• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاست کیسے بدعنوان ہوئی؟

حالیہ سینٹ انتخابات میں اگر تمام سیاسی جماعتوں پر گھٹیا سیاست کھیلنے کے شک کا اظہار کیا جا رہا ہے تو ایسے میں یہ انتخابات اپنی ساکھ کھو دیتے ہیں۔ چاہے مسلم لیگ (ن) سے تحریک انصاف یا ایم کیو ایم ہی کیوں نہ ہو۔

الیکشن کمیشن ان انتخابات کو کالعدم قرار دے سکتا ہے بشرطیکہ تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوں یا الیکشن کمیشن کے پاس بھی دھاندلیوں، سودے بازی اور ہیرپھیر کی شہادتیں موجود ہوں۔

یہ بھی نظام کی صفائی نہیں کرسکتا جب تک کہ اصلاحات عمل میں نہ لائی جائیں۔ کرپشن کا عمل جو معاشرے میں تمام سطحوں اور طبقات پر پھیلا ہوا ہے اب یہ ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن گیا ہے۔

سیاست کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے بڑے عزم اور حوصلے کی ضرورت ہے جبکہ یہ کام آئین میں چند ضروری ترامیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ سیاست عوام کی خدمت کے تصور کا نام ہے۔

عوام دوست دستور سازی کے لئے ذہنی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ جاننا بھی بڑا اہم ہے کہ پاکستان میں عوامی سیاست کے جڑ نہ پکڑنے کی بنیادی وجہ کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں دو یا تین سیاستی جماعتیں ہی قومی جماعتوں کی حیثیت سے ابھرتیںلیکن جو قومی سطح کی جماعتیں گردانی جاتی ہیں انہوں نے بھی اپنی اہمیت کھو دی ہے۔

پاکستان میں سیاست قصہ، کہانی یا داستان ہے، اسے کبھی اصل روح کے مطابق پروان چڑھنے نہیں دیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ سول اور ملٹری بیوروکریسی نے سیاسی امور اور فیصلہ سازی پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ انہوں نے نہ صرف سیاسی جماعتیں تخلیق کیں بلکہ کئی ایک رہنماء اسی نرسری کی پیداوار بھی رہے۔

جب کسی لیڈر یا جماعت نے عوامی مقبولیت حاصل کی، انہیں تقسیم اور گروہ بندیوں کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں پورا سیاسی کلچر آلودہ اور بدعنوان ہوگیا۔ نت نئے تجربات ہوتے رہے۔ ’’جمہوریت‘‘ مارشل لاء کی چھتری تلے پروان چڑھتی رہی۔

انہوں نے میڈیا کے ساتھ عدلیہ کو بھی استعمال کیا۔ اس طرح وہ بھی جاری نظام کا حصہ بن گئے۔ عدلیہ نے غیر آئینی حکمرانی کو قانونی تحفظ فراہم کیا جبکہ میڈیا نے آمروں کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا۔ ایسے نظام کے خلاف آوازیں بھی اٹھیں۔

میڈیا اور عدلیہ کو اس کی وجہ سے صعوبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اسی طبقے نے ایوب خان کی بنیادی جمہوریتوں اور ضیاء الحق کا مجلس شوریٰ نظام متعارف کرایا۔ پرویز مشرف خود ملک کے چیف ایگزیکٹو بن بیٹھے۔ ان تمام آمروں نے آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھا۔ آئینی حکمرانی کو سب سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔

سیاست میں آنے والوں کی اکثریت ایک سے دوسرے آمر کی حاشیہ بردار رہی جنہوں نے آمرانہ کلچر کو چیلنج کیا انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، انہیں اذیتیں دے کر مارا گیا۔ اس کی تازہ ترین مثال جام ساقی ہیں۔

بدعنوان طبقہ پہلے قومی و نظریاتی جماعتوں کو بدنام اور لااعتبار کرتا ہے۔ اس کی ابتداء خود پاکستان کی تخلیق کار مسلم لیگ سے ہوئی۔ قائداعظمؒ کی وفات کے پہلے دو سال بعد ہی یہ جماعت منتشر اور گروہ بندیوں کا شکار ہوئی جبکہ بڑا حملہ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کی شکل میں بائیں بازو کی جماعتوں پر ہوا۔ حتیٰ کہ جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی کو بھی سزائے موت سنائی گئی۔

شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوا۔ یہاں تک کہ قائداعظمؒ کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اور ذوالفقار علی بھٹو بھی قابل قبول نہ رہے۔ تخلیق پاکستان کے اول 25 برسوں میں سیاست جڑ نہ پکڑ سکی۔

نتیجہ زوال مشرقی پاکستان کی صورت میں ظاہر ہوا۔ بھٹو بڑے مقبول رہنماء تھے۔ وہ سیاست کا قبلہ درست کرسکتے تھے لیکن اپنی جاگیردارانہ ذہنیت کی وجہ سے انہوں نے اندرون اور بیرون پارٹی اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبایا۔

تازہ ترین
تازہ ترین