عالم اسلام اس وقت انتہاپسندی اور دہشت گردی جیسے فتنے سے جس طرح دو چار ہے ، اس کے حل کیلئے ہر سطح پر جدوجہد کی ضرورت ہے ، اور ہر سطح پر جدوجہد کی جانی بھی چاہیے ۔ 9/11 کے بعد جس طرح مسلم نوجوانوں کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی گئی اور عالمی قوتوں نے داعش جیسی تنظیموں کو منظم کرنا شروع کیاجیسے افغانستان کے جہاد کے دوران القاعدہ جیسی تنظیموں کو منظم کیا گیا تھا ۔ مسلم نوجوانوں کو گمراہ کرنے کیلئے قرآن و سنت کی تعلیمات کو اپنی مرضی کے معانی اور مفہوم دے کر ایسی آگ میں جھونکنے کی کوشش کی گئی جس کا مقصد قتل و غارت گری کے علاوہ کچھ اور نہ تھا ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی قوتوں نے انتہا پسند تنظیموں کو استعمال کیا ، لیبیا ، عراق ، شام ، افغانستان اور یمن تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے اور پاکستان نے اپنی مضبوط فوج اور قوم کی وجہ سے 80 ہزار جانوں کی قربانی کے بعد اس سازش پر قابو پایا۔عالم اسلام کی دشمن قوتیں یہ بات جانتی ہیںکہ مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد کا مرکز مکہ اور مدینہ ہے اور جب تک مسلمان قرآن و سنت اور سلف صالحین کی تعلیمات اور اپنے مقدسات سے جڑے رہیں گے اس وقت تک انہیں مکمل تباہی سے دوچا ر نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کی مضبوط فوجی اور پہلی ایٹمی قوت پاکستان کو ہدف بنانے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کو بھی ہدف بنایا گیا ہے اور مسلسل سعودی عرب میں انتشار پیدا کرنے کی کوششیں اور یمن کے حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب میں میزائلوں کے حملے اس سارے سلسلے کو واضح کر رہے ہیں ۔ ضروری ہے کہ عالم اسلام کے مقتدر قائدین نوجوان نسل اور عوام الناس کو انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے عفریت سے بچانے کیلئے قائدانہ کردار ادا کریں ۔ماضی میں اس حوالے سے پاکستان اور سعودی عرب کے علماء کے درمیان روابط کا ایک سلسلہ موجود ہے اور ایک مشترکہ بیان بھی چند سال قبل اس صورتحال پر پاکستان علماء کونسل کی طرف سے جاری کیا گیا تھا جس میں سعودی عرب کے مقتدر علماء اور پاکستان علماء کونسل کے قائدین نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے تمام پہلوئوں کی نفی کی تھی ۔ گزشتہ ہفتے امام حرم کعبہ الشیخ صالح بن محمد آل طالب پاکستان تشریف لائے اور انہوں نے پاکستان میں مختلف مذہبی جماعتوں کی طرف سے منعقد کیے گئے پروگراموں میں جن خیالات کا اظہار کیا ان سےواضح ہوا کہ عالم اسلام کو اور بالخصوص پاکستان اور سعودی عرب کو عالم اسلام کے استحکام ، بقا اور سلامتی کیلئے کیا کردار ادا کرنا ہے ۔ امام حرم کعبہ الشیخ صالح بن محمد آل طالب کے بارے میں اہل علم کی رائے یہ ہے کہ وہ دین اور دنیا دونوں کے بارے میں نہ صرف علم رکھتے ہیں بلکہ فکر اور سوچ کے حوالے سے وہ وسیع ذہن اور ظرف کے مالک ہیں، اور اسی طرح پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف سعید المالکی جو کہ پاکستان کو پاکستانیوں کی طرح جانتے ہیں اور پاکستان میں ایک عرصہ سے رہنے کی وجہ سے وہ پاکستان کے نہ صرف تمام مکاتب فکر کی سوچ سے آگاہ ہیں بلکہ پاکستان کی انتہا پسندی اور دہشت گرد ی کے خلاف جنگ کو قریب سے دیکھتے ہیں اور دیکھ چکے ہیں۔اسی طرح سعودی عرب سے وزارت مذہبی امور کے وکیل الشیخ عبد الرحمن الغنام اور الشیخ محمد بن سعد دوسری کا پاکستان آنا اور مختلف مذہبی قائدین سے ملاقاتیں کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ سعودی عرب انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے پاکستان کے حالات اور معاملات کو نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان عالم اسلام کے مصائب اور مسائل کے خاتمے کیلئے بھی ایک بھرپور اور مشترکہ کردار کی مستقبل میں ضرورت ہے ۔امام حرم کعبہ نے پاکستان میں جن امور کی طرف نشاندہی کی ہے ان میں سر فہرست مسلم دنیا کا اتحاد اور نوجوان نسل کو حقیقی قرآن و سنت کی تعلیمات سے آگاہی کی طرف لے کر جانا اور ان کو اپنے اسلاف سے جوڑنا ہے اور یہی وہ دو باتیں ہیں جن کی کمی اس وقت عالم اسلام میں پائی جا رہی ہے۔ نوجوان نسل کو انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں سے بچانا یہ معاشرے کے تمام طبقات کی ذمہ داری ہے ، صرف مذہبی قائدین پر ہی اس کی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی بلکہ مذہبی و سیاسی جماعتوں اور قوت نافذہ رکھنے والے اداروں کو بھی اس سلسلہ میں واضح پالیسیاں اپنانی ہوں گی۔ امام حرم کعبہ کی موجودگی میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ڈاکٹر احمد یوسف الدرویش کی سربراہی میں علماء کرام کے ساتھ بھی ایک نشست کا اہتمام کیا گیا، جس کا عنوان تھا ’’قرآن و سنت کی رو سے میانہ روی کی ترویج و اشاعت‘‘ ، امام حرم کعبہ اور ڈاکٹر یوسف الدرویش کے علاوہ راقم الحروف کو بھی اس پر بات کرنے کا موقع ملا ، جس میں اس بات کو واضح کیا گیا کہ قرآن و سنت کی تعلیمات ہمیں اعتدال کا حکم دیتی ہیں اور قرآن و سنت ہمیں زندگی کے تمام پہلوئوں میں اعتدال کی طرف راغب کرتا ہے ۔ امام حرم کعبہ نے اپنے خطاب میںکہا کہ مسلمانوں کی وحدت کے مرکز مکہ اور مدینہ کی طرح اسلامی دنیا میں رواداری ، اخوت اور محبت کے رویے اپنانے کی ضرورت ہے ۔ حرمین الشریفین اور مشاعر مقدسہ میں کوئی کسی سے یہ سوال نہیں کرتا کہ اس کا عقیدہ کیا ہے اور وہ کس مسلک سے تعلق رکھتا ہے بلکہ ایک امام کے پیچھے لاکھوں لوگ نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں اور اسی طرح طواف بیت اللہ اور زیارت روضہء رسول ؐ کے موقع پر بھی کسی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ والا کس مسلم مکتب فکر سے ہے اور اس کے افکار و نظریات کیا ہیں؟ افسوس کی بات ہے کہ ایسی وحدت اور اتحاد کی صورتحال دوسرے اسلامی ممالک میں نہیں دیکھی جاتی اور بالخصوص اگر ہم وطن عزیز پاکستان کی بات کریں تو بڑے دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑے گی کہ یہاں پر بھی مساجد سے لے کر مدارس تک جس انداز میں تقسیم ہے وہ لمحہ فکریہ ہے۔ امام حرم کعبہ کے دورے کے دوران سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور الشیخ صالح آل شیخ کا پیغام بھی پاکستان میں پہنچایا گیا جس میں انہوں نے عالم اسلام کے موجودہ حالات اور بالخصوص پاکستان کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے وحدت اور اتحاد کے جس درس کا قرآن و سنت کی روشنی میں ذکر کیا وہ ہی حقیقتاً مشعل راہ ہے ، ذاتی اختلافات کو مذہب کا رنگ دے دینا اور اپنی جماعت ، قبیلے اور اپنی سوچ اور فکر کو اسلام کے نام پر دوسروں پر مسلط کرنا اس کا خاتمہ وقت کی ضرورت ہے ۔ امام حرم کعبہ کے دورہ سے اتحاد اور وحدت کے پیغام اور پاک سعودی عرب تعلقات کو تقویت ملی ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مسلمانوں کی عقیدت ، احترام اور وحدت کا مرکز مکہ اور مدینہ ہے اور جب مکہ اور مدینہ سے وحدت کی صدا بلند ہو گی تو اس کے اثرات نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام پر مرتب ہوں گے ، امام حرم کعبہ الشیخ صالح بن محمد آل طالب نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، صدر ممنون حسین سے بھی ملاقات کی، ان ملاقاتوں میں امام حرم کعبہ نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پاک فوج کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی دوستی پاکستان کے ساتھ ہے ، سعودی عرب کیلئے پاکستان کی تمام جماعتیں ، تمام افراد محترم ہیں ، یہ دو قوموں کی دوستی ہے جو ایمان ، عقیدے اور احترام پر مبنی ہے اور جس میں کوئی دوری پیدا نہیں کر سکتا۔ امام حرم کعبہ نے پاکستان علماء کونسل لاہور کی دعوت پر ایک مقامی ہوٹل میں عصرانے سے بھی خطاب کیا جس میں انہوں نے عالم اسلام کے مسائل اور علماء کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ۔ اس طرح کے دورے وقت اور حالات کی ضرورت ہیں ۔ میں پاکستان میں سعودی عرب کے سفارتخانے بالخصوص سعودی عرب کے سفیر نواف سعید المالکی کے اس کردار کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جس میں انہوں نے کوشش کی کہ امام حرم کعبہ سے تمام مکاتب فکر کی قیادت کی نہ صرف ملاقات ہو بلکہ انہیں امام صاحب کے ساتھ گفتگو کرنے اور خیالات کا اظہار کرنے اور امام حرم کعبہ کے خیالات سننے کا موقع ملے اور یہی وہ سوچ و فکر ہے جو اس وقت سعودی عرب کی موجودہ قیادت خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ان کے ولی عہد امیر محمد بن سلمان کی ہے کہ مملکت سعودی عرب سب مسلمانوں کا مرکز ہے کسی مخصوص طبقہ یا سوچ رکھنے والوں کا نہیں۔
(صاحب مضمون: چیئرمین پاکستان علماء کونسل ہیں )
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)