اسلام آباد( رپورٹ،رانا مسعود حسین/جنگ نیوز) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نےاپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ سندھ میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ،وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو کی تصویر بھی اشتہارات میں نہیں آنی چاہیے، آئین اور قانون کے اندر رہ کر کوشش کریں گے کہ اس مرتبہ صاف ، شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے ،1970 کے بعدانشا اللہ آئندہ منعقد ہونے والے عام انتخابات صاف اور شفاف ہوں گے، بیوروکریسی میں بڑے توپ قسم کے لوگ بیٹھے ہیں ،جن کے سر پر ہی سارے کام کئے جاتے ہیں،آئندہ عام انتخابات سے قبل بیوروکریسی میں رد و بدل کے ساتھ ساتھ ان کے تبادلے دوسرے صوبوں میں بھی کر دیں گے،سرکاری اشتہارات کے صاف ،شفاف اجراء کے لئے گائیڈ لائن بنا نے کا مقصد عوام کے پیسے کو ضائع ہونے سے بچانا ہے ، ’’اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں پر چلائے جانے والے سرکاری اشتہارات میں حکومتی کارکردگی دکھانے کی آڑ میں لیڈروں اور حکومتی عہدیداروں کی تصاویر کے ذریعے غیر محسوس انداز میں انتخابی مہم چلانے‘‘ کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران فاضل عدالت نے آج بروز منگل دون دو بجے تک خیبر پختونخوا حکومت سے تین ماہ کے اشتہارات کی تفصیل طلب کر تے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو قومی خزانے سے اپنی سیاسی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی،فاضل چیف جسٹس نے سیکرٹری اطلاعات کو کہا کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخواپرویز خٹک اور عمران خان کی تصاویر لگانا بند کردیں، اشتہارات کی مہم پر لگنے والا پیسہ قومی خزانے کا ہے،دوران سماعت فاضل چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ،عاصمہ حامد کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیا وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے قومی خزانے میں 55 لاکھ روپے جمع کرا دئیے ہیںتو انہوں نے کہا کہ چیک لکھا ہوا ہے، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ چیک لکھا ہوا ہے تو ہمارے پاس جمع کرادیں، کہیں یہ گم نہ ہو جائے ؟ جس پر ایک قہقہہ گونجا، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عاصمہ حامد نے 55 لاکھ روپے کا چیک پیش کر تے ہوئے بتایا کہ یہ چیک پاکستان مسلم لیگ ن کے پارٹی فنڈز سے دیا گیا ہے ، جس پر فاضل چیف جسٹس نے ازراہ تفنن کہا کہ اتنے معتبر شخص کے دستخط اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہیں، الیکشن کمیشن کو آپ کے پارٹی فنڈز کے آڈٹ کا نہ کہہ دیں؟جس پر ایک بار پھر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا،عدالت عظمیٰ نے سیاسی شخصیات کی تصاویر والے سرکاری اشتہارات کے اجراء پر پابندی عائد کرتے ہوئے واضح کیا کہ میڈیا کے معمول کے اشتہارات کو بند نہیں کر رہے ہیںبلکہ اشتہارات کی صرف ایک کٹیگری کو بند کر رہے ہیں، سیاسی شخصیات کی تصاویر والے اشتہار بند ہوں گے،عدالت نے چاروں صوبائی حکومتوں ،آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے وکلاء کو سرکاری اشتہارات کے صاف ،شفاف اجراء کے لئے گائیڈ لائن پر مبنی تجاویز پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آج بروز منگل تک ملتوی کردی ہے،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سوموار کے روز از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو سیکرٹری اطلاعات خیبر پختونخوا ء قیصر عالم پیش ہوئے ،چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیاکہ خیبر پختونخوا حکومت نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کتنے اشتہارات دئیے ہیں؟ اور کن اشتہارات پر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی تصاویر ہیں؟ جس پر انہوںنے بتایا کہ وزیراعلیٰ یاعمران خان کی تصویر اشتہارات میں دینے کی کوئی پالیسی نہیں ہے، ٹی وی، اخبار، ریڈیو اور سوشل میڈیا پر اشتہارات دئیے گئے، سوشل میڈیا کو کسی قسم کی ادائیگیاں نہیں کی جاتی ہیں ، گزشتہ تین ماہ میں 20 کروڑ 47 لاکھ کے اشتہارات جاری کئے گئے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے2013 سے لیکر اب تک کے پانچ سال کے دوران کل 1 ارب 63 کروڑ کے اشتہارات جاری کیے ہیں ،جسٹس اعجازاالاحسن نے اشتہارات کا جائزہ لینے کے بعد کہا کہ بظاہر کے پی میں اشتہارات سروسز سے ہی متعلق ہیں، ان شتہارات میں کسی قسم کی ذاتی تشہیر نہیں کی گئی ہے ، چیف جسٹس نے سیکرٹری اطلاعات کو کہا کہ کیا آپ یہ بیان حلفی دے سکتے ہیں کہ صوبہ کی لیڈر شپ کی تصاویر اشتہارات میں نہیں لگائی گئی ہیں ،سیکرٹری اطلاعات نے کہاکہ پالیسی کے مطابق ہمارے اشتہارات عوامی سہولتوں اور منصوبوں سے متعلق معلومات پر مبنی ہوتے ہیں، چیف جسٹس نے ایک اخباری اشتہار دیکھ کر کہا کہ اس میں عمران خان کی تصویر ہے آپ ہمیں بیان حلفی دیں کہ لیڈر شپ کی تصویریں نہیں لگائی گئی ہیں ، آپ صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان کے بھی ملازم ہیں ، اگر آپ نے جھوٹا بیان حلفی دیا توآپ کو اس کے قانونی نتائج بھگتنا پڑیں گے، لوگ ہمیں وہ اشتہار پہنچا دیں گے جن پر عمران خان یا پرویز خٹک کی تصویریں تھیں،اگر کسی اشتہار پر سیاسی شخصیات کی کوئی تصویر ہوئی تو ذمہ دار آپ خودہوں گے ، دوران سماعت پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے وکیل بابر ستار نے موقف اختیار کیا کہ قومی میڈیا کو جاری کئے گئے اشتہارات کے حوالے سے اس مقدمہ میں ہم بھی اہم ترین فریق ہیں ،ہمیں بھی فریق بننے کی اجازت دی جائے اور ہمارا موقف بھی سنا جائے۔