• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرا ہمیشہ سے یہ خواب تھا کہ بیرون ملک سے محنت سے کمائی گئی دولت سے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کروں اور اسی خیال سے میں اور میرے بھائی اشتیاق بیگ نے 1980ء کی دہائی میں بیرون ملک سے کمائی گئی دولت کو بینکنگ چینل سے پاکستان منتقل کیا۔ پاکستان آکر جائزے سے پتہ چلا کہ عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں ملک میں سستی کاٹن، کم اجرتوں پر دستیاب ہنرمند لیبر، ٹیکسٹائل کے شعبے میں مہارت اور بینکوں کا ٹیکسٹائل پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کے مدنظر بزنس مین ٹیکسٹائل بالخصوص اسپننگ کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کررہے تھے۔ میں نے بھی پاکستان میں اپنی پہلی پبلک لمٹیڈ کمپنی سائٹ کراچی میں لگائی۔ پاکستان میں جاپانی مشینوں کے سپلائرز زیادہ آرڈرز ہونے کی وجہ سے مشینوں کی ڈیلیوری کم از کم 6 ماہ بعد دے رہے تھے، ان دنوں پاکستان میں کک بیکس حاصل کرنے کیلئے مشینوں کی قیمتوں کو بڑھاکر دکھانے کا رجحان عروج پر تھا جبکہ میں نے اپنے چین اور جاپان کے مشین سپلائرز سے ڈسکائونٹ دینے پر زور دیا جس سے وہ کافی پریشان نظر آئے کیونکہ زیادہ تر سرمایہ کار اوورانوائسنگ کرواکے کک بیک کے ذریعے اپنا لگایا گیا کیپٹل واپس نکال لیتے تھے اور اس طرح کمپنی پر پہلے دن سے اضافی مالی بوجھ پڑجاتا تھا لیکن دوسری طرف ہماری طرح کے وہ سرمایہ کار بھی تھے جو صنعتیں لگاکر ملک میں ملازمتوں کے نئے مواقع اور ایکسپورٹس میں اضافے کے متمنی تھے اور پروجیکٹ کی مالیت بڑھاکر مستقبل میں اِسے بیمار کرکے نادہندہ نہیں ہونا چاہتے تھے۔
ان دنوں پاکستان میں جاپان کے ٹریڈنگ ہائوسز جاپانی مشینری سپلائی کرنے کے ساتھ نئی مشینوں سے بنا ہوا اعلیٰ کوالٹی یارن جاپان کیلئے خریدتے بھی تھے جن میں جاپان کے بڑے ٹریڈنگ ہائوسز شامل تھے۔ پاکستان کی اسپننگ ملز مالکان ان دنوں مقامی کسانوں اور جننگ فیکٹریز سے عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں 20% سے 25% سستی کاٹن خرید کر کم اجرتوں پر یارن بناکر سستے داموں فروخت کردیتے تھے لیکن پھر وہ وقت بھی آیا جب ہم سندھ اور پنجاب کے کسانوں اور جننگ فیکٹریز سے کاٹن خریدنے کیلئے رابطہ کرتے تو ان کا جواب ہوتا کہ ’’میاں صاحب عالمی مارکیٹ کے کاٹن کے نرخ آنے دیں، پھر ہم آپ کو اپنے کپاس کے نرخ بتائیں گے۔‘‘ یہ وہ وقت تھا جب گلوبلائزیشن کی وجہ سے دنیا گلوبل ولیج بن گئی تھی اور ان کسانوں اور جننگ فیکٹریز کے مالکان کے بچے تعلیم اور کمپیوٹر نالج سے آراستہ ہوکر اپنے ناخواندہ والدین کی بزنس میں مدد کررہے تھے جس کی وجہ سے اب پاکستان میں کپاس عالمی قیمتوں پر ہی دستیاب ہے۔ پاکستان کی کپاس میں آلودگی کی وجہ سے ہمارے یارن سے بنائے گئے کپڑے میں پٹہ آتا تھا جو کپڑے کی ڈائنگ میں ایک بڑا نقص تصور کیا جاتا ہے۔ جاپانی ٹریڈنگ ہائوسز نے پاکستانی کپاس کی آلودگی کو ختم کرنے کیلئے کافی کوششیں کیں لیکن افسوس کہ اب تک کپاس کی آلودگی کا مسئلہ حل نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ سے جاپانی ٹریڈنگ ہائوسز نے پاکستان سے اچھے داموں یارن خریدنا بند کردیا اور پاکستان مجبوراً چین، ہانگ کانگ، مکائو اور دیگر ممالک کو سستی داموں یارن فروخت پر مجبور ہوا۔ پاکستان کے بڑے ٹیکسٹائل گروپس نے ان حالات میں ویلیو ایڈیشن کی طرف توجہ دی اور اسپننگ کے ساتھ گارمنٹس، ہوزری، ہوم ٹیکسٹائل، ٹاولز، ڈینم کی مصنوعات کی پروڈکشن میں کامیابی حاصل کی لیکن اس دوران بھیڑ چال کی وجہ سے ملک میں بے شمار اسپننگ ملز لگائے گئے اور ہماری یارن کی پیداوار مقامی ٹیکسٹائل صنعت کی کھپت سے بہت زیادہ ہوگئی جبکہ ایکسپورٹ میں ہمیں علاقائی ممالک چین، بھارت سے سخت مقابلہ تھا۔ خوش قسمتی سے اسی دوران چین نے اپنی ٹیکسٹائل صنعت کیلئے سائرو یارن پاکستان سے لینا شروع کردیا اور چند سال پہلے چین پاکستان سے کاٹن یارن کا سب سے بڑا خریدار بن گیا لیکن بجلی، گیس کی قیمتوں اور مزدور کی اجرتوں میں اضافے کی وجہ سے ہماری پیداواری لاگت میں تیزی سے اضافہ ہوا اور اب ہم اپنے علاقائی حریفوں سے غیر مقابلاتی ہوتے جارہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں گیس کی قیمت اور مزدور کی اجرتیں ہم سے آدھی ہیں۔ ہماری پیداواری لاگت میں اضافے اور پنجاب میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہمارے ایکسپورٹ آرڈرز کی تاخیر کے باعث آج چین بھارت سے یارن کا سب سے بڑا خریدار بن گیا جس کی وجہ سے اس سال ہماری یارن اور فیبرک کی ایکسپورٹ میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔
ایک وقت تھا جب کم از کم 12800 اسپنڈلز کا اسپننگ مل لگانا منافع بخش تصور کیا جاتا تھا، پھر یہ گنجائش بڑھ کر 18000 اسپنڈلز تک پہنچ گئی لیکن آج 40000 اسپنڈلز سے کم اسپننگ مل منافع بخش تصور نہیں کی جاتی۔ جن لوگوں نے وقت کے ساتھ اپنی اسپننگ ملز کی پیداواری صلاحیت کو بڑھایا ان کی پیداواری لاگت آج کنٹرول ہے لیکن وہ اسپننگ ملز جنہوں نے اپنی پیداواری صلاحیت کو آج کی پیداواری لاگت کے حساب سے نہیں بڑھایا اور ویلیو ایڈیشن کو نہیں اپنایا، آج بحران کا شکار ہیں۔ اپٹما کے مطابق پاکستان میں اب تک 110 ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکی ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے آج پاکستان میں سرمایہ کاری کے رجحان میں تبدیلی آئی ہے۔ ہماری نئی نسل جو بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرکے والدین کا بزنس میں سہارا بننے کیلئے وطن واپس لوٹی ہے، کا رجحان صنعتیں لگانے کے بجائے انرجی، ٹریڈنگ، سروس اور رئیل اسٹیٹ کے سیکٹرز میں سرمایہ کاری میں ہے۔ میرے اور میرے بھائی اشتیاق بیگ کے صاحبزادے جو بیرون ملک کی معروف یونیورسٹیوں سے بزنس مینجمنٹ میں ماسٹرز کرکے وطن لوٹے ہیں، کی ترجیحات بھی ٹیکسٹائل سیکٹر نہیں بلکہ وہ انرجی، رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اور کیپٹل مارکیٹ میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ ملک میں امن و امان کی ناقص صورتحال، بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ اور صنعتی شعبے پر بے شمار حکومتی انسپکشن ایجنسیوں کو ہینڈل کرنا درد سر بنتا جارہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی اپنی رپورٹ کے مطابق بینکوں کے مارک اپ میں ریکارڈ کمی کے باوجود نجی شعبے کے قرضے گزشتہ سال جولائی سے اکتوبر کے دوران 58.377 ارب روپے سے کم ہوکر اس سال اسی دورانئے میں 21.462 ارب روپے کی نچلی ترین سطح پر آگئے ہیں اور ہم مینوفیکچرنگ گروتھ کا ہدف پورا نہیں کرپائے ہیں۔
پاکستان کی معیشت میں زراعت اور صنعت کے شعبے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہیں,حکومت کو ان شعبوں کو مقابلاتی بنانے کیلئے ان کی پیداواری لاگت میں کمی لانا ہوگی، ایکسپورٹس پر بالواسطہ (Indirect) ٹیکسوں کو ختم اور ایکسپورٹرز کے ریفنڈ وقت پر ادا کرکے کمپنیوں کے کیش فلو کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ معاشی سرگرمیاں سکڑنے کے بجائے فروغ پائیں لیکن اگر حکومت کی ترجیحات زیادہ سے زیادہ ٹیکس ریونیو کی وصولی رہی تو ملک میں صنعتکاری کا عمل جمود کا شکار رہے گا جس سے بیروزگاری اور غربت میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگا۔ بنگلہ دیش کاٹن، یارن اور فیبرک پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک سے خرید کر گارمنٹس بناکر ایکسپورٹ کرتا ہے اور مقابلاتی ہونے کی وجہ سے اس کی ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ ہم سے دگنی 26ارب ڈالر ہوگئی ہے جبکہ ہماری ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 13ارب ڈالر اور مجموعی ایکسپورٹ یورپ سے ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی ملنے کے باوجود گزشتہ کئی سالوں سے 24 ارب ڈالر سے نہیں بڑھ پارہی۔ میں خود ایک صنعتکار ہوں اور زمینی حقائق سے پوری طرح واقف ہوں۔ گزشتہ 25 سالوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے رجحان میں حیرت انگیز تبدیلی آئی ہے۔ پاکستان کا مستقبل روشن اور تابناک ہے۔ ضرب عضب سے ملک بالخصوص کراچی میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔ حکومت کی ترجیحات میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کو جلد ختم کرنا ہے۔ پاکستان کے معاشی اشارے بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری،ایل این کی امپورٹ اور گیس پائپ لائن منصوبوں کی تکمیل انشاء اللہ ملک میں معاشی ترقی اور خوشحالی کے ضامن ہوں گی۔ اس کے باوجود آج کا کالم ایک تلخ حقیقت ہے جو تمام اسٹیک ہولڈرز کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ہم واقعی ایک ٹریڈنگ اسٹیٹ بننے جارہے ہیں؟ کیا واقعی پاکستان میں صنعتوں کا مستقبل تاریک ہورہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو ان چیلنجز کا ہنگامی بنیادوں پر مقابلہ کرنا ہوگا۔
تازہ ترین