• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں پورے پختون خطے میں ایک ترانہ زبانِ زدعام ہے، یہ ترانہ وزیرستان تا اسلام آبادپختون تحفظ موومنٹ کے تحت مارچ و دھرنےکےہزاروں افراد کی سماعت کا حصہ بنا، اور پھر ایک جہاں کو مسحور کرگیا۔ اس کا مرکزی خیال کچھ یوں ہے کہ آزادی جس مقصد کے لیے حاصل کی گئی تھی، وہ مقصد ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔ یہ پشتو ترانہ ’’داسنگہ آزادی دہ ! انقلاب انقلاب‘‘ فیض صاحب کی نظم ’صبح آزادی اگست 1947‘ کا ترجمہ ہی لگتا ہے۔ یوں یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ فیض صاحب نے نصف صدی سے بھی قبل جو یہ کہا تھا۔
یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
تو آج تک اس سچائی کا اظہار مسلسل ہوتا ہی رہا ہے۔ وجہ ظاہر و باہر ہے کہ آزادی کے ثمرات عوام کو منتقل نہیں ہوسکے، بلکہ انگریز کے دورِ استبداد میں  جینے کا جو کم از کم حق تھا، وہ بھی یہاںجیسے غصب کرلیا گیا ہو۔ فیض صاحب جہاں اپنی نظم کے آخر میں صدا دیتے ہیں، چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی...تو مذکورہ پشتو ترانے میں انقلاب انقلاب کا نعرہ سنائی دیتا ہے۔ بنا بریں برسوں قبل فیض صاحب جس تبدیلی و تغیر کی ضرورت محسوس کررہے تھے، آج عوام اس ضرورت کو اور شدت سے محسوس کرنے لگے ہیں۔ بات کو واضح کرنے کے لیے آئیے فیض صاحب کی نظم ملاحظہ کرتے ہیں۔ یہ شہرئہ آفاق نظم فیض صاحب کے شاہکار ’نسخہ ہائے وفا‘ میں مرقوم ہے۔
یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں ،جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب ِسُست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم ِدل
اگے فیض صاحب کہتے ہیں(مگر).....
جگر کی آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن
کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگارِ صبا کِدھر کو گئی
ابھی چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانِی شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ ودل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
اب پشتو ترانہ کا مفہوم دیکھئے جیسے ہو بہ ہو، کو بہ کو ’صبح آزادی‘ کی پشتو تفہیم ہو۔ ’داسنگہ آزادی دہ‘ ایک سوال جو ریاست ،اہلِ نظر اور عوام کے چوکھٹ پر رکھتے ہوئے پوچھا جارہا ہے!کہ ہمارے دیس میں ہمارے ہی بچے خون سے تر ہیں، انسانی حقوق پامال اور امن کی فاختہ پنجرے میں پھڑ پھڑارہی ہے۔ زبانوں پر تالے اور صدا بہ صحرا ہے۔ کیا آزادی اسی کا نام ہے؟ ... یہ سب تاریک فیصلوں کے نتائج ہیں کہ ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک ہو چلا، کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ انقلاب کا نعرہ مستانہ بلند کیا جائے، اور نظام کہن کو انجامِ شداد و فرعون کی یاد گار بنادیا جائے‘‘۔
یار لوگوں نے الزام لگایا کہ اس ترانے میں عوام کو ریاست کے خلاف اکسایا گیا ہے۔ ایسے بقراطوں کی خدمت میں عرض ہے کہ اس میں کون سی بات ایسی کہی جارہی ہے، جو سچ نہیں! کیا سچ کہنا ریاست کے خلاف بغاوت ہے؟ جناب عالیٰ! یہ نظم تو شکوہ ہے، گلہ ہے ،نوحہ ہے ،مظلوموں کی دہائی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ہم یہاں  مہاجر بھائیوں اور بلوچ بھائیوں کا حوالے  نہیں دیتے کہ وہ ان دنوں جوشکوہ سنج ہیں۔ بڑے بھائی پنجاب کے بڑے لیڈر نواز شریف صاحب کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ جو صبح و شام کہتے ہیں کہ انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ان سے انصاف نہیں ہورہا، ان کے انسانی حقوق پامال کیے جارہےہیں۔ تو اب موجودہ مسلم لیگی حکومت کے روح رواں اور درحقیقت سب سے زیادہ عوامی مینڈیٹ رکھنے والے رہنماکا، اگر یہ حال ہے تو کیا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ ان کا کیا احوال ہوگا، جن کا ماسوائے خدائے ذوالجلال کےکوئی یارو مددگار نہیں....اور کیا اس ترانے میں کوئی ایسی اضافی بات ہے، جو میاں نواز شریف، مریم نواز صاحبہ ، محترم پرویز رشید، احسن اقبال و دیگر زعما نے نہ کہی ہو....ہاںا یک بات زائد ضرور ہے وہ یہ کہ افغانستان میں نام نہاد جہاد سے لیکر حالیہ بم دھماکوں سمیت دیگر واقعات میں ہمارے بچے قتل ہورہے ہیں ۔دعا یہ ہے کہ خدا نہ کرے کہ کل اہلِ پنجاب بھی یہ ’زائد بات‘ کہنے پر مجبور نظر آئے...بات واضح ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ جب جب کوئی اپنےحق کی اپنوں سے ’بازیابی‘ کی بات کرتا ہے تو غدار اور وطن دشمن قراردیا جاتا ہے۔فیض صاحب نے دست صبا کے ابتدایہ میں ایک جگہ لکھا ’’مجھے کہنا صرف یہ ہے کہ حیاتِ انسانی کی اجتماعی جدوجہد کا ادراک، اور اس جدوجہد میں حسب توفیق شرکت، زندگی کا تقاضا ہی نہیں فن کا بھی تقاضا ہے۔ فن اسی زندگی کا ایک جزو اور فنی جدوجہد کا ایک پہلو ہے۔ یہ تقاضا ہمیشہ قائم رہتا ہے۔اس کوشش میں کامرانی یا ناکامی تو اپنی اپنی توفیق و استطاعت پر ہے، لیکن کوشش میں مصروف رہنا بہر طور ممکن بھی ہے اور لازم بھی ....
بلاشبہ پختون خطے کے شاعر ، ادیب، گلوکار و فنکار اس فنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی یاد دہانی فیض صاحب کررہے تھے۔ اس راہ میں پشتو کے متعدد فنکار لہو رنگ بھی ہوئے اور بے وطن بھی۔ لیکن انہوں نے یہ پُر آشوب سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ مذکورہ ترانے کے شاعر و گلو کار شوکت عزیزوزیر ہیں،معروف شاعر معصوم اورمز کی معاونت جنہیں حاصل رہی۔ شاید تاریخ کے یہ ان چندایک ملی ترانوں میں شامل ہے، جنہیں مختصر وقت میں چار سو مقبول عام کی سند ملی۔ جو لوگ پشتو شناس ہیں وہ جانتے ہیں کہ جہاں یورپ، امریکا و جنوبی ایشیا میں دھرنے کی حمایت میں مظاہرے ہوئے، وہاں دیار غیر میںآباد پختونوں کے جذبے کو بھی اس ترانے نے اس طرح مہمیز دی، جس طرح پاکستان و افغانستان میں اس ترانے کے سنگ جلال و استقلال کے رنگ رقصاں رہتے تھے۔ یہ معرکہ ہنوز ختم نہیں ہوا۔ نقیب محسود شہید کے لہو کا حساب ابھی باقی ہے۔ آصف زرداری صاحب کے ایک ملزم کو بہادر بچہ قرار دینے سے حساب بے باق نہیں ہوجاتا، بلکہ لہو میں دوڑتی حرارت ، حرکت پذیر ہوجاتی ہے۔پختون تحفظ موومنٹ ، جو ان دنوں سرگرم ہے، اس کی حالیہ تحریک اگرچہ خودرو ہے اوراس تحریک کے مستقبل کا نقشہ بھی واضح نہیں۔لیکن جس طرح پختون مردوزن،جوانوں ، بزرگوں اور ہر مکتب فکر نے ملکان(نام نہاد نمائندوں)کے فیصلے پر ایک سادہ، غیر سیاسی و غیر معروف مگر کلمہ حق کہنے والے نوجوان منظور پشتون کی رائے کو فوقیت دی،اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پختون عوام موجودہ استحصالی نظام سے تنگ آچکے ہیں،پھر ایسانظام ،جس نے غریب کو زندہ درگوررکھا ہو،پر کب تک خاموش رہا جاسکتاہےفیض صاحب ہی نے تو کہا تھا ۔
بول، کے لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
تیرا سُتواں جسم ہے تیرا
بول، کہ جاں اب تک تیری ہے
بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے!

تازہ ترین