پرویز قمر
پاکستان کا شمار ان خوبصورت ترین ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں کے دریا، چشمے، نہریں، آبشار، جنگلات، وادیاں، سمندر، صحرا، بلند و بالا پہاڑ، تہذیب، ثقافت اور آثار قدیمہ اپنی مثال آپ ہیں۔ دنیابھر سے کثیر تعداد میں سیاح ہر سال ان قدرتی مناظر کو دیکھنے،تہذیب ثقافت، آثار قدیمہ سے روشناس ہونے جوق در جوق چلے آتے ہیں۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات اپنے بے پناہ قدرتی حسن اور خوبصورت وادیوں کی وجہ سے منفرد مقام رکھتے ہیں،یہاں بلند و بالا پہاڑ اور ان پر لگے قیمتی جنگلات کثیر زرمبادلہ کا ذریعہ ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا قدرتی چلغوزے کا جنگل بلوچستان کے ضلع ژوب میں موجود ہے۔ اسی طرح زیارت بلوچستان میں قدیم صنوبر کے جنگلات اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ پاکستان کی شان بڑھارہے ہیں۔ ان جنگلات میں ساڑھے 5000 سال پرانے درخت بھی پائے جاتے ہیں،جو تمام دنیا میں سب سے پرانے صنوبر کے درخت ہیں۔
پاکستان کے کوہ ہندوکش، کوہ ہمالیہ اور کوہ قراقرم کے پہاڑی سلسلے دنیا میں سب سے زیادہ بلند و بالا پہاڑی سلسلے تصورکئے جاتے ہیں ،جس میں زیادہ تر گلگت بلتستان میںہیں، اسی وجہ سے گلگت بلتستان کو پہاڑوں کا دیش بھی کہا جاتا ہے، اس کے درمیان سے گزرنے والی شاہراہ قراقرم کو پہاڑی سلسلے قراقرم سے ہی یہ نام ملا، یعنی کالا پہاڑ۔ان بلند و بالا پہاڑوں میں بے پناہ معدنی ذخائر، قیمتی جڑی بوٹیاں اور جنگلات کے ذخیرے موجود ہیں، جن سے بیش بہا قیمتی لکڑیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔
کوہ پیمائی کےلیے یہ علاقےدنیا بھر میں جنت تصور کئے جاتے ہیں، خاص کر موسم سرما میں بڑی تعداد میں کوہ پیما ملک و بیرون ملکوں سے بالخصوص جوق در جوق کھنچے چلے آتے ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ K-2 پاکستان کے گلگت بلتستان میں واقع ہے، جو کوہ پیمائوں کےلیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ K-2 کو سر کرنا دنیاکی بلند ترین چوٹی مائونٹ ایورسٹ کو سر کرنے سے زیادہ مشکل ترین تصور کیاجاتا ہے۔
دنیا کا نواں اور پاکستان کا دوسرا بلند ترین پہاڑ نانگا پربت گلگت بلتستان کے ضلع استور میں اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑاہے ،جس کو حرف عام میں کلر مائونٹین بھی کہا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی مشکلوں سے یہ پہاڑ 1953 میں جرمن کوہ پیمائوں کی ٹیم نے سر کیا۔ اس سے پہلے کئی ٹیمیں آئیںاور ناکام ہوکر واپس لوٹیں اور کئی لوگ اس دوران جان کی بازی ہارگئے۔
دنیا کے ٹاپ ٹین گلیشیئر میں سے 5 گلیشیئر پاکستان کےاسی علاقے میں واقع ہیں، جو پاکستان میں پانی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔انہی پہاڑی سلسلوں میں شاہراہ قراقرم اپنی آن بان اور شان کے ساتھ بل کھاتا ہوا مزید آگے کو بڑھتا جاتا ہے، جو پاک چین دوستی کی عظیم مثال ہے۔یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس بل کھاتے روڈ سے ان عظیم پہاڑوں کا منظر بڑا دلکش و دلفریب نظاہرہ پیش کرتا ہے۔ سیاح دنیا بھر سے ان دلکش نظاروں کو دیکھنے بڑی تعداد میں امڈ آتے ہیں۔
یہ ہر پاکستانی کی خوش قسمتی ہے کہ دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے ہمارے ملک میـں ہیں، جن کو کوہ قراقرم، کوہ ہندوکش اور کوہ ہمالیہ کے نام سے لوگ جانتے ہیں۔جب گلگت بلتستان میں یہ تینوں پہاڑی سلسلے آپس میں ملتے ہیں تو سحرانگیز منظرہوتا ہے اور ساری دنیا میں یکتا نظر آتا ہے،جو سیاحوں کی آنکھوں کو خیرہ کردینے کےلیے کافی ہے۔
جب ناران سے ہوتے بابوسر ٹاپ سےگزریں تو دنیا کے بلند و بالا پہاڑی سلسلے اپنے برف پوش چوٹیوں کی وجہ سے ایک منفرد منظر پیش کرتے ہیں۔ ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ پاکستان و افغانستان کی سرحدوں کے درمیان واقع ہے، جو سلسلہ قراقرم اور کوہ پامیر کے مغرب کی جانب پھیلا ہوا ہے۔اس سلسلے کی بلند ترین چوٹیاں ضلع چترال میں ترچ میر، نوشاق، استور نال ہیں۔ ترچ میر نامی حسین پہاڑ کوہ ہندوکش کے سلسلے کا بلند ترین پہاڑ ہے۔ اس کا نام دو الفاظ ترچ اور میر کا مرکب ہے۔ترچ کا مطلب ہے، اندھیرا یا گھنا سایہ اور میر کا مطلب ہے بادشاہ، یعنی اندھیروں کا بادشاہ۔ چترال سلسلہ ہندوکش کا سب سے بلند علاقہ تصور کیاجاتا ہے۔
بلند چوٹیاں لاتعداد درے اور بڑے بڑے گلیشیئر اس علاقے کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔پاکستان کا سوئٹزرلینڈ سوات اسی سلسلے کا حصہ ہے۔کوہ پامیر پہاڑوں کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ چین میں اسے کونگ لنگ یعنی پیاز کا پہاڑ کہتے ہیں۔ کرغیزستان، چین، افغانستان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں واقع یہ سلسلہ کوہ پامیر، ہندوکش، قراقرم اور ٹیاں شان کے ملاپ سے بنا۔
کوہ سلیمان بلوچستان سے سطح سمندر سے 3487 میٹر بلند ہے۔پاکستان میں یہ پہاڑی سلسلہ پنجاب اور بلوچستان کی سرحد پر ہے۔کوہ نمک پنجاب کے شمالی حصے میں دریائے جہلم سے دریائے سندھ تک پھیلا یہ سلسلہ اپنی کانوں کےلیےمشہور ہے،یہاں موجود بڑی کانوں میں کھیوڑہ، کالاباغ، مایووارچا شامل ہیں، جن سے بڑی مقدار میں نمک اور کچھ مقدار میں درمیانے درجے کا کوئلہ بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ کھیوڑہ دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان ہے۔ اس سلسلے کی بلند ترین چوٹی سیکسر سطح سمندر سے 1522 میٹر بلند ہے، چوٹی سے میانوالی، خوشاب، چکوال، سرگودھا اور جہلم کا نظارہ مسحور کردیتا ہے۔
کوہ کیرتھر، جنوبی پاکستان میں واقع یہ سلسلہ سندھ اور بلوچستان میں 190 میل پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ سلسلہ سندھ (دادو) اور بلوچستان (خضدار) کی صوبائی سرحدیں بناتا ہے۔ سطح سمندرسے 1200 میٹر بلندی پر ہے۔کیرتھر کی سب سے اونچی گورکھ ہل اسٹیشن سطح سمندر سے تقریباً 5000 فٹ بلند اور اسے سندھ کا مری بھی کہا جاتا ہے۔ موسم سرما میں یہاں خوب برفباری ہوتی ہے۔جب بابوسر ٹاپ سے چلاس پہنچیں تو خشک اور بیابان پہاڑیاں خوش آمدید کہتی نظرآتی ہیں۔ چلاس سے گلگت تک پہاری سلسلے اپنی بیش بہا قیمتی جڑی بوٹیوں کی وجہ سے مشہور ہیں، جن میں سب سے زیادہ اہم سلاجیت ہے، جو یہاںوافر مقدار میں موجود ہے اور اسےبرآمد بھی کیا جاتا ہے۔
راکاپوشی، نگر میں واقع ہے، جو نگر کی شان تصورکی جاتی ہے۔ نگر اور ہنزہ کے درمیان بہنے والا دریائے ہنزہ اس کی خوبصورتی اور شان کو چار چاند لگاتا ہوا نظر آتا ہے۔ہنزہ میں جب بلشت قلعہ پہنچتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے آپ پہاڑوں کے مسکن میں پہنچ گئے ہوں، چاروں طرف بلند و بالا برف پوش آسمانوں سے باتیںکرتا پہاڑی سلسلہ ہے، جوپوری دنیا میں اس خطے کو دوسرے علاقوں سے منفرد کرتا ہے۔
ہنزہ سے آپ راکاپوشی، گولڈن پیک، دیراں پیک، سران پیک، لیڈی فنگر جیسی چوٹی کا نظارہ کرسکتے ہیں، جن پرہرسو برف نظرآتی ہے اور بادلوں کے غول در غول اس سے باتیں کرتے، کچھ دیر اس سےگلے ملنے کے بعد آگے بڑھتے جاتے ہیں۔
الغرض پاکستان کے یہ پہاڑی سلسلے پاکستان کی پہچان اور ساری دنیا میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ یہ کوہ پیمائوں کےلیے جنت ہیں، اگر ان کےلیےآسانی فراہم کی جائے، امن و امان کی صورتحال بہتر کی جائے تو یقیناً زیادہ سے زیادہ سیاح اور کوہ پیما پاکستان کا رخ کریں گے، جن سے مقامی لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا ۔