(اسابینیٹ)
رواں ہفتے یہ پہلا موقع ہوگا کہ یورپی یونین میں رہنےکے حامی چاہتےہیں کہ لوگ نائیجل فریج کی بات پر غور کریں جبکہ بریگزٹ کے حمایتی آخری دم تک ڈرامائی اندارز میں اپنی جنگ لڑنےکے خواہشمند ہیں۔یورپی یونین سے انخلاء کے حامی اس امید کیساتھ آخری ڈرامائی جنگ لڑنے کیلئے بھی تیار ہیں کہ وہ اپنے مخالفین کو خاموش کرادیں گے جن کی شکایات غیر اہم ہیں۔ اسی وجہ سے وہ انتہائی پرجوش ہیں ۔
سابق برٹش لیبر پارٹی کے سیاست دان لارڈ ایڈونس نے کہا کہ’’ ایسا ہونے دیں‘‘ جبکہ برطانوی سیاست دان سر نک کلیگ نے ازراہِ مذاق کہا کہ ’’میں نائیجل فریج کی بات سے متفق ہوں۔‘‘ ہوسکتا ہے کہ سابق برطانوی انڈیپینڈنٹ پارٹی کے سربراہ نائیجل فریج دوبارہریفرنڈم کیلئے تیار ہوں گے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں انہوں نے برطانیہ کا پورپی یونین سےانخلا کے حامی اور مخالفین کے درمیان دوبارہ کوئی مقابلہ شروع کردیا ہے اور نہ ایسا ہونا چاہیے۔
2016میںریفرنڈم کا فیصلہ کوئی اچانک نہیں کیا گیا تھا۔ برطانوی عوام کئی برسوں سے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کا مطالبہ کررہے تھے۔ سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس چیز کو محسوس کرتے ہوئے اپنےردعمل کا اظہار کیا۔ جیسے کہ ان کے سابق اسپن کے سربراہ سر کریگ اولیورنے لکھا کہ ’’یورپی یونین سے برطانیہ کی رکنیت ختم کرنے کا فیصلہ ایسا تھا کہ جیسے ایک نسل کیلئے بہت ہی سست ٹرین اسٹیشن پر آرہی ہے اور یہ ٹرین اب ان کی گھڑی کے مطابق اسٹیشن پر پہنچ رہی ہے۔
ڈیوڈ کیمرون نے کیتھام ہاؤس میں برطانوی عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ ایک نسل کے انتخاب کے لیے ایک بار ہی فیصلہ کیا جائے گا۔ ‘‘جب برطانونی عوام اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں گے تو ان کی اس خواہش کو نظر انداز نہیں بلکہ ان کااحترام کیا جائے گا۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ اگر ہم یورپی یونین سے انخلا کیلئے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے تو ہم علیحدہ ہوجائیں گے۔ اس کے بعد دوبارہ مذاکرات اور دوسرا ریفرنڈم کاانعقاد نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے ان لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو بریگزٹ معاملے کے حوالے سے غیر سنجیدہ ہیں،’’ اس بارے میں بہت ہی محتاط انداز سے غور و فکر کریں کیونکہ اس فیصلے کو بعد میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
وقت کی سوئی تیزی سے چلتی رہی ، گزشتہ مہینوں میں یورپی یونین سے برطانیہ کی رکنیت کے خاتمے کےلیے قانون کے آرٹیکل 50 کو پیش کیا گیا۔ اس حوالے سے ووٹرز کو اعتماد میں لیا گیا جن کی بڑی تعداد نے باربار رائے شماری کے ذریعےیہ واضح کردیا کہ وہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی چاہتے ہیں۔
دوسری جانب مخالفین ایسا نہ ہونے کے خواہش مند ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ یہی ہوگا۔ گینا ملر کی جانب سے پولنگ کا انعقاد کیا گیا۔ انٹرنیشنل انٹرنیٹ مبنی مارکیٹ ریسرچ اور ڈیٹا اینالیٹکل فرم یو گو نے ’’بیٹ فار بریٹین‘‘ کےلیے مہم چلائی اور یوگو کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق53 فیصد عوام، جو یورپی یونین سے برطانیہ کا انخلا چاہتے ہیں، اس فیصلے کو نافذ کیا گیا جبکہ صرف 18 فیصد دوبارہریفرنڈم کروانے کے حق میں ہیں۔
عوام نے برطانیہ کایورپی یونین کے ساتھ تعلقات کے مستقبل کے بارے میں اپنا ذہن بنالیا ہے۔اگر سیاست دان یورپی یونین کے ساتھ رہنے یا انخلاء کے لیے دوبارہریفرنڈم کےلیے اصرار کریں تو، جس کے امکانات کم ہی ہیں،تو سیاسی جماعت پر سے ووٹرکا اعتمادمزید کمزور ہوجائے گا ۔
دوسرا ریفرنڈم مسٹر فریج جیسے برطانیہ سے یورپی یونین کے انخلاء کے حامیوں کو یہ موقع فراہم کرسکتاہے کہ وہ یورپی یونین میں رہنے کے خواہشمندوں کو مزید بری شکست سے دوچار کریں، تاہم یہی معاملہ برطانیہ سے یورپی یونین کے انخلاء کے حامیوں کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے۔
اگر ممکنہ فتح بھی یورپی یونین میں رہنے کے حامیوں کو خاموش نہ کرسکی تو ایسی صورت میں پھر کیا ہوگا؟ ہم جانتے ہیں کہ ٹونی بلیئر تیسری مرتبہ ووٹ کیلئے بھی تیار ہیں۔ اگر ان کی شکایت دوسرے ریفرنڈم میں بھی دور نہ ہوئی تو وہ کیونکر مشکلات پیدا نہیں کریں گے اگر معاملات ان کے مطابق نہ ہوئے؟
سب سے بڑا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اگر مخالفین کامیاب ہوگئے توکیا ہوگا لیکن دوسرے ریفرنڈم کروانے سےیقیناً مذاکراتی عمل کو بہت زیادہ نقصان ہوگا۔اگر مائیکل برنئیر یہ جانتے ہوں کہ ایک برے معاہدے کے زریعے برطانیہ یورپی یونین سے نکل سکتا ہے تو وہ کونسا قدم اٹھانے پر راضی ہوسکتے ہیں، اور یورپی اتحاد میں رہنے کا ہی فیصلہ کرسکتے ہیں؟
ممکنہ انخلا کی مدت میں کئی ماہ وقت ضائع کرنے کے بعد یورپی یونین کوان کے مشکلات کی قیمت چکائے بغیریورپی اتحاد برطانوی عوام کوخوش آمدید نہیں کہیں گے۔ اس فہرست میں سب سے زیادہ اوپرویورپی یونین کے سینئر حکام ہوں گے جو برطانیہ سے مطالبہ کریں گے کہ وہ اس کی قیمت چکائے جس کا برطانیہ نے بحیثیت رکن فائدہ اٹھایا ہے ۔
اگر سیاست دان بریگزٹ کےلیے عوامی مینڈیٹ کے بارے میں لڑنا جھگڑنا چاہتے تھے ان کوقانون کے آرٹیکل 50 کی منظوری سے قبل ایسا کردینا چاہیے تھا۔ جیسے کہ میں پہلےبھی اس حوالے سے لکھ چکا ہوں کہ،اس وقت واقعی ایک بامقصد حق رائے دہی کا استعمال کیا جاسکتاہے ۔
بریگز ٹ کے حمایتی، برطانوی عوام کو دوسرے ریفرنڈم کروانے سےسے روکنے کا خواب دیکھ رہے ہیںلیکن وہ لوگ بہت لیٹ ہوگئے برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا کے لئے برسلز میں تیاریاں شروع ہوچکیں ہیں جوبریگزٹ کی حمایت کرنے والوں کو کسی نہ کسی طرح بہکانے پر مجبور کررہی ہے۔
جس طرح کیمبرج کے پروفیسر کینتھ آرم اسٹرانگ نے واضاحت کی کہ کیسے مخالف مہم کی ساکھ برطانوی عوام کو برطانیہ کی صلاحیت کو بڑھانےکے لئے قائل کی کوشش کرسکتی ہے جو دوسرے یورپی حکومتوں کو اپنے ساتھ مصروف رکھتی ہیں۔ ان ممالک کے سربراہان نے باضابطہ طورپر 27یورپی یونینمیں بحیثیت ان کے اتحادی بننے کا اعلان کیا تھا لیکن انہوں نے بریگزٹ کےلیے کسی معاہدے کی تیاری نہیں کی؟ کیسے برطانوی حکومت برطانوی حکومت اپنے اصلاحات اور تبدیلی کے وعدے سے کیسے پھر سکتی ہے جو باضابطہ طور پر برطانیہ سے انخلا کےلئے اقدامات کئے جاچکے ہیں۔
برطانیہ کی یورپی یونین سے انخلا ایک طویل بحث بن چکی ہے اور درست طریقےسے اس کو کہیں زیادہ اہمیت بھی ملی ہے ہے لیکن جو لوگ دوبارہ 2016کے ریفرینڈم کروانے کےلیے ضرور ڈال رہے ہیں ان کو وقت کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
برطانوی عوام نےبرطانیہ کو یورپین یونین سےانخلا کے لیےسادہ سی ہدایت کےساتھ اپنے سیاسی نمائندہ گان کو بھیجاتھا۔ سیاست دان اپنے تمام ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا کرسکتے ہیں۔ ابھی دراصل یہ موضوع زیر بحث ہے کہ کس مقصد کے لیے یورپی یونین سے انخلا کیا جائے لیکن عوام کی خواہش کے مطابق تجاویز دینا جن کو اب تک معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کس لئےاتنا بڑا خطرہ مول لینا چاہتے تھے۔
برطانیہ کے مذاکرات کرنےوالوں نے گزشتہ ماہ ملک کی یورپی یونین سے انخلا کی شرائط پر رضامند ظاہر کی تھی اوراب مستقبل کے لیے اپنی توجہ مرکوز کردیں ہیں۔ مہم چلانے والوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے ۔
جب ٹرین سست رفتاری سے اسٹیشن پر پہنچی تو برطانوی عوام کواپنے اپنے ہی راستے پر چل پڑے ۔ مسافر یک بار پھر اپنے راستوں کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس کو روکنے کا خطرہ مول لیں گے جولوگ ایک دوسری لڑائی کے لیے اکسارہے ہیں ان کوآگے کی طرف دیکھنا چاہئے کہ یہ سلسلہ کہاں ختم ہوتا ہے۔