گفتگو:عصمت علی کامران
عکاسی:اسرائیل انصاری
’’جس طرح غیر ہموار راستے آپ کو ماہر ڈرائیور بناتے ہیں، اسی طرح زندگی میں آنے والے نشیب و فراز آپ کو نا صرف جینے کا ہنر سکھاتے ہیں بلکہ کامیابیوں کے کئی دروا بھی کرتے ہیں، میں جب باشعور ہوئی اور گریجویشن کرچکی تھی، اچانک والد صاحب جو ہم گیارہ افراد کے کنبے کے واحد کفیل تھے، دنیا سے رخصت ہوگئے۔
2000میں میرے گریجویشن کے رزلٹ کے کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہوا تھا۔ ہم 6بہنیں اور 3بھائی ہیں۔ ہمارے خاندا ن میں خواتین کی ملازمت کا رواج نہیں ہے، مجھ سے بڑی تین بہنیں اماں کے ساتھ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتی تھیں، ایک بھائی بے روزگار تھے۔ میرے والد چھوٹے بحری جہاز کے کپتان تھے۔
میں ان کی لاڈلی بیٹی تھی۔ وہ مہینوں سمندر کے سفر پر چلے جاتے تھے۔ میں انہیں یاد کرکے روتی تھی۔ مجھے یاد ہے جب تک والد صاحب حیات تھے کوئی ایسی خواہش نہیں تھی جو پوری نہ ہوئی ہو۔ ہماری اچھی گزر بسر ہورہی تھی،لیکن حالات نے پلٹا کھایا اور تصور سے بڑھ کر مشکلات سامنے آئیں‘‘۔
38سالہ شاہدہ عبدالکریم نے ایک ہی سانس میں اپنے حالات زندگی بتاتے ہوئے، کچھ توقف دیا۔ پھر گویا ہوئیں’’ 18برس قبل میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میں کسی کاروبار کی مالک بن جائوں گی، اپنے ہاتھوں سے کچھ کرسکوں گی نہ تو میری اردو زبان بہتر تھی اور نہ ہی انگریزی۔ میں نے لیاری کے ایک چھوٹے محلے میں آنکھ کھولی۔ ہمارے وسائل نہایت قلیل تھے۔
ان دنوں میں بہت بڑے بڑے خواب دیکھتی تھی، میں نے سوچا تھا کہ میں ائیر ہوسٹس بنوں گی،مجھے ہوا میں اڑنے کا بہت شوق تھا ۔ والد کے انتقال کے بعد یوں محسوس ہوا کہ سر سے چھت چھن گئی ہو۔گھریلو حالات بگڑتے گئے تو میں نے گھر سے باہرقدم نکالا۔
شروع میں خاندان کے لوگوں نے تھوڑی بہت مخالفت کی مگر ظاہر ہے زندگی کی گاڑی آگے کھینچنے کے لیے کچھ تو کرنا پڑتا ہی ہے۔ لہٰذا میں نے ملازمت کی تلاش شروع کی انہی دنوں میری کزن کی شادی تھی ،اس کی چھوٹی بہن سے میری دوستی بھی بہت اچھی تھی۔ اسے اس بات کا پتا تھا کہ میں کپڑوں پربلوچی کڑھائی اچھی کرلیتی ہوں اور کاغذ کے پھول بھی بنالیتی ہوں ،اُس نے اپنی بہن کی شادی کی تیاری کے لیے مجھ سے کچھ ڈیکوریشن پیس بنانے کو کہا۔
اُن دنوں والد کو یاد کرکے میری طبیعت بھی بہت بوجھل رہتی تھی۔ میری کزن نے مجھے ڈیکوریشن پیس بنانے کے لیے میٹریل دیا، جن میں فومک شیٹس، گلو اور کچھ واٹر اور پیسٹل کلرزتھے،میرے پاس وقت بھی تھا اورکہیںملازمت بھی نہیں مل رہی تھی۔میں نے اس سے مٹیریل لے کر سوچنا شروع کیا کہ کیا بنائوں، نہ جانے کس طرح مجھے یہ خیال آیا کہ فومک شیٹ کی کشتیاں بنائی جائیں، اور ساتھ ہی کچھ پھول بھی .....‘‘ اس سوال کے جواب میں کہ آپ کو کشتیاں ہی بنانے کا خیال کیوںآیا؟ شاہدہ نے بتایا، ’’میں اپنے والد کی یاد ے باہر نہیں آسکی تھی، وہ بحری جہاز چلاتے تھے۔
ہمیں جہا ز پر سیر بھی کراتے تھے، وہ کئی ممالک کا سفر کرچکے تھے۔ جب میں نے سوچا کہ مجھے ڈیکوریشن پیس بنانا ہے تو مجھے بس ابو کا بحری جہاز ہی دھیان میں آیا اور یوں میں نے چند کشتیاں اور پھول بنائے اور ان پر رنگ کردیا۔ میری کزن کو تمام چیزیں بہت پسند آئیں۔ وہ اپنی تمام چیزیں لے گئی لیکن اس کا کچھ بقیہ میٹریل میرے پاس ہی رہ گیا۔ جو میں نے ایک طرف رکھ دیا۔
کچھ عرصے بعد مجھے ایک انشورنس کمپنی میں ملازمت مل گئی، لیکن زیادہ عرصہ نہ رہ سکی۔ اس کے بعد ایک نجی بنیک میں بھی کچھ دن ملازمت کی لیکن وہ بھی جاری نہ رہ سکی۔ کبھی کچھ پیسے مل جاتے، کبھی تنخواہ روک لی جاتی‘‘۔
ہینڈی کرافٹ کے کام کی طرف کب آئیں؟اس سوال کے جواب میں شاہدہ نےکہا کہ ’’جب کہیں مستقل ملازمت نہ مل سکی تو ایک روز میں اپنی سوچوں میں گم تھی کہ اب کیا ہوگا، کس طرح گھر چلے گا۔ ایک بھائی کو چوکیداری کی ملازمت مل گئی تھی، لیکن گزارہ بہت مشکل تھا، میں نے سوچا کہ انسان کو کسی کی نوکری کرنے کی بجائے اپنے ہاتھوں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
مجھ میں یہ بچپن سے صلاحیت ہے کہ میں کسی بھی ڈیزائن یا ہنر کاری کے کسی بھی کام کو دیکھ کر جلدی سیکھ جاتی ہوں۔ میں نے سوچا کیوں نہ میں پھول اور کشتیاں بنائوں اور دکان پر فروخت کر کے دیکھوں،کیوں کہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کرنا ہے،کس طرح آگے بڑھنا ہے،بہرحال کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ میرے پاس جو بچا ہوا مٹیریل تھا اس سے میں نے تین کشتیاں بنائیں، میں نے سوچا گھر کے قریب جو مارکیٹ ہے کیوں نہ انہیں وہاں فروخت کیا جائے۔ اگر نہ بھی فروخت ہوسکیں تو مسئلہ نہیں ہے، صرف تین ہی تو ہیں۔
یہ سوچ کر میں گھر کے نزدیک ایک دکان پر گئی اور ان سے درخواست کی کہ یہ فومک شیٹ کے ڈیکوریشن پیس ہیں آپ اگر مجھ سے خرید نہیں سکتے تو انہیں کم از کم اپنے پاس رکھ لیں اگر فروخت ہوجائیں تو مجھے پیسے دے دیجیے گا۔
میرے بھائیوں اور والدہ نے بھی مخالفت کی کہ یہ ہلکی پھلکی چیزیں فروخت نہیں ہوتیں بلکہ انہوں نے میرا مذاق اڑایا یہ 2003کی بات ہے۔ یہ میرے کام کا آغاز تھا۔ دوسرے دن دکان سے فون آیا کہ تینوں کشتیاں فروخت ہوگئی ہیں۔ آپ ایک درجن اور بنادیں، ایک کشتی 50روپے کی فروخت ہوئی تھی۔ مجھے 150روپے ملے۔
اُس دن میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب پیچھے نہیں ہٹنا ہے،اُن’’ ڈیڑھ سو ‘‘روپوں سے میں فومک شیٹ ، گلو اور کلرز خرید کر لے آئی اور ایک درجن کشتیاں تیار کرلیں، اس کے اگلے دن دو درجن کشتیاں تیار کرکے بولٹن مارکیٹ کی دکان پر رکھوائیں۔
اس طرح میں نے پندرہ سے بیس دن میں 20سے 25ہزار روپے گھر بیٹھ کر کمائے۔ یہ سب محنت اور لگن سے ہی ممکن ہوا۔ جو بھائی میرا مذاق اڑا رہے تھے انہوں نے حوصلہ افزائی کی اور اس کے بعد جب بھی میں اپنا ہینڈی کرافٹ کا کام لےکر بیٹھتی، سارے بہن بھائی اور کزنز میرا ہاتھ بٹاتے، کوئی شیٹ کاٹ کر دیتا تو کوئی گلو لگا دیتا اس طرح میرا کام بڑھتا چلا گیا۔
پھر مجھے ملازمت کی ضرورت نہ رہی۔ آج میں اپنی خود ’’باس‘‘ ہوں،اب مجھے یہ خطرہ نہیں کہ کوئی مجھے نوکری سے نکال دے گا،اس دوران اپنی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے میں نے ڈریس ڈیزائننگ اور ایم،ایس آفس کا کورس بھی کیا‘‘۔ آپ نے اپنے کاروبار کو کس طرح آگے بڑھایا۔کشتیوں کے علاوہ اور کیا چیزیں بنائیں؟ شاہدہ نے بتایا’’ 2015میں جب حالات کچھ سنبھل گئے تو میں نے ہینڈی کرافٹ کی چیزوں میں اضافہ اور جیولری ، پرس، کلپس، سینڈلز، بلوچی کڑھائی کے گلے اور سوٹ بنانے شروع کیے، مارکیٹ سے ڈیمانڈ آنا شروع ہوئی۔ا سی دوران کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ ہمارے ووکیشنل ٹرینگ سینٹر میں لڑکیوں کو ہینڈی کرافٹ کی تعلیم دیں۔ میں نے باقاعدہ لڑکیوں کو اس ہنر کی تعلیم دینا شروع کی۔
میری طالبات مجھ سے بلوچی کڑھائی اور ڈیکوریشن پیس بنانا سیکھتیں اور جب مہارت حاصل کر لیتیں تو اُن آئٹمز کو فروخت کرتی تھیں،اس طرح اُن میں خودمختاری کا تصور بھی ابھرا، بلوچستان میں میرے کچھ رشتے دار رہتے ہیں۔ وہاں سے بھی لڑکیاں سیکھنے آتی ہیں اور اب میں یہاں سے آرڈر لے کر بلوچستان جاتی ہوں جہاں مجھے مناسب داموں میں معیاری کام کی مصنوعات مل جاتی ہیں، کیونکہ وہ میرے ہی پیٹرن پر کام کرتی ہیں۔ تاہم زیادہ تر مصنوعات مجھے خود تیار کرنا ہوتی ہیں۔ اس طرح میرے زیادہ پیسے خرچ نہیں ہوتے۔مجھے اچھا لگتا ہے جب طالبات مجھے ’’ماسٹر شاہدہ‘‘کہتی ہیں۔
اب تک آپ کتنی ایگزیبیشنز میں شرکت کرچکی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں شاہد ہ نےبتایا ، تقریباً آٹھ یا دس ایگزیبیشنز میں شرکت کرچکی ہوں جہاں میری بہت حوصلہ افزائی ہوئی، کچھ کلچرل سینٹرز اور کالجز میں بھی اسٹالز لگا چکی ہوں، تاہم بڑی ایگزیبیشنز میں اسٹالز بہت مہنگے ہوتے ہیں اسی لیے غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے میں اپنے ہنر کو سامنے لائی ہوں۔اگزیبیشن میں شرکت کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے کام کو پزیرائی ملتی ہے بلکہ ہمیں بھی بیرونی مارکیٹ تک رسائی ملتی ہے‘‘۔
آپ کی مصنوعات کی قیمتیں مارکیٹ کے مقابلے میں کس حد تک مناسب ہوتی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں شاہدہ کا کہنا تھا کہ ’’بلوچی کشیدہ کاری کے سوٹ پر لاگت زیادہ آتی ہے، اس کام میں محنت بھی بہت ہے تاہم فروخت کی شرح کم ہے، اس کے مقابلے میں ہلکے اور چھوٹے آئٹمز جن میں بالوں کے کلپس، پرس، جیولری، چوڑیاں، جوتے شامل ہیں، باآسانی فروخت ہوجاتے ہیں‘‘۔
آپ جوتے بھی خود بنالیتی ہیں؟’’ جی، میں جوتوں پر بلوچی کڑھائی سے بیل بوٹے بناتی ہوں، جو بے حد پسند کیے جاتے ہیں، اسی طرح بولٹن مارکیٹ سے نگینے اور موتی کم قیمت پر مل جاتے ہیں ان سے کلپس اور جیولری وغیرہ باآسانی بن جاتے ہیں۔‘‘ آپ کے شوہر کا روزگار کیا ہے؟ شاہدہ نے بتایا ’’میرے شوہر چوکیدار ہیں۔ ان کی آمدنی نہایت قلیل ہے۔
ایک چار سال کی بیٹی ہے، اسے بھی سوئی دھاگہ ہاتھ میں دے دیتی ہوں تاکہ شوق پیدا ہو تاہم وہ نرسری میں پڑھ رہی ہے،میں چاہتی ہوں وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے‘‘۔آپ اپنی بیٹی کو مستقبل میں کیا دیکھنا چاہتی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں شاہدہ نے کہا’’ میں نے اپنی زندگی سے یہی سیکھا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ہمارے سارے خواب پورے ہوں۔ حالات کی وجہ سے میں ائیر ہوسٹس نہ بن سکی۔ میرے والد چاہتے تھے کہ میں ڈاکٹر بنوں، ایسا بھی نہ ہوسکا، میرے کام صرف میرا ہنر آیا۔
جس کی وجہ سے آج معاشرے میں مقام بناسکی اور حلال رزق کماسکی۔ میں یہی چاہوں گی کہ جو میری بیٹی کا شوق ہو یا وہ جو بننا چاہے،کام یاب ہو لیکن اپنے ہاتھوں پر بھروسہ رکھے اور ہنر سیکھے۔ تعلیم و ہنر ہمیشہ انسان کو کچھ دے کر جاتے ہیں۔ میں نے ہمت نہیں ہاری اور حالات کا مقابلہ کیا، اللہ کی ذات پر یقین تھا اس لیے یہ کٹھن سفر آسان ہوا۔