• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اچھے سامعین اچھی نصیحت حاصل کر سکتے ہیں

(رچرڈ برنسن)

کاروبار میں کامیابی کے لیے آپ کا اچھا سامع ہونا ضروری ہے ۔ اس کے بعدآپ کو ہر تصور کو بے شمار افراد کے سامنے رکھنا سیکھنا چاہیے تاکہ آپ اُن کا ردِعمل جان سکیں۔ 

کاروباری مشاورت کرنے اور سننے کی حقیقی اہمیت یہ ہے کہ اس کا زندگی کے دیگر پہلووں پر بھی خوشگوار اور مثبت اثر مرتب ہوتا ہے ۔آپ رائے سننا اور تجزیہ کرنا سیکھ لیتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی خود احتسابی بھی ہے ۔

اس کی ایک مثال طبی فیصلے ہیں۔ جب میں بائیس سال کا تھا تومیں بہت جوش سے ایک نوجوان لڑکی کے گرد چکر لگارہا تھا کہ اچانک میرا گھٹنے کا جوڑ اتر گیا۔ 

مجھے کئی روز تک بیساکھیوں کے سہار ے چلنا پڑا۔ پھر میں نے ایک سرجن سے رجوع کیا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ میری ٹانگ کے مسل اتنی بری طرح پھٹ گئے ہیں کہ اُس نے زندگی بھر ایسا اندرونی زخم نہیں دیکھا۔ اور یہ کہ میرا اپریشن ہوگا۔

 اگرچہ میں نوجوان تھا لیکن میں اُس عمر میں بھی کاروبار کا سات سالہ تجربہ رکھتا تھا۔ چنانچہ میں نے ایک اور رائے لینا مناسب سمجھا۔

میں نے احتیاط کی کہ میں دوسرے سرجن کو پہلے کی رائے سے آگاہ نہ کروں۔ چنانچہ مجھے پہلے سرجن سے مختلف رائے سننے کو ملی۔ تاہم اس کا بھی کہنا تھا کہ اپریشن ضروری ہے ۔ اس کے بعد میں نے تیسری نصیحت بھی ضروری سمجھی۔ میں نے ایسے افراد کے گروہ کو تلاش کیا جن سے اس ضمن میں بہترین نصیحت مل سکتی تھی۔ یہ گروہ انگلش فٹ بال ٹیم تھی۔ 

میں نے فون بک میں ٹیم کا نمبر حاصل کیا اور کہا میں اُن کے فیزیوتھراپسٹ سے ملنا چاہتا ہوں۔ اُ نھوں نے بہت مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آمادگی ظاہر کردی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اپریشن کی قطعاً ضرورت نہیں، اور اگر میں ورزش کے درست پروگرام پر عمل کروں پرمیں تین ہفتوں کے اندر بیساکھیوں کے بغیر چلنے کے قابل ہوجائوں گا۔ ایسا ہی ہوا۔ ٹھیک تین ہفتوں کے بعد میں برف پر سکنگ کررہا تھا۔ 

کئی سال بعد، ساٹھ برس کی عمر میں ، میں نے لندن میراتھن میں حصہ لیا۔ اگر میں نے پہلے سرجن کے مشورے پر عمل کیا ہوتا تو کیا میں میراتھن میںحصہ لے سکتا تھا؟ میرا نہیں خیال کہ اپریشن کے بعد میرے لیے بھاگنا ممکن رہتا۔

 جب میں بائیس سال کا تھا تومیں بہت جوش سے ایک نوجوان لڑکی کے گرد چکر لگارہا تھا کہ اچانک میرا گھٹنے کا جوڑ اتر گیا۔ مجھے کئی روز تک بیساکھیوں کے سہار ے چلنا پڑا۔ پھر میں نے ایک سرجن سے رجوع کیا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ میری ٹانگ کے مسل اتنی بری طرح پھٹ گئے ہیں کہ اُس نے زندگی بھر ایسا اندرونی زخم نہیں دیکھا۔

اٹھ سال پہلے میری بیوی ، جان جب صبح بیدار ہوئی تو دیکھا کہ اُس کی ایک ٹانگ معمول کے سائز سے تین گنا سوجی ہوئی ہے ۔ ہمارے فیملی ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ اُس کے خیال میںکسی شریان میں خون جم گیا ہے ۔ 

ہم جان کو لے کر اہسپتال گئے ۔ وہاں ہمیں بتایا گیا کہ اس کے گھٹنے سے لے کر ٹانگ کے اوپری حصہ تک کئی مقامات پر شریانوں میں خون کا بہائو رک گیا ہے ، اور یہ کہ ڈاکٹروں نے اپنی زندگی میں خون کا ایسا جمائو کبھی نہیں دیکھا ۔ جان کی زندگی شدید خطرے میں بتائی گئی کیونکہ شریانوں میں موجود رکاوٹ کے کچھ حصے ٹوٹ کر پھیپھڑوں تک پہنچ کراُن کا عمل بلاک کرسکتے تھے ۔ 

ڈاکٹروں نے جان کو ایک دوائی ، Warfarin تجویز کی، اُس کی ٹانگ پر ایک کمپریشن لگادیا، اور کہا کہ کئی سالوں کے بعد جاکر یہ ٹانگ معمول کے مطابق ٹھیک ہوگی۔ لیکن یہ بھی خبردار کیا کہ کسی بھی مرحلے پرشریانوں میں خون کا جمائو اُن کی زندگی خطرے میں ڈال سکتا ہے ۔

میرے دو بچے، سام اور ہولی(ہولی ایک ڈاکٹرہے، لیکن وہ بزنس وومین ہے)، اور میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتا تھا کہ کیا ڈاکٹر وں نے ہمیں ممکنہ طور پر بہتر ین طبی مشورہ دیا ہے ۔ چنانچہ میں نے جان کو ایک دوائی اور کسی بھی وقت خون کے جمائو کے خطرے کے رحم وکرم پرچھوڑنا مناسب نہ سمجھا۔ ہم نے اس مسلے کے حل کے لیے کئی ایک ڈاکٹر وںسے رجوع کیا ۔ ناولوں میں سراغ رسانوں کی طرح ہم نے بہتر نتائج کا کھوج لگانا شروع کردیا۔ ہم نے ہم حال ایسی ایک ایجاد کے بارے میں پتہ چلایا جو چند سال پہلے تک ایک سائنس فکشن دکھائی دیتی، لیکن اس کے عملی شکل میں سامنے آنے سے جان کی کامیاب بحالی ممکن تھی ۔

ہم جس پہلے معالج کے پاس گئے تھے، وہ اس نئے طریق کار کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے ۔ اُن کا کہنا تھاکہ یہ نئی پیش رفت خطرے سے خالی نہیں۔ لیکن جلد ہی اس شعبے کے کئی ایک ماہرین سے بات کرنے کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ اس علاج میں خطرہ اُس سے کہیںکم ہے جتنا کہ کسی بھی وقت خون کے جم جانے میں۔ چنانچہ ہم نے نئے علاج سے استفادہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔پہلا اہسپتال اس کو اپنانے میں متذبذب تھا۔چنانچہ ہم ایک اور اہسپتال چلے تھے ۔ یہاں دس دن کے علاج کے بعدجان اپنے قدموں پر کھڑی تھیں۔

اٹھ سال پہلے میری بیوی ، جان جب صبح بیدار ہوئی تو دیکھا کہ اُس کی ایک ٹانگ معمول کے سائز سے تین گنا سوجی ہوئی ہے ۔ ہمارے فیملی ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ اُس کے خیال میںکسی شریان میں خون جم گیا ہے ۔ ہم جان کو لے کر اہسپتال گئے ۔ وہاں ہمیں بتایا گیا کہ اس کے گھٹنے سے لے کر ٹانگ کے اوپری حصہ تک کئی مقامات پر شریانوں میں خون کا بہائو رک گیا ہے۔

ہوسکتاہے کہ بہت زیادہ سوالات کرنے سے ہر مرتبہ جان نہ بچ سکتی ہو، لیکن اس سے نئی راہیں ضرور کھل جاتی ہیں۔ بزنس میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے ۔ آپ ہر مرتبہ اپنی سوچ کو حرف ِآخر نہ سمجھیں یہاں تک کہ آپ کے پاس بہت سی فیڈبیک ہو۔ لیکن آپ دوسروں کو دیگر افراد کی رائے سے آگاہ کرنے گریز کریں۔ ان آراء کا خود تجزیہ کریں، اور مشاورت کا عمل جاری رکھیں۔ ہوسکتاہے کہ آپ اپنے اصل تصور پر بھی کاربند ررہیں، اور وہی بہترین ہو۔تاہم ایک مسلے پر کی گئی مشاورت ایک شعبے تک ہی محدود نہیں رہتی ۔ آپ لوگوں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی میں بھی اس رویے کو اپنا لیں تو آپ اپنی زندگی میں خوشگوار تبدیلی پائیں گے ۔

© 2018 رچرڈ برنسن (نیویارک ٹائمز سنڈیکٹ کا تقسیم کردہ) 

تازہ ترین