر کا امکان ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی نے اگر کشیدگی کو ہوا دینا چاہی تو سینیٹ کا اجلاس اس سے قبل طلب کیا جاسکتا ہے جہاں اپوزیشن اکثریت میں ہے۔اب یہ وزیراعظم اور چوہدری نثار کے درمیان ملاقات میں جو کچھ طے ہوا، اس پر منحصر ہے۔ وزیر داخلہ بھی سنجیدہ موڈ میں ہیں اور وہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں کچھ اہم ریکارڈ پیش کریں گے کہ کس طرح سے سابق وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے خطیب لال مسجد مولانا عبدالعزیز کو سہولتیں دیں اورتحفظ فراہم کیا۔ مولانا عبدالعزیز کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر چوہدری نثار کو شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ دوسری طرف وزیر کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ یہ بات ریکارڈ پر لائیں گے کہ کس طرح سے سابق وزیر داخلہ نے خطیب لال مسجد کو سہولتیں بہم پہنچائیں۔ ان کو واپس لائے اور کم از کم دو درجن مقدمات میں کمزور استغاثہ کے ذریعہ ان کی بریت کو ممکن بنایا گیا۔ یہ کوئی آسان کیفیت نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کو اپنی حدود کا علم ہے اور وہ نظام کو پٹڑی سے اترنے دینا نہیں چاہیں گے۔