• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سنڈے اسپیشل: نانک واڑے کی مائیاں

عکّا سی:اسرائیل انصاری

پارک سے متصل فُٹ پاتھ پر کپڑے کے ایک درجن سے زاید سائبان نصب ہیں، جو بہ مشکل ہی سَرد و گرم ہوا کے تھپیڑوں اور بارش کے سامنے مزاحمت کر پاتے ہوں گے۔

ان کے نیچے کم و بیش 30افراد بیٹھے ہیں، جن میں20سے لے کر70برس تک کی خواتین کی اکثریت ہے، جنہیں کراچی کے مشہور جوڑیا بازار کی اجناس منڈی میں’’مائیاں‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔

ان کے کپڑے پَھٹے پُرانے، پیوند زدہ ہیں،تو چہرے پریشان حال اور سَر گرد سے اَٹے ہوئے۔ ہر ایک سائباں تلے اور سامنے سڑک پر بھی چاول، دال، چنے اور باجرے سمیت دیگر اجناس سے بَھری بوریاں یا ان کی ڈھیریاں موجود ہیں۔

یہ مائیاں گوداموں اور دُکانوں میں اجناس کی ترسیل کے دوران، بوریوں سے زمین پہ گرنے والے اناج کے دانوں کو چھلنی کی مدد سے صاف کر کے زمین پر بچھی چادر میں ڈالتی ہیں، جنہیں’’ مِکس دانہ‘‘ یا’’ کبوتر دانہ‘‘ کہا جاتا ہے ، جس میں مختلف اقسام کی دالیں، لوبیا،چنے،گندم اور چاول سمیت دوسری اجناس شامل ہوتی ہیں۔ یہ دانہ کبوتر اور دوسرے جانور ہی خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

اس دانے کے علاوہ یہ مائیاں اجناس منڈی سے الگ سے مٹر کی دال، لال چاول اور باجرا بھی خرید کر لاتی ہیں، جنہیں کبوتر دانے میں شامل کر کے فروخت کیا جاتا ہے، جب کہ بعض نے اپنے سامنےصاف ستھرے چاولوں ،دالوں اور چنے کی ڈھیریاں بھی سجا رکھی ہیں، جنہیں عموماً غریب افراد اپنی خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

یہ غریب عورتیں زیادہ تر اپنے ارد گرد سے بے نیاز، چھوٹی، بڑی چھلنیوں کے ذریعے ترسیل کے دوران زمین پر گرنے والی اجناس کو صاف کرنے میں مصروف رہتی ہیں اور ساتھ ہی گاہکوں کی منتظر بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی کوئی فرد ان کے پاس سے گزرتا ہے، تو یہ بے ساختہ ’’ کیا لینا ہے بھائی، کیا لینا ہے مائی‘‘ پکارنے لگتی ہیں۔

سنڈے اسپیشل: نانک واڑے کی مائیاں

یہ منظر صدر ٹائون کے قدیم علاقے، نانک واڑہ کی حاجی حنیف بلو اسٹریٹ کا ہے، جہاں جامعہ دارالعلوم کراچی کے سامنے واقع، خواجہ ناظم الدّین پارک کی فُٹ پاتھ سے درجنوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔

اجناس صاف کرنے والی یہ خواتین سردی، گرمی اور مینہ کی پروا کیے بغیر روزانہ صبح سویرے اپنے گھروں سے نکلتی ہیں اور جوڑیا بازار کی اجناس منڈی میں زمین پرگرنے والی اجناس جمع کرتی رہتی ہیں اور پھر انہیں دِن ڈھلنے تک فروخت کرتی ہیں۔

سروے کے دوران جب ہم نے یہاں موجود مَردو خواتین کے حالاتِ زندگی جاننے کے لیے اُن سے بات چیت کی کوشش کی، تو زیادہ تر نے ہمارے سوالات کے جواب دینے سے انکار کر دیا ۔ تاہم، خاصی دِقّت کے بعد بعض افراد گفتگو پر آمادہ ہوئے۔

لیاری کے علاقے، میراں ناکہ سے تعلق رکھنے والی 50سالہ کوثر نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے بتایا کہ ’’ مَیں نہایت مجبوری کے عالم میں یہ کام کر رہی ہوں۔

دو چھوٹی بہنیں بھی یہیں بیٹھی ہیں۔ ہم تینوں ہی بہت زیادہ دُکھی ہیں۔ سب سے چھوٹی کے گُردے ناکارہ ہو چُکے ہیں۔ ہفتے میں دوبار اُس کا ڈائیلاسز ہوتا ہے اوروہ اپنی دوائوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے یہ کام کرتی ہے۔ بیماری کے بعد شوہر نے اُسے طلاق دے دی۔ دوسری بہن غیر شادی شُدہ ہے۔

وہ بھی بیمار ہے اور اس کی ساری کمائی بھی دوا دارو ہی پر خرچ ہو جاتی ہے۔ مَیں خود بیوہ ہوں۔ تقریباً 35سال پہلے شوہر کا انتقال ہوا۔ خاوند کی موت کے بعد کچھ عرصہ گھروں میں کام کاج کر کے اپنا اور بچّوں کا پیٹ پالنے کی کوشش کی، لیکن جب گزارا مشکل ہو گیا، تو چند برس بعد اجناس صاف کرنے کا کام شروع کر دیا۔

اس کام سے ہونے والی کمائی ہی سے ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کی پرورش اور شادی کی۔مَیں نے ہمیشہ خود ہی ساری تکلیفیں برداشت کیں، کبھی اپنی بچّیوں کو گھر سے نکلنے نہیں دیا۔‘‘

ابھی کوثر اتنا ہی بتا پائی تھیں کہ ان کے سامنے ایک گاہک آکھڑا ہوا۔ اس سے بھائو تائو کے بعد وہ ایک بار پھر ہماری طرف متوجّہ ہوئیںاور اپنی بائیں ٹانگ کی جانب، جس پر سرجری کے نشانات نمایاں تھے، اشارہ کر کے کہنے لگیںکہ’’ مُجھے کام کے دوران ہی حادثہ پیش آیا تھا، جس کے نتیجے میں ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور ڈاکٹر نے اس کی جگہ راڈ لگا دی ۔

آپریشن کے بعداب پہلے جیسی ہمّت نہیں رہی، اکثر ٹانگ میں تکلیف رہتی ہے۔ حادثے کے بعد کئی ماہ تک کام نہ کر سکی، تو گھر میں فاقے ہونے لگے ، کئی ماہ سے بجلی کا بل بھی نہیں بَھر سکی ہوں۔ اوروں کی طرح تم سے بھی درخواست کرتی ہوں کہ اگر اور کچھ نہیں کر سکتے، تو کم ازکم میرا یہ بل ہی معاف کروا دو۔‘‘

یہ کہہ کر وہ ہماری طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے لگیں، تو ہم نے یہ کہہ کر تسلّی دی کہ ’’یہ رپورٹ شایع ہونے کے بعد یقیناً مخیّر افراد آپ کی مالی معاونت کریں گے۔‘‘

جب ہم نے یہ پوچھا کہ وہ صبح سے شام تک کتنے روپے کمانے میں کام یاب ہو جاتی ہیں، تو کوثر نے بتایا کہ’’اجناس مارکیٹ کے اکثر دُکان دار ترسیل کے دوران بوری سے زمین پر گر جانے والی اجناس جھاڑو کے ذریعے اکٹھی کر کے بوریوں میں جمع کر لیتے ہیں اور ہم یہ بوریاں خریدنے کے لیے روزانہ کم و بیش ایک سو سے زاید دُکانوں کے چکر لگاتی ہیں۔

ایک بوری میں تقریباً 50کلو مال ہوتا ہے، جس میں مٹی سمیت دوسرا کچرا بھی شامل ہوتا ہے۔ گری ہوئی اجناس پر مشتمل بوری ہمیں 1000روپے میں ملتی ہے۔ یعنی 20روپے فی کلو، جنہیں ہم تین مختلف چھلنیوں سے گزارکر صاف کرنے کے بعد 25روپے فی کلو میں فروخت کرتے ہیں۔

مَیں روزانہ عموماً دو سے تین بوریاں خرید کر لاتی ہوں اور اگر سارا مال اندھیرا چھاجانےسے پہلے فروخت ہو جائے، تو 600سے 800روپے تک کی بچت ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم لال چاول، باجرا اور مٹر کی دال الگ سے خریدتے ہیں اور انہیں بھی صاف کی گئی اجناس میں شامل کر کے 40سے 45روپے کلو میں فروخت ہوتے ہیں۔ یہ اجناس زیادہ تر مختلف چوراہوں کے قریب کھڑے’’ کبوتر دانہ‘‘ فروخت کرنے والے افراد یا کبوتر اور جانوروں کو خوراک دینے والے افراد خریدلیتے ہیں۔ ‘‘

ایک سوال کے جواب میں کوثر کا کہنا تھا کہ انہیں یہاں پولیس تنگ کرتی ہے اور نہ کے ایم سی کا عملہ، بلکہ اکثر افراد تعاون ہی کرتے ہیں۔

کوثر کے بائیں جانب ایک عُمر رسیدہ خاتون اپنے سامنے باجرے کی ڈھیری لگائے بیٹھی تھیں اور ساتھ ہی باجرے کی ایک بوری بھی موجود تھی۔ ہم نے اپنا مدّعا بیان کیا، تو کہنے لگیں کہ’’ بیٹا! میرا نام سورن بائی ہے۔ مسلمان نہیں، ہندو ہوں۔

عُمر میری 70سال سے زیادہ ہے۔ دہائیوں سے لی مارکیٹ میں رہتی ہوں۔ یہ ہمارا جدّی پُشتی پیشہ ہے۔ میری نانی، دادی اور ماں بھی یہی کام کیا کرتی تھیں۔ صبح منڈی سے 1700روپے کی باجرے کی بوری خرید کر لائی ہوں۔ 40روپے کلو بیچتی ہوں ، اب تک 400روپے کا باجرا فروخت کر چُکی ہوں۔‘‘ جب ہم نے سورن بائی سے پوچھا کہ وہ اس ضعیف العمری میں بھی یہ سخت کام کیوں کررہی ہیں، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’میرے سارے بیٹے برسرِ روزگار ہیں۔

بیٹیاں بھی اپنے گھروں میں خوش ہیں، لیکن وہ کیا ہے ناں کہ ہمارے ہاں عورتیں بھی کام کرتی ہیں۔ مُجھے کمانے کی کوئی حاجت نہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہر بیٹا 12،15ہزار روپے کما لیتاہےاور شوہر کی کمائی الگ ہے۔ مُجھے پیسوں کی ضرورت نہیں، مگر بیٹیوں کے گھر خالی ہاتھ جانا بھی اچّھا نہیں لگتا۔

مَیں پہلے ایک ہندو سیٹھ کی دُکان پر کام کرتی تھی اور اب اُسی سے صبح باجرے کی ایک بوری لے آتی ہوں، جو شام تک فروخت ہو جاتی ہے اور دو، چار پیسے بچ بھی جاتے ہیں۔‘‘ کچھ توقّف کے بعد خود ہی کہنے لگیں کہ ’’ لوگ، پاکستان کو خواہ مخوا ہی بُرا بھلا کہتے ہیں۔ ہم تو یہاں بہت سُکھی ہیں ، حکومت بھی بہت اچّھی ہے اور ہمیں کسی سے کوئی شکایت بھی نہیں۔‘‘

کوثر سے کچھ فاصلے پر ان کی جوان بہن، فرزانہ بیٹھی چھلنی سے چاول چھان رہی تھی۔ اس کا چہرہ اور بال دُھول میں اَٹے ہوئے تھے۔ ڈائیلاسزکروانے کی وجہ سے فرزانہ کے بازو میں فیسٹولا نصب تھا، جس کے سبب اس کی ہیئت بگڑ گئی تھی اور بازو دیکھ کر ہی جسم میں جھرجھری سی دوڑ گئی، مگر وہ ایسے ہلکورے لینے میں مصروف تھی کہ جیسے اُسے کوئی تکلیف ہی نہ ہو۔ ہمارے استفسار پر بتایا کہ’’ میری عُمر 32سال ہے۔

بہن کے ساتھ میراں ناکہ میں رہتی ہوں۔ شادی کے کچھ ہی عرصے بعد شوہر نے طلاق دے دی۔ کوئی اولاد نہیں ہے۔ ماں فوت ہو چُکی ہے اور باپ گائوں میں رہتا ہے۔ دونوں گُردے ناکارہ ہو چُکے ہیں۔ ہفتے میں دو بار ڈائیلاسز ہوتا ہے، جو زندگی بَھر جاری رہے گا۔ اسپتال والے ڈائیلاسز تو مُفت کرتے ہیں، لیکن کبھی کبھار ڈونر لانے کا بھی کہتے ہیں۔ روزانہ 300سے400روپے کی بچت ہو جاتی ہے، جس سے دوائیں اور کھانے پینے کا سامان خریدتی ہوں۔ اس کے علاوہ بعض اوقات لوگ 1000،500روپے، دوائیں اور خون کی تھیلیاں بھی عطیہ کر دیتے ہیں۔ کچھ دیر پہلے ہی ایک شخص رکشے پر چاول کی بوری لے کر آیا۔ وہی چھان رہی ہوں۔ 130کلو چاول ہیں۔ دو چھلنیاں لگیں گی کہ کچرا بہت ہے اور اس کے بدلے 400روپے ملیں گے۔‘‘

ہم سے گفتگو کے دوران بھی فرزانہ مسلسل چاول چھاننے میں مصروف رہی اور ایک بار بھی اپنے ہاتھوں کو رُکنے نہ دیا۔ غالباً اُسے اچّھی طرح اندازہ تھا کہ جب تک اس کے ہاتھ حرکت کرتے رہیں گے، سانسوں کی روانی بھی برقرار رہے گی۔ فرزانہ کے سامنے دال کی بوری بھی رکھی تھی۔ ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ’’ یہ مٹر کی دال ہے۔ 2300روپے کی بوری ہے اور لوگ کبوتروں اور جانوروں کی خوراک کے لیے خرید کر لے جاتے ہیں۔

ایک سو روپے رکشے والا لے لیتا ہے اور پوری بوری بیچنے کے بعد ہی چند سو روپے بچتے ہیں۔ صبح سے لے کر رات تک محنت کرتی ہوں۔ ڈاکٹر نے اس دُھول مٹی والے کام سے منع کیا ہے، مگر کیا کروں، اس کے بغیر گزارہ بھی تو نہیں ہوتا۔ رات کو پورے جسم سے ٹیسیں اُٹھ رہی ہوتی ہیں اور روزانہ درد کُش دوائیں لے کر سوتی ہوں۔‘‘ایک سوال کے جواب میں فرزانہ کا کہنا تھا کہ’’ ہمارا ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ بعض ستاتے بھی ہیں، لیکن مجبوراً انہیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ البتہ پولیس نے کبھی تنگ نہیں کیا اور کے ایم سی کا عملہ بھی ہمیں یہاں سے نہیں ہٹاتا، لیکن اگر کسی بڑے افسر نے دورے پر آنا ہو، تو ہماری بوریاں سڑک سے ہٹوا دیتے ہیں۔‘‘

خواتین کے علاوہ مَرد بھی گری ہوئی اجناس صاف کر کے انہیں فروخت کرنے کا کام کرتے ہیں۔ یہاں موجود بیش تر مَردوں نے تو ہمارے کسی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا، البتہ کام میں مصروف محمد اصغر نے بتایا کہ ’’ مَیں پنجاب سے آیا ہوں۔ پہلے ہم سٹی کورٹ کے پاس بیٹھا کرتے تھے، لیکن وہاں سے وکلا نے یہ کہہ کر ہٹوا دیا کہ ہماری وجہ سے گندگی پھیلتی ہے۔ اب گزشتہ 12برس سے ہم یہاں بیٹھتے ہیں۔ مَیں صبح سویرے اجناس منڈی سے گری ہوئی اجناس کی بوریاں لے کر آتا ہوں۔

20سے 25روپے فی کلو مال ملتا ہے، جسے تین مرتبہ صاف کرنے کے بعد 25سے30روپے کلو میں فروخت کرتا ہوں اور یوں دن بَھرمیں400سے 500روپے کی بچت ہو جاتی ہے۔ یہ مکس دانہ پرندوں اور جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ‘‘ ایک سوال کے جواب میں اصغر کا کہنا تھا کہ ’’ مُجھے اچّھی طرح معلوم ہے کہ صفائی کے دوران اُڑنے والا گرد و غبار میری صحت کے لیے نقصان دہ ہے، لیکن پیٹ کی خاطر یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔‘‘

جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ’’ مکس دانہ‘‘ کبوتروں اور جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ سو، اسے فروخت کرنے والے شہر کے اکثر چوراہوں پر کھڑے دِکھائی دیتے ہیں، جو گری ہوئی اجناس صاف کر کے تیار کیے گئے مکس دانے میں، جس میں عموماً سفید و لال چاول، لوبیااور گندم وغیرہ شامل ہوتی ہے، مٹر کی دال، باجرا اور گندم ڈال کر فروخت کرتے ہیں۔

اس بارے میں ایس ایم لا کالج کے باہر موجودکبوتروں کا دانہ فروخت کرنے والے محمد رمضان نے بتایا کہ وہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اس ٹھیلے پر کھڑا ہے، جب کہ ٹھیلے کا مالک علی نامی شخص ہے، جو لیاری کے ایک گودام سے یہ ساری اجناس لاتا ہے۔ محمد رمضان کا کہنا تھا کہ وہ لال چاول 50روپے، مکس دانہ 60روپے، باجرا 40روپے اور گندم 50روپے کلو فروخت کرتا ہے اور صبح سے شام تک کم و بیش 20کلو دانہ فروخت ہو جاتا ہے۔

جب رمضان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا یہ دُرست ہے کہ کبوتر چوک پر بچ جانے والا دانہ جمع کر کے دوبارہ فروخت کیا جاتا ہے، تو اس کا کہنا تھا کہ ’’ ایسا ممکن نہیں، کیوں کہ شام ہونے سے پہلے ہی کبوتر سارا دانہ چُگ لیتے ہیں۔ مَیں روزانہ صبح سویرے لوہے کے وائپر سے چوک کی صفائی کرتا ہوں، کیوں کہ کبوتر کبھی بھی گندی جگہ پر نہیں بیٹھتے۔ اگر مَیں روزانہ چوک کی صفائی نہیں کروں گا، تو یہاں کبوتر آئیں گے اور نہ ہی دانہ فروخت ہو گا۔‘‘  

تازہ ترین