اسلام آباد( محمدصالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار)رضاربانی جمہوریت کے پاسدار اور آمریت کے خلاف شمشیر برہنہ بنے رہے ،نواز شریف نے انکا نام بطور چیئرمین تجویز کیا،پیپلز پارٹی کے سربراہ نے انہیں مسترد کردیا،سینیٹ کےرکن کی حیثیت سے خدمات جاری رکھنا میاں رضا ربانی کیلئے بڑا سوالیہ نشان ہوگااب جبکہ پارلیمانی ایوان بالا سینیٹ کے نئے باون ارکان کی حلف برداری اور نئے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے چنائو کا عمل شروع ہونے میں محض تین دن باقی رہ گئے ہیں انتخابی عمل کے حوالے سے صورتحال واضح ہونے کی بجائے مزید گنجلک ہوتی جارہی ہے ایوان میں دوسرے اور تیسرے درجے کی سیاسی پارٹیاں حلق کی پوری قوت سے دعویٰ کررہی ہیں کہ وہ ایوان کی سب سے بڑی پارٹی کا چیئرمین منتخب نہیں ہونے دیں گے وہ یہ بات قبل ازیں الگ الگ بیان کررہی تھیں اب اس حوالے سے ان میں ایکا ہوگیا ہے نئی حکمت عملی کے تحت بلوچستان کے وزیراعلیٰ کو جن کا اپنا انتخاب انتہائی مشتبہ حالات اور جادوئی کمالات کے نتیجے میں ہوا تھا وہ ملک کی تاریخ میں کم ترین ووٹ لےکر 2013 کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے رکن بنے تھے انہیں پونے دو لاکھ رائے دہندگان کے حلقے میں پانچ سو کے لگ بھگ ووٹ ملے تھے اور اس طرح وہ صوبائی اسمبلی میں پہنچے یہاں انہیں ڈپٹی اسپیکر بنوایا گیا اور عام انتخابات کے اعلان سے پانچ ماہ قبل کراچی سے آئے سرمائے نے وزیراعلیٰ میر ثناء اللہ زہری کوقصر اقتدار سے نکال باہر کیا اور جادوئی عمل نے انہیں وزیراعلیٰ بنوا دیا پھر ان کی ’’ محنت شاقہ‘‘ نے چھ آزاد امیدواروں کو صوبے سے سینیٹ کارکن بھی صوبائی اسمبلی کے ذریعے منتخب کرادیا۔ اس حدود اربعہ کے حامل وزیر اعلیٰ کو ملنے کے لئے قومی رہنما ہونے کے دعویدار تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جمعرات کو سر کے بل چل کربلوچستان ہائوس میں ان کے پاس آئے اور اپنے بارہ ارکان سینٹ کی لگام غلے کی بھیڑوں کی مانند ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ بلوچستان سے سینیٹ کا چیئرمین منتخب کرانے کےلئے وہ ان ارکان کو انہیں سونپ رہے ہیں عمران خان کا بلوچستان کے وزیراعلیٰ کی اطاعت قبول کرنا اس پس منظر میں قابل توجہ ہے کہ خان نے قبل ازیں اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان مسلم لیگ نون کا چیئرمین سینیٹ منتخب نہیں ہونے دیں گے۔ خان کے بعد آصف زرداری بھی وزیراعلیٰ بلوچستان کی قدم بوسی کےلئے بلوچستان ہائوس کا رخ کرتے دکھائی دئیے ہیں اس طرح تحریک انصاف جس نے پیپلز پارٹی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا بار بار اعلان کررکھا ہے، خفیہ ہدایات کی روشنی میں اپنے ارکان کا ہاتھ وزیراعلیٰ بلوچستان کی نام نہاد وساطت سے پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں دے دیا، دوسر ی جانب دوہری شہریتوں کے اژدھام میں کسی درخواست یا شکایت کے بغیر پاکستان مسلم لیگ نون کے تین ارکان سینیٹ کی دوہری شہریت کی یاد آگئی حالانکہ وہ اسے ترک کرچکے ہیں یہ کیسی جمہوریت اورکیسا مقابلہ ہے کہ اکھاڑے میں اترے دومکے بازوں میں سے ایک کے ہاتھ پشت پر باندھ کر اسے مقابلے کی دعوت دی جائے، اس تمام تر کےباوجود اگر جمہوری قوتیں فتحیاب ہوتی ہیں تو ان عناصر کےلئے ڈوب مرنے کا مقام ہوگا جو غیبی قوت، ناجائز سرمائے اور مسلسل کذب بیانی سے ماحول کو اپنے لئے سنوارتے رہے اور آخر کار اوندھے منہ گرے،۔ سینیٹ کا اجلاس آخری ایام میں داخل ہوگیا ہے، رخصت ہونے والے باون ارکان حسرت ویاس سے پارلیمانی درودیوار دیکھ رہے ہیں ایسے میں دل گرفتہ چیئرمین میاں رضا ربانی ایوان کو چلانے میں اپنے بھرپور انہماک کا مظاہرہ کررہے ہیں انہوں نے اپنے تین سالہ دور میں اس ایوان کو جوقبل ازیں روایتی کلب کے انداز میں چل رہا تھا قرار واقعی طور پر ’’ وفاق کا ایوان‘‘ بنایا۔ متعدد نئی جمہوری روایات کی بنیاد ڈالی ایوان کی کارروائی میں نظم و ضبط پیدا کیا وہ صبح سے شام تک اپنے دفتر میں پائے جاتے رہے اور بے مثال عرق ریزی کے ذریعے ایسی رولنگز دیں جنہیں تاریخی حیثیت حاصل رہے گی۔ میاں رضا ربانی کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم رحمتہ اللہ کے پاک فضائیہ سے تعلق رکھنے والے اکلوتے اے ڈی سی مرحوم اسکوڈرن لیڈر میاں عطا ربانی کے صاحبزادے ہیں، ان کے مزاج میں شائستگی اور اطوار کا نظم و ضبط دراصل انہیں ورثے اور تربیت میں ملا ہے، ربانی پاکستان کے آدرشوں کے عین مطابق جمہوریت کے پاسدار اور آمریت کے خلاف شمشیر برہنہ بنے رہے یہ کوئی کم ازعزاز کی بات نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد سبکدوش وزیراعظم نواز شریف نے سینیٹ چیئرمین کی انتخابی دوڑ شروع ہوتےہی ان کا نام مزید ایک مدت کےلئے چیئرمین کے طورپر تجویز کردیا حالانکہ ان کا تعلق پیپلز پارٹی سےہے۔ اس کی تائید دیگر پارلیمانی پارٹیوں نےبھی کردی لیکن بد قسمتی سے دو سروں کی ابروئے چشم پر رقصاں پیپلز پارٹی کے سربراہ نے انہیں مسترد کردیا، رضا ربانی نے کبھی کسی منصب کی طلب نہیں کی ،اٹھارویں آئینی ترمیم کے اس خالق نے گزشتہ نو سال میں پارلیمانی ایوانوں میں جس قدر جانفشانی کا مظاہر ہ کیا اوروقت دیا اگر وہ اس قدر محنت اپنی وکالت کےلئے وقف کرتے تو کروڑوں کما لیتے انہیں یقیناًملال اس بات کا ہوگا کہ خود اپنی پارٹی کی قیادت نے ان سے بلا سبب بے رخنی کا مظاہرہ کیا ہے حالانکہ جس وقت نواز شریف نے ان کا نام تجویز کیا تھا پیپلز پارٹی کے خیمے میں شادیانے بجائے گئے اور اس کے مخلص ارکان نے بے پناہ خوشی کااظہار کیاتھا۔ سینیٹ کےرکن کی حیثیت سے خدمات جاری رکھنا میاں رضا ربانی کے لئے بڑا سوالیہ نشان ہوگا۔