معروف صحافی، ادیب احفاظ الرحمٰن 12 اپریل 2020 کو دنیا سے رخصت ہوئے آج اُن کی پہلی برسی ہے اس موقعے پر خصوصی تحریر نذرِقارئین
’گندم کے کھیتوں اور بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھوں سے سبھی محبت کرتے ہیں لیکن جب ایک فن کار اُن سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے تو ہم اُس سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ اُس نے اُن کے تحفظ کے لیے اپنے فن کو وقف کردیا ہوگا ۔فیضؔ کی شاعری کا جائزہ بھی ہم اسی نقطۂ نظر سے لیں گے کہ وہ شاعری کو ایک عمل،ایک ذریعہ ،ایک ہتھیار جانتا ہے یا نہیں ؟گندم کے کھیتوں کی شادابی او ر بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھوں کی معصومیت کو دائمی بنانے کی کوشش کررہا ہے یا نہیں؟‘
اب سے کوئی56سال قبل یہ جملے احفاظ الرحمن مرحوم کے قلم سے نکلے تھے جو اُس وقت ایک جواں سال ادیب تھے۔ مضمون کا عنوان تھا_ ’گندم کے کھیت، بچوں کے ہاتھ اور شاعر‘۔تحفظ ِ ذات کو فن اور فن کار کا منصب قرار دینے والی، اور لہلہاتے کھیتوں کے ذریعے سماج کی خوشحالی اور بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھوں کے وسیلے سے بقائے نسلِ انسانی کو ،قلم کار کی ذمہ داری گرداننے والی یہ تحریر 1965ء میں ’افکار‘ کے ’فیض نمبر‘ کی زینت بنی تھی۔ مضمون میں یہ گہرا فلسفیانہ خیال موجزن تھا کہ سچا ادیب وہی ہے جو انسانی تہذیب کی آبیاری کرتا ہے،اورا نسان کے مستقبل کو نکھارنے کے فرض سے پہلو تہی نہیں کرتا ۔
اس مضمون میں اُس رومانیت اورانقلابیت کا امتزاج بھی دیکھا جاسکتا ہے جو کرشن چندر کی تحریروں کا خاصہ تھا۔احفاظ الرحمن کا اُس وقت کا طرزِ تحریر صاف بتا رہا تھا کہ وہ کرشن چندر سے بہت متاثر تھے۔اُن کی بعد کی تحریروں میں بھی ہمیشہ کرشن چندر کے اثرات نمایاں رہے۔وہی پھولوں،رنگوں اور موسموں کی چاہت،وہی معصوم انسانی احساسات کی ترجمانی، وہی سماج کی بدصورت روایتوں سے نفرت اور انسان اور اُس کے اجتماعی مستقبل کے حوالے سے ایک رجائیت سے پُر پیغام رسانی۔
اپنی ادبی اور تخلیقی زندگی کے آغاز ہی پر احفاظ الرحمن کتنے سچے جذبوںاور نظری اور فکری اصابت کے حامل تھے۔ کتنا انسان مرکز اور ایقان افروز اُن کا ادبی فلسفہ تھا۔اُن کی ابتدائی تحریروں کو دیکھیں اور پھر اواخر ِ عمر میں لکھے ہوئے مضامین اور شاعری پیش نظر رکھیں، یہاں تک کہ بچوں کے لیے جو نظمیں انہوں نے زندگی کے آخری برسوں میں لکھیں ان سب میں ایک نظری استقامت اور سوچ کے ایک ایسے دھارے کو دیکھا جاسکتا ہے جس کے زاویے تو بڑھتے رہے ،اُس میں ترقی بھی ہوتی رہی لیکن ایک سچے ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے اُن کے آدرش ہمیشہ زندہ رہے ۔ اور اُن کے آدرش کی انسان دوست اور حیات بخش اساس مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ و ہ امن کے علمبردار تھے۔ سماج میں انصاف اور حقوق کی برابری کو ارتقا کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے ۔وہ ادیب کی غیر جانبداری کو ایک مضحکہ خیز بات تصور کرتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ لکھنے والے کو علی الاعلان اپنی وابستگیوں کا ذکر کرنا چاہیے،سیاسی بیان بازیوں سے زیادہ تخلیقی اظہار کے ذریعے ۔
احفاظ الرحمن کی حیات بخش کاوشوں کو مختلف دائروں میں رکھ کر دیکھنا کارآمد ہوسکتا ہے لیکن یہ بات ایک لمحے کے لیے بھی ذہن سے محو نہیں ہونی چاہیے کہ ان کی جدوجہد کے یہ مختلف دائرے ہمیشہ باہم مربوط رہے ۔اپنی شاعری کوانہوں نے بڑے شوق کے ساتھ شایع کیا ۔ایک مجموعہ’ نئی الف لیلیٰ‘ کے نام سے شایع ہوا۔ایک اور مجموعہ’زندہ ہے زندگی ‘ کے عنوان سے منظر عام پر آیا ۔یہی مجموعہ اس وقت ہمارے پیش ِ نظر ہے۔اس میں محفوظ نظموں کو کئی شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
’ایک شاخِ نہالِ غم‘ میں وہ نظمیں ہیں جو ماضی کو یاد کرکے ،کھوئے ہوئوں کو کھو دینے کی الم ناکی کا اظہار کرتی ہیں ۔ایک نظم انہوں نے اپنی والدہ اور ایک اپنی بہن کے لیے لکھی ہے ۔’خدا ہمارا ہے ‘ میں وہ نظمیں ہیں جن میں ارد گرد کی ابتلاء،اپنے ہم وطنوں پر ٹوٹنے والے مظالم،معاشرے کی منافقتوں ،انسان کو شکست دینے کے آرزومندوں کی بے باکیوں اور اچھائیوں کو پامال کردینے کے خواب دیکھنے والوں کا ذکر ہے ۔
پاکستانی معاشرے کی تلخ حقیقتوں کو زبان دینے کے بعد ا ن کی نظموں کاا گلا شعبہ ’یہ خوشبو مَر نہیں سکتی ‘ کے عنوان سے مرتب ہوا ہے ۔اسی میں ان کی وہ نظم شامل ہے جس پر اس شعری مجموعے کا نام رکھا گیا ہے ،یعنی ’زندہ ہے زندگی‘ ۔
احفاظ الرحمن ہم عصر سیاسی واقعات کو تاریخ کے تناظر میں رکھ کر دیکھتے ہیں ۔ماضی اور حال کا ارتباط کئی تضاد ان کے سامنے لے آتا ہے ۔چین کے لانگ مارچ کی تاریخ سے واقف احفاظ الرحمن نے ایک اور لانگ مارچ کے بارے میں جو شاید اُن کے ارد گرد ہی کہیں ہوا تھا،اپنی نظم ’شارٹ کٹ ۔۔۔۔۔۔لانگ مارچ‘ میں کہا؎
قیس اور فرہاد کیا اس درجہ بے مایہ ہوئے ؟
دشت پیمائی کی منزل اس قدر آسان ہے ؟
جوئے شیریں تک رسائی اس قدر آسان ہے ؟
٭٭……٭٭……٭٭
خواب اچھے جیب میں ہوں ،اس پہ پابندی نہیں
سستے سکّوں کی مگر یاں رہ گزر کوئی نہیں
لفظ کی بازی گری دنیا پلٹ سکتی نہیں
شارٹ کٹ کوئی نہیں ،یہ ہفت خواں کی راہ ہے
’خیالوں سے بھری آنکھیں، سوالوں سے بھری آنکھیں ‘ ان نظموں پر مشتمل ہے جن میں امید کی باتیں ہیں،کشمکش ِ حیات کی طرف اشارے ہیں ،سیاسی راستے میں ہونے والی غلطیوں پر سوال ہیں ۔انسانی بے بسی کے تذکرے ہیں اور پھر نئی پھلواریوں کو سیراب کرنے اور یتیموں اور یسیر بچوں کے لیے نئی لوریوں کی بازگشت ہے۔کچھ نظمیں ان دلدار اور طرح دار انسانوں کے لیے ہیں جن کا ہونا شاعر کے لیے ذاتی طور پر بھی بہت معنی رکھتا تھا ۔شوکت صدیقی ایسے ہی بزرگوں میں شامل تھے ۔اس شعبے کی ایک نظم ہے ’خوشی بچوں کی دل نگری میں رہتی ہے ‘۔نظم خوشیوں کو سچائی کا حاصل قرار دیتی ہے ۔
’زندہ ہے زندگی ‘ کا اگلا حصہ جن نظموں پر مشتمل ہے اُن پر ’زور آور کی خدائی ‘کی سرخی لگائی گئی ہے۔یہ استعمارکی چیرہ دستیوں اور سامراجی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کرتی اور ان کے خلاف دنیا کے مقہور اور مجبور انسانوں کی مزاحمت کی نظمیں ہیں ۔ان نظموں کے عنوان ہی ان کے مضمون کو واضح کردیتے ہیں ۔’نیو ورلڈ آرڈر‘،’ویلکم امریکہ ‘، ’فرشتہ امن کا آیا ‘ ،’دہشت گرد امریکہ ‘ ،’فرات آخر کہاں ہے ؟ ‘ ،’کولیٹرل ڈیمیج ‘،’سر تسلیم خم کردو‘،’ننھی پلوشہ کی فریاد /قندھار سے ‘ ان نظموں میںاحفاظ الرحمن نے معاصر صورت حال کی اندوہ ناکیوں کو بیان کیا ہے۔وہ ایک کہنہ مشق صحافی تھے مگر انہوں نے اِن موضوعات کو برتتے وقت اِن کوصحافت نہیں بننے دیا ۔
پڑھنے والا ان نظموں میں کارفرما فنی جمالیات اور شاعرانہ تہہ داری کو باآسانی محسوس کرسکتا ہے۔ان کے مجموعے کا آخری حصہ ’غلامی ،ظلم اور ناانصافی ‘کے موضوع پر ان نظموں پر مشتمل ہے جن میں انہوں نے دوسری زبانوں کے شعرا کی منتخب نظموں کو اپنے پیرائے میں بیان کیا ہے ۔اس حصے میں ہمیں حوزے مارتھی،جان لینن ،باب ڈیلن جیسے شعراء کی باغیانہ نظموں کو پڑھنے کا موقع ملتا ہے ۔ان نظموں کا ترجمہ احفاظ الرحمن نے اس احساس کے ساتھ کیا ہے کہ غلامی ،ظلم اور ناانصافی کے خلاف سب درد مند دل ایک ہی ساز پر دھڑکتے ہیں ۔انہوں نے ساحر لدھیانوی کا شعر بھی درج کیا ہے؎
ہم پہ ہی ختم نہیں مسلکِ شوریدہ سری
چاک دل اور بھی ہیں،چاک قبا اور بھی ہیں
احفاظ الرحمن کی شاعری پر بات کرتے وقت بچوں کے لیے ان کی لکھی گئی نظموں کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔یہ نظمیں غیر معمولی سوچ بچار کے بعد لکھی گئی معلوم ہوتی ہیں کیونکہ ان میں ایک بالکل مختلف ہی احفاظ الرحمن ہمارے سامنے آتے ہیں ۔بچوں کے لیے لکھی گئی اُن کی شاعری کی فضا بہت شاداب اور یقین افروز ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی بہت پیار بھرے لہجے میں باغ میں کھلتی ہوئی نئی کلیوں سے گفتگو کررہا ہے۔وہ بچوں سے بچوں کی سطح پر آن کر بہت دھیمے انداز میں بات کرتے ہیں ۔
وہ بچوں کو انسانی رشتوں کی اہمیت ،تمیز اور تہذیب کی باتیں اور زندگی کی خوبیوں کے بارے میں بتاتے ہیں ۔یہی نہیں بلکہ وہ بچوں میں غریبوں سے ہمدردی اور غربت کو ختم کرنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔بچوں کے لیے اُن کی نظموں کا مجموعہ’تتلی اور کھڑکی‘ پڑھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان کے اندر بیدار ہوتے ہوئے شعور کو خوش آمدید کہتے ہوئے اُس کو زندگی کی خوبیوں،رشتوں کی مٹھاس اور نباتات اور حیوانات کی محبت سے ہم آہنگ کررہے ہیں۔
احفاظ الرحمن کی علمی و ادبی خدمات کا ایک اہم دائرہ اور ہے جس کی طرف عام طور سے ہماری نظر نہیں جاتی ۔یہ چین کی تاریخ ، سیاست اور چینی ادبیات کے موضوع پر اُن کی تصنیف و تالیف کا دائرہ ہے۔ انہوں نے زمانۂ قدیم سے جدوجہد آزادی تک کی چینی تاریخ کا ترجمہ کیا۔’تاریخِ چین (مختصر) زمانۂ قدیم سے جدوجہد آزادی تک‘ نامی اس کتاب کا چینی سے انگریزی میں ترجمہ ہوا ۔احفاظ الرحمٰن نے اس کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا نیز انھوں نے لانگ مارچ کے بارے میں چین کے ایک مصنف چھن چھانگ فن کی کتاب ’چیئر مین مائو کے ساتھ لانگ مارچ ‘کو اردو کا جامہ پہنایا۔اسی طرح چواین لائی کی سوانح کو اردو میں منتقل کیا۔’عظیم مدبّر اور انقلابی چو این لائی (سوانحی تذکرہ ) ‘نامی اس کتاب کے مصنفین فانگ چو چھنگ اور چیانگ کوئی نونگ ہیں۔
احفاظ الرحمٰن کی ترجمہ نگاری کے توسط سے یہ کتاب اردو کے قارئین کے لیے ایک اہم عالمی مدبر اور ایک اہم عہد کی تفہیم کا ذریعہ بن گئی ہے۔ انھوں نے چینی ناولوں،افسانوں اور بچوں کی کتابوں کو بھی اردو کے قارئین کے مطالعہ کا حصہ بنایا۔ وہ اردو اور چینی، دونوں زبانوں کی لفظیات ہی پر عبور نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ دونوں زبانوں کی تہذیب سے بھی بخوبی واقف تھے۔چنانچہ ان کے تراجم پڑھتے وقت سوائے نامانوس چینی ناموں کے اور کوئی چیز پڑھنے والے کی را ہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔
اُن کی معرکتہ الآرا تصنیف ’’سب سے بڑی جنگ ‘‘ ایک جدوجہد کی تاریخ بھی ہے اور اس کا رپورتاژ بھی ۔انہوں نے کتاب کے پیش لفظ کو ’چاہت کا چمن‘ کا عنوان دیا تھا اور لکھا تھا کہ _’اس کتاب سے آپ کے دل میں زندگی کے لیے لڑنے کا جذبہ توانا ہوتا ہے ،آزادی ٔ اظہار کو سرسبز رکھنے کی امید سر اٹھاتی ہے تو میں کہوں گا کہ میری اور میرے ساتھیوں کی چاہت کے چمن کی خوشبو بے تاثر نہیں ہے ‘۔
غور سے دیکھا جائے تو گندم کے کھیت ہوں یا بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ ،برصغیر میں دونوں طرف دیکھے جانے والے امن کے خواب ہوں یا ’زندہ ہے زندگی‘ کی شاعری یا پھر چاہت کے چمن_ان سب کا محور ایک ہی ہے _ زندگی کے لیے لڑائی ۔احفاظ الرحمن نے یہ لڑائی خوب لڑی اور لڑتے لڑتے ہی اپنی زندگی کا سفر تمام کیا ،مگر ہمارے لیے آگے بڑھتے رہنے کی راہ روشن کرگئے۔
سربُریدہ مسرتیں
سیاہ ہاتھوں کی جُنبشوں سے
اُبل رہے ہیں سیاہ منظر
سیاہ سینوں کی تیرگی پھر
اُگل رہی ہے سیاہ نشتر
سیاہ چہروں پہ رینگتا ہے
سیاہ خواہش کی چھپکلی کا سیاہ پیکر
سیہ دلوں کی سیہ لکیروں میں ناچتا ہے
سیاہ لالچ کا زہر پرور سیہ سمندر
سیاہیوں میں پلے بڑھے ہیں
سیاہیوں میں ڈھلے ہوئے ہیں
سیاہ کاری شعار ان کا
حَسَب نَسَب بے وقار ان کا
سیاہ بختی کمائی ان کی
جو ان کے ہاتھوں میں طشتِ زَر ہے
ہَوس کے شب خون کا ثمر ہے
ہزاروں لاکھوں الم نصیبوں کی
حسرتوں کے لہو سے تر ہے
ہر ایک دن عید اِن کا
ہر شب ،شب برأت سی ہے
مگر یہ مَیلی ،خراب و خستہ مسرتیں ہیں
یہ سربُریدہ، تہی بہ داماں،
سُراب آسا مسرتیں ہیں