• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشی ترقی کیلئے وسائل کا دانشمندانہ استعمال

معاشی ترقی کیلئے وسائل کا دانشمندانہ استعمال

  نجم الحسن عطا

معاشی، سیاسی اور سماجی ارتقاء میں ذرائع پیداوار کا کردار مرکزی ہے۔ مشینی ذرائع پیداوار نے صنعتی عہد کو جنم دیا، اور یہ صنعتی عہد ہی دور جدید کا اصلی جوہر ہے۔پیداواری ذرائع کی آجر اور مزدور کے مابین وسائل کی مساوی تقسیم سے ہی ہم دنیا سے غربت و افلاس کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔

معیشت تین اجزاء کا مجموعہ ہوتی ہے، پیداوار ، پیداوار کی تقسیم اور معیار زندگی ۔ اس کا اہم ترین حصہ پیداوار ہے جبکہ باقی دو شعبوں کا عمل شروع ہی اس وقت ہوتا ہے جب پیداوار موجود ہو ، اگر پیداوار ہو گی تو اس کی تقسیم (منصفانہ یا غیر منصفانہ) بھی ہو گی اور وہ خرچ بھی ہو گی۔ بغیر پیداوار کے نہ تقسیم پیداوار (دولت ) کا سوال پیدا ہوتاہے، نہ شہریوں کے پیداوار کو خرچ کرنے کا۔ یاد رہے کہ ایک سماج کی کل پیداوار ہی اس سماج کی آمدن ہوتی ہے ، دنیا میں آج وہی معاشرے ترقی یافتہ ہیں جن کی پیداوار ترقی یافتہ ٹیکنالوجی ہے اور حجم میں بہت زیادہ ہے۔ دور جدید کی سب سے بڑی قدر بھی پیداوار ہے۔ 

ہر وہ عمل اچھا ہے جس سے پیداوار میں اضافہ ہو ۔ ایسا اضافہ جو لوگوں کی ضرورت پوری کرے اور انہیں راحت پہنچائے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک معاشرہ اپنی پیداوار میں کیسے اضافہ کرے کہ نہ صرف اس سماج کی ضروریات پوری ہو ں بلکہ وہ اردگرد کے دوسرے معاشروں کے لیے بھی بہتری کا سامان کر سکے ؟ دیکھئے، باوجود اس کے کہ ہم اس وقت تیسرے صنعتی انقلاب سے گزر کر چوتھے صنعتی انقلاب میں داخل ہو رہے ہیں اور ہمارے پاس اعلیٰ درجے کی جدید ترین مشینری ہے جس نے پیداوار کے عمل کو انتہائی تیز رفتار اور کوالٹی میں شاندار بنا رکھا ہے مگر اس کے باوجود معاشی عمل کا کلی انحصار تمام معاشی ایجنٹس (ایک سماج کی معیشت میں کام کرنے والے تمام افراد) کے معاشی فیصلوں اور معاشی سرگرمیوں پر ہوتا ہے۔

 پیداوار میں اضافہ یا معاشی ترقی کا حقیقی سفر اس وقت شروع ہوتا ہے جب تمام افراد میں محنت ، مثبت معاشی فیصلوں اور سرگرمیوں کی تحریک پیدا کی جائے گی۔ یاد رہے کہ ہم انسان اپنی ہر سرگرمی کو سرانجام دینے سے پہلے یہ ضرور سوچتے ہیں کہ اس عمل سے مجھے فائدہ ہو گا یا نقصان؟ سڑک پار کرتے ہوئے سوائے پاگلوں کے ہر شخص دائیں بائیں اس لئے دیکھتا ہے کہ کہیں سڑک پار کرتے ہوئے کوئی گاڑی اسے کچل نہ دے ، حقیقت یہ ہے کہ ذاتی فائدے کی جستجو تمام انسانوں کی فطرت کا لازمی جزو ہے۔ ایک سماج اس میں بسنے والے تمام افراد کا مجموعہ ہے اور اگر تمام افراد اپنے مفادات کی جستجو کریں گے تو یقیناً اس کا حاصل بھی پورے سماج کا فائدہ ہو گا۔ ہر فرد اپنا بہترین ذمہ دار خود ہے ، اور اس کے علاوہ کوئی اور طاقت (ریاست، معاشرہ ، خاندان) اس دنیا میں اس کی بہتر ذمہ داری نہیں اٹھا سکتی ... 

معاشی عمل میں تیز رفتاری اور ترقی اس وقت آتی ہے جب تمام افراد کو اس سے فائدہ حاصل ہو اور تمام افراد اس کا حصہ ہوں۔ فائدے کا حصول مزید فائدے پر اکساتا ہے اور نقصان سے عمل میں سستی اور جذبوں میں مایوسی آتی ہے۔ اگر پاکستان تیز رفتار اور مستقل ترقی چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام شہریوں کو معاشی عمل میں شامل کیا جائے ۔ معیشت میں تمام افراد کے مفادات کو ترجیحی بنیادوں پرشامل کیا جائے اور لوگ معاشی عمل میں تیز رفتاری اور مستقل مزاجی کو اپنا کر اسے مزید بہتر سے بہتر بنائیں ۔ معاشی عمل میں تمام افراد کی شمولیت اور فائدے کے بنیادی محرک کے بغیر معاشی ترقی کا خواب کبھی عملی تعبیر نہیں پا سکے گا چاہے ہم جتنے بھی بڑے پروجیکٹ لگا لیں یا قرضے لیتے پھریں۔

پیداوار میں اضافہ کے لئے ضروری ھے کہ ہم مقابلہ کی ثقافت کو فروغ دیں اس میں تمام انسانوں کی شرکت کو یقینی بناتے ہوئے بہتر نتائج، پیداواری صلاحیت، ذہانت اور دریافت و ایجاد کے منصفانہ انعام کو یقینی بنائیں۔ یقیناً محنتی اور باصلاحیت معاشرے وہ ہوتے ہیں جہاں اجارہ داری کو ناممکن بنا دیا جائے ، بھیک مانگنے کے عمل (چاہے یہ بھیک افراد سے لی جائے یا ریاست و حکومت سے ) کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جائے اور تخلیق و دریافت (پیداوار) کو سب سے بڑی قدر سمجھا جائے۔ 

ہمارا اصل انعام ہماری اپنی محنت ہے اور اگر کوئی مجھ سے زیادہ محنت کرتا ہے اور محنت کا زیادہ انعام حاصل کر رہا ہے تو ایسی ثقافت میں مجھے اس سے نفرت نہیں بلکہ آگے بڑھنے اور خود کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

آج دنیا کی ترقی یافتہ معیشتیں وہ ہیں جو پیداواری صلاحیت اور پیداواری عمل میں سب آگے ہیں ۔ مثال کے طور پر امریکہ سالانہ ساڑھے سترہ ہزار ارب ڈالر کی اشیا اور خدمات پیدا کرتا ہے، چین جاپان اور جرمنی بالترتیب ساڑھے دس ہزار ارب ڈالر ، ساڑھے چار ہزار ارب ڈالر اور چار ہزار ارب ڈالر کی اشیاء و خدمات پیدا کرتے ہیں اسی لئے امریکہ دنیا کی نمبر ایک ، چین دوسری ، جاپان تیسری اور جرمنی چوتھی بڑی معیشت ہے ۔ اس کے برعکس میں ملاوی ، برونڈی ، سینٹرل افریکن ریپبلک ، گیمبیا ، اور نائجر روغیرہ دنیا میں سب سے کم اشیاء و خدمات پیدا کرتے ہیں اس لیے ان کا ترقی یافتہ ممالک کی درجہ بندی میں سب سے کمتر مقام ہے۔

 یاد رہے کہ جتنی زیادہ فی کس پیداوار ہو گی اتنا ہی اس معیشت کے افراد کا معیار زندگی بلند تر ہو گا۔ہمیں پاکستان کے انسانی و پیداواری وسائل کو دانش مندی سے استعمال کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ اس وقت پاکستان کی معیشت زراعت پر مبنی ہے جس میں آپ خدمات کے شعبے کو بھی شامل کرلیں لیکن اجناس کی پیداوار اور اس کی سائنسی بنیادوں پر تقسیم کا کوئی طے شدہ فارمولا نہیں ہے۔برآمدات و درآمدات کے میکانزم کا کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ اس ملک میں کون کون سی اعلیٰ پائے کی فصلیں کاشت ہوتیں،مقامی مارکیٹ میں استعمال ہوتیں، بیرونِ ملک بھیجی جاتی ہیں۔

 اس پورے عمل میں ہماری غفلت کے باعث جو کثیر فصل ضائع ہوتی ہے اس کا شمار کیا جائے تو آپ حیران ہوجائیں کہ ہم رب کی نعمتوں کا زیاں کیسے کرتے ہیں جن کے عملی مظاہر تو آپ شادی کی تقریبات میں دیکھ چکے ہوں گے کہ ہم دو نوالے کی بھوک رکھتے ہیں لیکن بھر بھر پلیٹ ضایع کرتے ہیں۔یہی اسراف پانی کے ساتھ کرتے ہیں۔اس تمام عمل کو منظم کرتے ہوئے ایسے اقدام کرنے ہوں گے جن سے ہم معاشی خود مختاری کی منزل حاصل کرسکیں،جب تک یہ نہیں ہوتا پاکستان معاشی طور پر خود کفیل نہیں ہوسکتا۔

تازہ ترین