• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رضا ربانی پر پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتیں متفق ہوسکتی ہیں،تجزیہ کار

کراچی(ٹی وی رپورٹ)سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کیلئے اپوزیشن کو اکٹھا ہو کر متفقہ امیدوار لانا چاہئے،عمران خان ایسا چیئرمین سینیٹ چاہتے ہیں جو سب کیلئے قابل قبول ہو لیکن اس کا تعلق ن لیگ سے نہ ہو،اس وقت رضا ربانی واحد آدمی ہیں جس پر پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتیں متفق ہوسکتی ہیں، پی ٹی آئی اگر پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ ڈالتی ہے تو یہ اتحاد نہیں ہوگا،عدلیہ کیخلاف تمام باتیں نواز شریف کی مرضی اور آشیرباد سے ہورہا ہے، لہٰذا دوسرے لوگوں سے پہلے نواز شریف کو توہین عدالت پر سزا ہونی چاہئے،نواز شریف پر توہین عدالت لگنی چاہئے کیونکہ وہ عدالتی فیصلوں پر نہیں ججوں کے نام لے کر یا تعداد بتا کر ان پر تنقید کررہے ہیں،صرف پاکستان ہی نہیں مہذب دنیا میں بھی خواتین کو برابری کے حقوق حاصل نہیں ہیں، خواتین کو معاشی خودمختاری دیئے بغیر وہ مردوں کے برابر نہیں آسکتی ہیں۔ان خیالات کا اظہار بابر ستار، ارشاد بھٹی، افتخار احمد، شہزاد چوہدری، مظہر عباس اور ریما عمر نے جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان ابصا ء کومل سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ میزبان کے پہلے سوال ہماری کوشش ہوگی کہ مسلم لیگ ن کا چیئرمین سینیٹ نہ بنے، پیپلز پارٹی سے اتحاد مشکل ہے، چیئرمین تحریک انصاف، ن لیگ کا چیئرمین یا پیپلز پارٹی سے مشکل اتحاد، عمران خان کی انتخابی سیاست کیلئے بہتر آپشن کیا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے ارشاد بھٹی نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کیلئے اپوزیشن کو اکٹھا ہو کر متفقہ امیدوار لانا چاہئے، قومی اسمبلی میں ن لیگ اور سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت سے حکومت پر چیک اینڈ بیلنس رہے گا، چیئرمین سینیٹ کیلئے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو اکٹھا ہونا چاہئے۔مظہر عباس نے کہا کہ عمران خان چیئرمین سینیٹ کیلئے پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملانے نہیں جارہے، عمران خان ایسا چیئرمین سینیٹ چاہتے ہیں جو سب کیلئے قابل قبول ہو لیکن اس کا تعلق ن لیگ سے نہ ہو، اس وقت رضا ربانی واحد آدمی ہیں جس پر پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتیں متفق ہوسکتی ہیں، آصف زرداری نے بھی چیئرمین سینیٹ کیلئے رضا ربانی کے نام سے یکسر انکار نہیں کیا، رضا ربانی ابھی بھی آصف زرداری کیلئے ٹرمپ کارڈ کے طور پر موجود ہیں، چیئرمین سینیٹ کیلئے آصف زرداری کی پہلی ترجیح سلیم مانڈوی والا ہیں۔بابر ستار کا کہناتھا کہ حکومتی اتحاد کی طرف سے رضا ربانی کے نام پر متفق ہونا پیپلز پارٹی کیلئے عزت کی بات تھی، رضا ربانی کا نام مسترد کرنے کے بعد آصف زرداری پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ ان پر کس کا دباؤ ہے ، چیئرمین سینیٹ کیلئے کسی دوسری پارٹی کو ووٹ ڈالنا اس پارٹی کے ساتھ اتحاد کے زمرے میں نہیں آتا ہے، عمران خان اگر پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ ڈالتے ہیں تو یہ اتحاد نہیں ہوگا۔شہزاد چوہدری نے کہا کہ رضا ربانی کو متنازع بنایا جارہا ہے تاکہ سول ملٹری تقسیم کو اجاگر کیا جاسکے، آصف زرداری اور رضا ربانی کے درمیان ماضی میں اچھے تعلقات نہیں رہے اسی لئے وہ انہیں آسانی سے چیئرمین سینیٹ کیلئے امیدوار نہیں بنائیں گے، عمران خان کی ساری سیاست ن لیگ کیخلاف رہی ہے، چیئرمین سینیٹ کیلئے بھی وہ ن لیگ کے خلاف جاتے ہوئے پیپلز پارٹی سے اتحاد کا مشکل فیصلہ لیں گے۔ریما عمر کا کہنا تھا کہ کسی سیاسی جماعت کو دوسری سیاسی جماعت کیلئے انتہائی حد تک جاکر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔دوسرے سوال کیا نواز شریف پر توہین عدالت لگنی چاہئے؟ کا جواب دیتے ہوئے بابر ستار نے کہا کہ توہین عدالت کے قانون پر مکمل نظر ثانی کی ضرورت ہے، دنیا میں نظام انصاف کو ٹھیس پہنچانے یا عدالتی فیصلے کو نہ ماننے پر توہین عدالت کی سزا ہوتی ہے،جنوبی ایشیا میں عدالتوں کو اسکینڈلائز کرنے پرجیوڈیشل توہین عدالت لگتی ہے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے، عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنا لوگوں کا حق ہے، آج کے حالات میں توہین عدالت لگانی ہے تو پھر نواز شریف پر ہی لگانی چاہئے۔ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ نواز شریف اہم نہیں،ادارے اور ملک اہم ہیں، نواز شریف جو باتیں کررہے ہیں ان پر توہین عدالت لگنی چاہئے، عدلیہ کیخلاف تمام باتیں نواز شریف کی مرضی اور آشیرباد سے ہورہا ہے، نواز شریف عدلیہ کا احترام چاہتے تو مریم نواز سے لے کر نہال ہاشمی تک کسی کی عدلیہ کیخلاف بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی، لہٰذا دوسرے لوگوں سے پہلے نواز شریف کو توہین عدالت پر سزا ہونی چاہئے۔افتخار احمد نے کہا کہ عوام نواز شریف کے حق میں فیصلہ کردیتے ہیں تو توہین عدالت میں چھ مہینے کی سزا ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔شہزاد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف پر اس وقت توہین قوم کے مقدمات چل رہے ہیں اس لئے توہین عدالت کے معاملے پر ان سے الجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
تازہ ترین