• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آسٹریلیا اور مشرقی تیمور کے مابین معاہدے

آسٹریلیا: سمتھٹن سے جمی اسمتھ

آسٹریلیا اور مشرقی تیمور نے ان کی نئی سمندری حد بندی کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں،جس سے دونوں ممالک کے درمیان ایک عشرہ سے جاری تنازع کا خاتمہ ہوا اور تیمور کے سمندر میں تیل اور گیس کے ذخائر میں کھربوں ڈالرز کو آزاد کردیا۔

نیویارک میں معاہدے پر دستخط اقوام متحدہ کنونشن کے سمندری قوانین کے تحت پہلی مفاہمت ہے،اس عمل سے اہلکاروں کو امید ہے کہ متنازع سمندری حدود کیلئے دیگر ممالک کو تنازع کا حل کا راستہ پیش کرسکتا ہے۔

آسٹریلیا کی وزیر خارجہ جولی بشپ نے کہا کہ یہ معاہدہ ایک تاریخی معاہدہ ہے جس نے ہمارے دوطرفہ تعلقات میں ایک نیا باب کھول دیا۔اس نے ہمارے ممالک کے درمیان مستقل سمندری حدود قائم کردیں اور گریٹر سن رائز گیس فیلڈ کی مشترکہ ترقی اور انتظام فراہم کرتا ہے۔

دنیا کے مالیاتی طور پر تباہ شدہ ممالک میں سے ایک مشرقی تیمور کے لئے یہ معاہدہ ایک قابل ذکر کامیابی ہے۔ مشرقی تیمور کا دارالحکومت دلی نے کینبرا کے ساتھ 2006 کے سرحدی معاہدے کے خاتمے کیلئے ایک طویل قانونی جنگ لڑی ہے، جس نے یہ کہا تھا کہ اس نے تیمور کے سمندر میں گریٹر سن رائز گیس فیلڈ کی ترقی سے منسلک آمدنی سے مناسب حصہ نہیں دیا گیا۔

دنیا کے مالیاتی طور پر تباہ شدہ ممالک میں سے ایک مشرقی تیمور کے لئے یہ معاہدہ ایک قابل ذکر کامیابی ہے۔ مشرقی تیمور کا دارالحکومت دلی نے کینبرا کے ساتھ 2006 کے سرحدی معاہدے کے خاتمے کیلئے ایک طویل قانونی جنگ لڑی ہے، جس نے یہ کہا تھا کہ اس نے تیمور کے سمندر میں گریٹر سن رائز گیس فیلڈ کی ترقی سے منسلک آمدنی سے مناسب حصہ نہیں دیا گیا۔

ووڈ سائیڈ،کونوکو فلپ،رائل ڈچ شیل اور اوساکا گیس کی مشترکہ سرمایہ کاری ہے، جنہیں گریٹر سن رائز منصوبے کے کمرشل حقوق حاصل ہیں۔ جس کے اندازاََ 40 کھرب ڈالر کے تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔ غیر معمولی اقدام میں، کاروباری شراکت دار دو فریقین کے درمیان حالیہ سمندری سرحد پر مذاکرات میں شامل تھے،جس نے مشرقی تیمور کی معیشت کیلئے گیس فیلڈ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

آسٹریلاین نیشنل یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ڈونلڈ روتھیل نے کہا کہ ان مذاکرات میں گریٹر سن رائز کو ہمیشہ فائدہ رہا ہے اور حتمی بات یہ ہے کہ اس نئے معاہدے کے تحت مشرقی تیمور مزید تیل اور گیس کی آمدنی حاصل کرسکے گا۔

اس معاہدے کی شرائط کے تحت، مشرقی تیمور گیس فیلڈ سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 70 یا 80 فیصد حصہ لے گا،اسکا انحصار مشترکہ سرمایہ کاری کے شراکت داروں پر کرتا ہے کہ وہ کیسے اسے تیار کرتے ہیں۔یہ دلی اور کینبرا کے مابین طے کئے گئے 2006 کے سمندری سرحدی معاہدے کے تحت مساوی حصے کے ساتھ موازنہ کرتا ہے۔

بعد ازاں مشرقی تیمور نے 2006 کے معاہدے کی مخالفت کی اور دی ہنگو میں بین الاقوامی عدالت برائے انصاف میں آسٹریلیا کے خلاف قانونی کارروائی جیتی۔اس نے الزام لگایا کہ بین الاقوامی امدادی پروگرام کی آڑ کے تحت آسٹریلیا نے معاہدے کیلئے مذاکرات میں تجارتی فائدہ حاصل کرنے کے لئے 2004 میں اس کے کیبنٹ آفس میں خفیہ ریکارڈنگ کی۔ جو بند تھا جب آزادی کیلئے 1999 کے ووٹ کی وجہ پھوٹنے والے فسادات سے ملک اس وقت بحال ہورہا تھا۔

سمندری تنازع مشرقی تیمور کی کمزور معیشت کے لئے خطرہ تھا، جیسا کہ اس کی واحد فعال بایو اندان گیس فیلڈ سے آمدنی 2020 کی ابتدا میں خشک ہونے کو تیار ہیں۔ ہاگ میں قانونی کارروائی نے کینبرا کو شرمندہ بھی کیا جو ڈلی کو سب سے بڑی غیرملکی امداد دینے والا ملک ہے، جس نے بیجنگ سے جنوبی چین کے سمندر کے متنازع پانیوں میں اس کی سرگرمیوں میں قانون کی حکمرانی پر عمل کی درخواست کی ہے۔

مس بشپ نے کہا کہ یہ معاہدہ طریقہ کار کا ٹھوس ثبوت ہر جس میں بین الاقوامی قانون خاص طور پر انکلوز( سمندری قوانین پر اقوام متحدہ کنوشن)استحکام کو فروغ دیتا ہے اور ممالک کو تنازاعت کو پرامن حل کی اجازت دیتا ہے۔ یہ عمل بین الاقوامی قواعد و ضوابط کی ایک مثال ہے۔

مشرقی تیمور کے وزیر ایرو پیریرا نے کہا کہ یہ معاہدہان کے ملک کے لئے تاریخی اور آسٹریلیا اور مشرقی تیمور کے درمیان دوستی ہے۔

پروفیسر روتھ ویل نے کہا کہ نئے معاہدے سے متعلق ممکنہ خطرہ انڈونیشیا کا ردعمل ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہاں ایک مسئلہ ہوسکتا ہے اگر انڈونیشیا یہ فیصلہ کرے کہ یہ 1970 میں طے کی گئی سرحدوں کا دوبارہ جائزہ لے سکتا ہے۔

تازہ ترین