فاروق اقدس
محض دو ہفتے قبل الیکشن کمیشن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کی حیثیت سے سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیئےجانے والے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے اُن کا یہ پارلیمانی استحقاق اس لیے واپس لے لیا گیا تھا کہ عدالتی فیصلے کے بعد اُن کے کیے گئے اور آئندہ کیے جانے والے کسی فیصلے کی حیثیت نہیں ہوگی۔
اسی بنیاد پر اُن کی جانب سے سینیٹ کے انتخابات کے لیے جاری کیے گئے ٹکٹس کو مسترد کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے مذکورہ ارکان کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کی ہدایت کی گئی تھی جس کے بعد یہ کہا جارہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) بطور جماعت سینیٹ کے انتخابات سے ہی باہر ہوگئی ہے لیکن انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) سینیٹ کے انتخابات میں ایوان بالا کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے تاہم اس کے باوجود اُسے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب کرنے کے ساتھ ساتھ اہم قانون سازی بالخصوص اپنی مرضی کی ترامیم کرانے کے لیے بہرحال ایوان میں دیگر جماعتوں کے ارکان کا تعاون حاصل کرنا پڑے گا۔
ظاہر ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی ہی اس وقت وہ جماعت جو 20 نشستوں کے ساتھ ایوان کی دوسری بڑی جماعت ہے ۔ یا پھر آزاد ارکان اس صورتحال میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں تاہم آصف علی زرداری بضد ہونے کی حد تک پُر اعتماد ہیں کہ وہ آنے والے دنوں میں ایوان بالا کی سب سے بڑی جماعت ہونگے ۔
نہیں معلوم کہ وہ آزاد ارکان کی حمایت کی بنیاد پر یہ دعویٰ کررہے ہیں یا اس خوش فہمی یا غلط فہمی کے پس منظر میں کوئی اورحقیقت بھی موجود ہے جو وقت آنے پر سامنے آئے گی تاہم اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ایوان بالا میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی اس حد تک ’’ اتحادی‘‘ بن جائیںکہ جمہوریت کی بالا دستی کے لیے آئینی ترامیم میں ایک دوسرے کے ساتھ ہوںاور حالات کے پیشِ نظر یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) کو کوئی سیاسی صدمہ دینے کیلئے یکجا ہوجائیں ۔
تاہم اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) ایوان بالا میں بالا دستی چاہتی ہے تو پھر مسلم لیگ (ن) کو ایوان کی بڑی جماعت ہونے کے باوجود چیئرمین سینیٹ کے منصب کے لیے ایثار کرنا پڑے گا اور یہ اختیار پاکستان پیپلزپارٹی کو دینا ہوگا اور اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ سینیٹ کا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کون ہوگا ۔
تاہم ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ نئے سینیٹرز کی حلف برداری ہونی ہے۔ بعض متوقع پیچیدگیوں اور غیر متوقع مشکلات کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ابھی تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پرویز رشید، راجہ محمد ظفرالحق اور مشاہد حسین سید کے نام چیئرمین سینیٹ کے لیے سامنے آئے ہیں۔
سینیٹ کی کاروائی کو دھمیے اور غیر متنازعہ انداز سے چلانے کے حق میں مسلم لیگی اس حوالے سے راجہ محمد ظفرالحق کا نام لیتے ہیں۔ مشاہد حسین سید اُن کے پسندیدہ امیدوار ہیں جو اسٹیبلشمنٹ سے حکومت کے تعلقات کو بہتر انداز میں جاری رکھنے کے حامی ہیں اور پرویز رشید پر اُن تمام مسلم لیگیوں کا اتفاق ہے جو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیے کے حامی ہیں۔
اسحاق ڈار بھی سینیٹر منتخب ہوچکے ہیں اُن کا نام بھی اس حوالے سے آرہا ہے لیکن یقیناً یہ فیصلہ اُن کی وزارت کی طرح متنازعہ ہوجائے گا اس لیے شاید یہ کوئی سنجیدہ نام نہیں ہے ۔
دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے میاں رضا ربانی، شیری رحمان ، فاروق ایچ نائیک اور سلیم مانڈی والا سمیت کچھ اور بھی نام لیے جارہے ہیں۔ ابتدا میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ آصف علی زرداری اپنی بہن فریال تالپور کو سینیٹ کی چیئرپرسن بناکر اُنہیں پاکستان میں سینیٹ کی پہلی خاتون چیئرپرسن بنانے کا اعزاز دینا چاہتے ہیں جیسا کہ وہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو قومی اسمبلی کی پہلی خاتون اسپیکر اور حنا ربانی کھرکو ملک کی پہلی خاتون وزیر خارجہ بنا چکے ہیں۔
لیکن سینیٹ کے الیکشن سے کچھ عرصہ قبل ہی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے باضابطہ طور پر اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ فریال تالپور کو سینیٹ کی چیئر پرسن بنانے کی کوئی تجویز نہیں ہے۔ شیری رحمان اپنے مضبوط سیاسی، صحافتی، سفارتی تجربے کے علاوہ پارلیمانی اُمور سے بھی خوب شناسائی رکھتی ہیں ۔ وزیر اطلاعات کے منصب پر بھی فائز رہی ہیں اور حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست کے تقاضوں سے بھی مطلوبہ آگہی رکھتی ہیں۔
اس لیے اُن کے نام پر سنجیدگی سے غور کرنے کا جواز ہے۔ جہاں تک میاں رضا ربانی کا تعلق ہے تو سابق چیئرمین سینیٹ کی حیثیت سے اُن کی کارکردگی اور اس منصب کے حوالے سے اُن کا کردار سب کے سامنے ہے۔
بالخصوص اگر گزشتہ تین سال میں ہونے والی صرف قانون سازی پر ہی ایک نظر ڈالی جائے تورضا ربانی کی سربراہی میں اراکین سینیٹ کے لیے سینیٹ کے اجلاس میں شرکت اور ساتھ ساتھ حکومتی افسران اور وزرا کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے نئے قوانین وضح کیے گئے۔
چیک اینڈ بیلنس فراہم کرنے کا وہ کردار ادا کیا ہے جو قومی اسمبلی کے ایوان میں کبھی نظر نہیں آیا تھا۔اس کے علاوہ ایوان بالا نے متعدد ایسے بل جو کہ سینیٹ سے پاس ہونے کے باوجود قومی اسمبلی میں زیر التوا تھے انھیں دوبارہ ممبران کے سامنے پیش کیا جس کے بعد انھیں قانون کی حیثیت دے دی گئی۔
سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے جوڑ توڑ اور دیگر سرگرمیاں اس وقت پورے عُروج پر ہیں۔ یہ دونوں پارلیمانی مناصب کس جماعت کے حصے میں آتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے بلوچستان سے 7 اور فاٹا سے 8 آزاد ارکان اس صورتحال میں انتہائی اہم بلکہ فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔
یہاں یہ صورتحال کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے والی کم و بیش تمام جماعتوں کے قائدین اور راہنماؤں نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے ہوئے اس بات کااعتراف کیا ہے کہ ارکان کی خریدوفروخت کا جو سلسلہ اس مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے اُس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔
ایسی خبریں بھی سننے میں آئی کہ بات کروڑوں سے بھی آگے نکل گئی تھی بعض جماعتوں کے راہنماؤں نے تو الیکشن سے قبل ہی اس صورتحال کی توجہ الیکشن کمیشن کی طرف مبذول کراتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ وہ فوری طور پر سدباب کے لیے اپنے اختیارات استعمال کرے۔
ایک سے زیادہ سیاسی راہنماؤں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن اس صورتحال میں خاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کررہا ہے توپھر اعلیٰ عدالتیں اس اہم ایشو پر از خود نوٹس لیں لیکن صورتحال جوں کی توں رہی اور الزامات ، احتجاج اور مطالبوں کے شور میں ہی سینیٹ کے الیکشن ’’کامیابی‘‘ سے مکمل ہوگئے ۔
لیکن اس مقصد کے لیے اپنی تمام توانائیاں اور وسائل استعمال کرنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے سروں پر اندیشوں اور خدشات کی ایک تلوار ضرورموجود ہے جس کاشاید فی الوقت اُنہیں احساس شدت سے نہیں ہورہا اور وہ یہ کہ جب تمام ہی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی طرف سے اس بات کا الزام یا مذمت کے الفاظ میں اعتراف کیا جاچکا ہے اور اب بھی کیا جارہا ہے کہ سینیٹ کا یہ الیکشن پیسے کا کاروبار تھا اور اس میں خطیر رقوم کے عوض ووٹوں کی خریدوفروخت ہوئی ہے تو ان قائدین کے اعتراف کی روشنی میں الیکشن کمیشن یا اعلیٰ عدالت کسی بھی مرحلے پر، کسی درخواست پر کوئی کاروائی کرسکتی ہے اور اگر اس پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ اعتراض اُٹھایا جاتا ہے کہ کاروائی اُس وقت کیوں نہیں کی گئی جب اُن کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی تھی تو اس کا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ’’ اگر الیکشن سے قبل یا اُس دوران کاروائی کی جاتی تو الیکشن کے انعقاد کو روکنے کے الزامات عائد کیے جاسکتے تھے‘‘ بہر حال یہ محض اندیشے اور خدشات فی الوقت مفروضے کی بنیاد پر ہیں۔