• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کافی دنوں سے ارسا اور پانی کی وفاقی وزارت سے منسلک وزیر با تدبیر اور افسران اعلیٰ کی طرف سے یہ اطلاع آتی رہی ہیں کہ اوپر سے تربیلا ڈیم میں پانی کی ترسیل بہت کم ہوگئی ہے جہاں تک کہ ایک دو دن پہلے یہ تک بتایا کہ اس وقت تربیلا سے پانی کی فراہمی زیرو ہوگئی ہے‘ اس کا خمیازہ خاص طور پر سندھ کو بھگتنا پڑ رہا ہے کیونکہ سندھ دریائے سندھ پر سب سے نچلے حصے میں ہے لہذا اسے دریائے سندھ پر Tail End صوبہ کہا جاتا ہے‘ مگر سندھ کو تو کافی عرصے سے پنجاب اور وفاقی حکومت کی طرف سے مختلف لنکس سے پانی کی کٹوتی والے اقدامات کا بھی خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے‘ اس سلسلے میں حال ہی میں سندھ کے ایم این ایز‘ ایم پی ایز اس قسم کی کئی شکایات کرتے ہوئے سنے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تربیلا ڈیم میں پانی کی کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف کم پگھلنے کی وجہ سے پانی پہاڑوں سے مطلوبہ مقدار میںنیچے نہیں آتا اور اس کے نتیجے میں تربیلا کے ریزرو میں پانی مقابلتاً کم جمع ہوتا ہے مگر کیا تربیلا میں کم پانی کے جمع ہونے کی فقط یہ ایک ہی وجہ ہے۔ حقائق بتاتے ہیں کہ نہیں‘ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جب سے تربیلا ڈیم بنا ہے تب سے اوپر پہاڑوں سے آنے والا پانی اپنے ساتھ بڑے پیمانے پر ریت نیچے لیکر آتا ہے اور یہ ریت اس وقت سے تربیلا ڈیم میں جمع ہوتی رہی ہے‘ اس کے نتیجے میں تربیلا ڈیم میں پانی جمع ہونے کی گنجائش بتدریج کم ہوتی گئی لہذا پانی کی مقدار کافی حد تک کم ہوگئی ہے۔ اس صورتحال کا بھی نقصان زیادہ تر سندھ کو ہوتا ہے کیونکہ اس طرح سندھ کے لئے پانی کی فراہمی بتدریج کم ہوتی رہی ہے اس وجہ سےسندھ کی کافی زمینیں جو پہلے کاشت ہوتی تھیں اب وہاں اکثر کاشت نہیں ہوتی‘ جس سے ایک تو سندھ (پاکستان) کی زرعی پیداوار کم ہوتی رہی ہے مگر اب تک کی اطلاعات کے مطابق سندھ کے کئی علاقوں میں ربیع اور دیگر فصلیں کم کاشت ہوسکیں گی۔ اس مرحلے پر میں یہ بات بھی ریکارڈ پر لاتا چلو کہ 91کے معاہدے کے تحت زیر زمین میٹھے پانی کی صوبوں میں تقسیم نہیں کی گئی‘ اس کا بھی فائدہ فقط پنجاب کو اور نقصان سندھ کو ہوا کیونکہ پنجاب میں زیر زمین پانی وافر مقدار میں میسر ہے جبکہ سندھ میں زیر زمین میٹھے پانی کے ذخائر اس وقت بھی برائے نام تھے بلکہ اب تو سندھ زیر زمین میٹھے پانی سے مکمل طور پر محروم ہوگیا ہے‘ بہرحال جس دن سے تربیلا ڈیم میں ریت جمع ہونے کی وجہ سے تربیلا میں پانی جمع ہونے کی گنجائش کم ہونے لگی تب سے خاص طور پر سندھ مطالبہ کرنے لگا کہ تربیلا ڈیم میں جمع ہونے والی ریت کو صاف کیا جائے مگر وفاق نے کبھی بھی اس مطالبے پر کان نہیں دھرا‘ بہرحال جب مختلف حصوں سے اس قسم کے مطالبے سامنے آئےتو ایک مرحلے پر حکومت کی طرف سے غالباً 90 ء کی دہائی میں برطانیہ کی ’’ٹیمس کمپنی‘‘ کو یہ اسائمنٹ دیا گیا کہ اس کے ماہرین تربیلا ڈیم کا معائنہ کرکے ایسے ضروری اقدامات تجویز کریں جن سے ڈیم سےیہ ریت صاف کی جاسکے۔ کمپنی کے ماہرین نےصورتحال کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ حکومت پاکستان کو دی ۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس رپورٹ پر عمل کرنے کی بجائے اسے سردخانے کے حوالے کردیا گیا‘ اس دور میں سندھ حکومت سے وقت بہ وقت مطالبہ ہوتا رہا کہ ٹیمس کمپنی کی رپورٹ پر عملدرآمد کیا جائے مگر پنجاب حکومت نے اس مطالبہ کی حمایت کی اور نہ ارسا اور واپڈا‘ حتیٰ کہ پانی اور بجلی کی وفاقی وزارت نے بھی اس رپورٹ پر عملدرآمد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ واضح رہے کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے وفاقی وزارت پانی و بجلی‘ واپڈا اور بعد میں وجود میں آنے والے ادارے ارسا سے منسلک افسر شاہی کا تعلق زیادہ تر پنجاب سے رہا ہے‘ ایک مرحلے میں سندھ سے اس قسم کی آوازیں بھی اٹھنے لگیں کہ ٹیمس رپورٹ پر عملدرآمد کرنے کی بجائے اس رپورٹ کو ہی غائب کردیا گیا ہے اور اسے منظر عام پر ہی نہیں لایا جارہا ہے‘ یہ صورتحال اب تک موجود ہے۔ اس مرحلے پر میں کچھ ماہرین کی یہ رائے بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تربیلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ کم ہوجاتا ہے تو نیچے کے علاقے کی زراعت متاثر ہونے کے ساتھ پینے کے پانی کا بحران تو پیدا ہوگا مگر بجلی کی پیداوار میں بھی کافی کمی ہوجائے گی۔ واضح رہے کہ پاکستان ہائیڈرو پاور جنریشن کا ایک بڑا پروجیکٹ تربیلا ڈیم ہے‘ اس ایشو پر مختلف ماہرین سے بات چیت کرنے کے نتیجے میں انکشافات ہوئے کہ شروع دن سے پنجاب تربیلا ڈیم کی بجائے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں تھا‘ ان ماہرین کے درمیان دریائوں اور پانی کی تقسیم کے سلسلے میں مذاکرات ہوئے تو اس وقت پنجاب کی تجویز یہ تھی کہ پاکستان میں کالا باغ کے مقام پر ڈیم بنایا جائے‘ ان ماہرین اور ذرائع کے مطابق کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کے سلسلے میں پاکستان کی پنجاب حکومت اس حد تک پرجوش تھی کہ پاکستانی وفد کے کچھ ممبران نے ان مذاکرات میں تجویز پیش کی کہ کالا باغ ڈیم پنجاب حکومت اپنے وسائل سے خود تعمیر کرنے کے لئے تیار ہے ۔
اس وقت بھی سندھ اور ملک کے کچھ دیگر غیر جانبدار ماہرین کالا باغ ڈیم کی بجائے تربیلا ڈیم تعمیر کرنے کے حق میں تھے‘ ان تجاویز سے عالمی بینک کے ماہرین کو بھی آگاہ کردیا گیا اور ان ذرائع کے مطابق مختلف وجوہات کی بنا پر خود عالمی بینک کے ماہرین اس سلسلے میں ڈبل مائنڈڈ تھے کہ ڈیم کالاباغ کے مقام پر بنایا جائے یا تربیلا کے مقام پر۔ اس دوران پاکستان کے سینئر بیورو کریٹ غلام اسحاق خان واپڈا کے چیئرمین تھے‘ وہ بہت ذہین بیورو کریٹ تھے‘ مختلف آراکا جائزہ لینے کے بعد غلام اسحاق خان کی بھی یہ رائے بنی کہ ڈیم کالا باغ کی بجائے تربیلا کے مقام پر بنایا جائے‘ بعد میں انہوں نے اس ایشو پر جنرل ایوب خان سے ملاقات کی اور دونوں کی یہی رائے تھی کہ ڈیم تربیلا کے مقام پر بنایا جائے جو پنجاب نہیں کے پی میں واقع ہے‘ بعد میں غلام اسحاق خان نیو یارک گئے وہاں انہوں نے عالمی بینک کے نمائندوں سے مذاکرات کیے اور عالمی بینک نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا کہ ڈیم کالا باغ کی بجائے تربیلا میں تعمیر کیا جائے۔ اس طرح عالمی بینک کی مدد سے تربیلا کے مقام پر ڈیم اور بجلی گھر تعمیر کیے گئے اس دوران جب 1973 ء میں آئین بنایا جارہا تھا تو پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے کے پی کے اکثر سیاسی رہنمائوں نے مطالبہ کیا کہ تربیلا ڈیم میں پانی جمع ہونے اور بجلی تیار ہونے کی وجہ سے کے پی کو رائلٹی دی جائے۔ اطلاعات کے مطابق اس قسم کا مطالبہ خان ولی خان نے بھی بھٹو سے کیا‘ بھٹو نے یہ مطالبہ مان کر سینئر بیورو کریٹ اے جی این قاضی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی اور اسے یہ اسائمنٹ دیا گیا کہ سفارش کرے کہ سرحد صوبے کو سالانہ کتنی رائلٹی دی جائے۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ اس سلسلے میں صوبے کو 8ارب روپے سالانہ رائلٹی دی جائے مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ کبھی بھی کے پی کو اتنی رقم کی رائلٹی نہیں دی گئی جس کے خلاف کے پی حکومت آواز اٹھاتی رہی کہ باقاعدہ ہر سال مقرر رقم والی رائلٹی دی جائے۔ اس سلسلے میں دبائو اتنا بڑھا کہ اس وقت کی حکومت نے جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں اس ایشو پر جوڈیشل کمیشن بنایا‘ اس کمیشن نے رپورٹ دی کہ کے پی کو 60 ارب روپے دیئے جائیں جو کہ اب تک نہیں دئیے گئے تاکہ رائلٹی کا ازالہ ہوسکے۔ اب یہ پتہ نہیں کہ اس کے بعد کے پی کو یہ رقم ملی بھی یا نہیں اور کیا اب تک اسے سالانہ رائلٹی ادا کی جارہی ہے یا نہیں؟
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین