سینیٹ کے انتخابی عمل میںاول تاآخربلوچستان کے ساتھ جوسلوک روارکھاگیا،ممکن ہے یہ بھی جمہوریت کاحسن ہولیکن اس کااندازسراسرنوآبادیاتی تھا۔ اور پھر اس کھیل کے آخری روزسینیٹ چیئرمین اورڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میںمسلم لیگ(ن)اوراس کے اتحادیوںکی تشہیری اکثریت سینکڑوں موجود تماشائیوںاورلاکھوںٹی وی ناظرین کے سامنے اقلیت ثابت ہوئی تودل سے بے اختیار واہ نکلا’’تم قتل کروہوکہ کرامات کروہو۔‘‘
دراصل ہم ہی کم نظرتھے جواندازہ نہ کرسکے اس زورِ باز و کا، جس کے کراماتی سلسلے کاآغازتواسی روز ہوگیاتھاجب ساڑھے چارسال گزرجانے کے بعدبلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے معززحکومتی اراکین کو ایک روزبیٹھے بٹھائے اچانک یادآیاکہ اس سارے عرصے کے دوران ،ان کے ساتھ توبہت ظلم وزیادتی ہوتی چلی آئی ہے اوران معززین نے اپنے ’’پہنچے ہوئے‘‘ صوبائی ترجمان کے توسط سے وزیراعلیٰ زہری کے خلاف فوراًعلمِ بغاوت بلندکردیا۔اگرچہ میڈیا پرمسلسل یہ بھی چرچارہاکہ ان معززینِ صوبائی اسمبلی کی آنکھیںدولت کی چمک سے چندھیاگئی تھیںلیکن میرے نزدیک یہ محض الزام ہے۔اگرمحترم دوست قیوم سومرواپنے چمکتے بریف کیس کے ساتھ مناسب وقت پرکوئٹہ پہنچے بھی تھے تو صرف’’اہلِ کرامات‘‘کے اس بھاری بوجھ کواپناکندھاپیش کرنے کے لئے، جس کی بنا پر ڈاکٹر سومرو کے باس جناب آصف زرداری یقیناً آج کل سب پربھاری ہیں۔ ورنہ وہ بھی وقت تھاجب 2015میںرضاربانی کو چیئرمین سینیٹ بنوانے کے بعداپنے وزن کااندازہ کئے بغیروہ انہی صاحبانِ کرامات کواینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے بیٹھے تھے۔ تب انہیں مجبوراً ملک سے باہر جانا پڑا اور مہینوںبیرون ملک گزارناپڑے تھے جس کے لئے وہ نواز شریف کوذمہ دارٹھہراتے ہیں کہ ’’میںنے توعمران خان کے دھرنے کے دوران پارلیمنٹ میںنوازشریف کا بھرپورساتھ دیالیکن نواز شریف نے مجھے ملنے سے انکار کردیااورپہلے سے طے شدہ ملاقات بھی منسوخ کردی حالانکہ میںنے اس کی حکومت کوگرنے سے بچایا تھا‘‘ اوروہ یہ بات پہلے بھی کئی باردہراچکے ہیں۔حالانکہ نوازشریف سے دوری ان کی پارٹی کے اندراس پریشر گروپ کامطالبہ تھاجوپیپلزپارٹی پرلگا’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کاوہ داغ مٹاناچاہتاتھاجوپی پی پی کے این آراوسے پہلے لندن میںمسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے مابین طے پانے والے میثاقِ جمہوریت کے نتیجے میں لگا تھا۔ اس میثاق کے ہوتے ہوئے2013کے عام انتخابات میں نواز لیگ نے توبے مثال کامیابی حاصل کی مگرپیپلزپارٹی صرف اندرونِ سندھ تک محدودہوکررہ گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کبھی پیپلزپارٹی کے ماتھے کاجھومرہواکرتی تھی مگر نواز شریف کی مخالفت اورمسلم لیگ سے مبینہ دوری کی تلاش میںپیپلزپارٹی آصف زرداری کی قیادت میں ہمارے ’’اہلِ کرامات‘‘کے اتناقریب آچکی ہے کہ سینیٹ کے انتخابی عمل کے دوران اس پراسٹیبلشمنٹ کے ہراول دستے کاگمان ہونے لگاتھا۔جب ڈاکٹرقیوم سومرو نے ایک ٹی وی شومیںانتہائی پُراعتمادلہجے میںیہ کہاکہ سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے لئے توہمارے57ووٹ ہوچکے اوراگلی شام جب بیلٹ بکس کھلا تو بعینہ (Exactly)اتنے ہی ووٹ برآمدہوئے‘ایک کم نہ ایک زیادہ۔
بہرحال سینیٹ کے انتخابی عمل (FACADE) میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اتنی دورنکل آئے ہیںکہ پیپلزپارٹی اپنی50سالہ زندگی میںاقتدارکے دوران یااقتدارسے باہرکبھی اس انتہاتک نہیںپہنچی تھی کہ پارلیمانی جمہوریت جوپیپلزپارٹی کی نظریاتی اساس ہے، اس کے حوالے سے پارٹی کی کمنٹ منٹ پرشبہات کے سائے منڈلانے لگیں۔یہاںپہنچ کرذہن میںمنطقی طورپرکچھ سوال جنم لیتے ہیں۔مثلا یہ کہ، پی پی پی کیااپنی نظریاتی اساس کوکھودینے کاخطرہ مول لے سکتی ہے؟یہ کہ آئندہ انتخابات کے ایجنڈے میں’وہ جب بھی ہوں‘آئین کی18ویںترمیم میںمزیدبنیادی ترامیم یااس کی تنسیخ اورصدارتی نظام کے نفاذکے اقدامات شامل ہوسکتے ہیں۔اگرہاں!تو اس صورت میں پیپلز پارٹی کہاںکھڑی ہوگی؟
دوسراسوال پیپلزپارٹی کا ایک ایسے صوبے کے انتخابی عمل اوراس سے قبل ہونے والی حکومت اوراسمبلی کی شکست وریخت میںبراہ راست ملوث ہوناہے جہاں پارٹی کی سیاسی موجودگی نہیں۔اورپھرپارٹی کی اعلیٰ ترین سطح پراس کاکریڈٹ بھی لیاگیا۔یہ عمل غیراخلاقی توہے لیکن کیاپیپلزپارٹی نے واقعی اس مشن میںدھن،دھونس اوردھاندلی کاارتکاب کیایاصرف کسی کابوجھ اپنے کاندھوں پر لیا۔ تو کیا دونوں صورتوں میں اسے صوبائی خودمختاری میںمداخلت قرار دیا جاسکتا ہے؟ اور کیاآئندہ ملک گیرعام انتخابات میںبھی زرداری صاحب کی پیپلزپارٹی یہی عمل دہراسکتی ہے جس کابلوچستان کے حوالے سے کریڈٹ لینے میںاس نے تاخیریاتامّل سے کام نہیںلیا۔
بلوچستان میں،حالیہ سینیٹ انتخابات کے سیاق وسباق میںاگرہم فیڈریشن کی دوسری دونوںبڑی سیاسی پارٹیوںکے عمل اورردعمل کاجائزہ لیںتووہاںکوئی خاص پیچیدگی یاانہونی نظرنہیںآتی۔مسلم لیگ(ن)اورتحریک انصاف کے حوالے سے جوکچھ سامنے آیاوہ غیرمتوقع نہیںتھا۔ہاں،لیکن ایک بات غیرمعمولی ضرورمگر خلافِ توقع نہ تھی اور وہ یہ کہ عمران خان بڑے کرّوفرکے ساتھ یہ بات بارباردہرارہے تھے کہ تحریک انصاف سینیٹ چیئرمین اورڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میںپیپلزپارٹی یامسلم لیگ (ن)کے امیدوار کوہرگزووٹ نہیںدے گی جو انہیں دیناپڑا۔یہ عمران خان کاایک اور بڑا یوٹرن تھا جس کے لئے انہیں بعد میں تاویلیں دینا پڑیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ وہ ابھی تک سیاسی بلوغت کے اس معیار کا مظاہرہ نہیںکرسکے جوایک بڑے سیاسی لیڈرکے لئے ناگزیر ہوتا ہے۔عمران خان کی مقبولیت کاگراف اگرنیچے آیا ہے تو کئی دوسرے عوامل کے ساتھ ان کی یہی سیاسی ناپختہ کاری بھی ہے جس کی بنا پرانہیںبارباریوٹرن لیناپڑتے ہیں۔
نوازشریف کوسینیٹ میںچیئرمین اورڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میںجس ناکامی کاسامناکرناپڑا،انہیںاس سے سبق توسیکھناہوگا لیکن یہ ان کے لئے حیران کن نہیںہوناچاہیے کہ’’ اس طرح توہوتاہے اس طرح کے کاموںمیں‘‘۔اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت،اداروںکی مخالفت اوربڑی سیاسی جماعتوںکی مخاصمت ان کی راہ میںحائل متوقع دشوارگزاررکاوٹیںہیںلیکن عوامی سطح پر وہ یقینا ًمقبول ترین سیاست دان ہیں۔ اس حیثیت سے کیاوہ سیاست کے اس خطرناک کھیل کو اسی تندہی سے اوردیرتک جاری رکھتے ہوئے کامیابی کی منزل تک پہنچاسکیںگے؟اس کافیصلہ تووقت نے کرناہے۔
سانپ سیڑھی کایہ کھیل توگزشتہ70برس سے جاری ہے اورنہ جانے کب تک جاری رہے گا !!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)