• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 باجوہ ڈاکٹرائن : قومی چیلنجز کا حل کیسے؟

70سالہ تجربات اور اونچ نیچ سے گزرنے کے بعد مقتدر حلقے وطن پرستی سے حقیقت پسندی کے نظریے تک پہنچ چکے ہیں موجودہ چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ڈاکٹرائن میں پڑوسیوں کے ساتھ امن وتعاون کو بنیادی اہمیت دی جارہی ہے۔باجوہ ڈاکٹرائن کا آغاز دلیل اور منطق سے کام لینے والے جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی قابل فوجی ٹیم نے طویل سوچ وبچار کیا اس ٹیم کو اس بات کا شدت سےاحساس ہے کہ بدلتے ادوار میں ملک کی پالیسیاں بھی جدید دور کی ضرورتوں کے مطابق تشکیل دی جانی چاہئیں۔

فوجی کمان ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں بہت واضح رائے رکھتی ہے اور اس پر کسی شب خون مارنے کے حق میں نہیں اسی طرح 1973ء کے آئین پر متفق ہونے اور اسی کے مطابق ملک چلانے کے حوالے سے بھی کوئی دوسری رائے نہیں۔

سالہاسال کے مجموعی عسکری تجربے کے مطابق یہ بات بھی طے ہے کہ دہشت گردی کا واحد اور مستقل حل قانون کی حکمرانی ہے۔قانون کی حکمرانی سب کیلئے برابری کا تقاضا کرتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق ملکی استحکام کیلئے سول اداروں جیسا کہ پولیس ،سول سروسز اور سول خفیہ اداروں کی صلاحیت میں اضافہ کیاجائے گا۔یہ ڈاکٹرائن تمام مسلح جتھوں کو ختم کرکے ہتھیار رکھنے کا اختیار صرف حکومت کو دیناچاہتاہے۔

بین الاقوامی ویژن؟

جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ جرات مندانہ اقدام ہے کہ انہوں نے افغان مقتدر حلقوں کو واضح انداز میںبتا یا ہے کہ پاکستان افغانستان میں کسی قسم کے توسیعی ارادہ نہیںرکھتا۔یہ ڈاکٹرائن واضح طور پر اس غلط تاثر کی بھی نفی کی جارہی ہے کہ پاکستان افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانا چاہتاہے ۔

 باجوہ ڈاکٹرائن اپنے مغربی بارڈر پر مکمل امن چاہتاہے اور یہ بھی کہ ہم کوشش کرکے ایران اور افغانستان کو ماضی کی طرح اپنا اتحادی بنائیں۔ جنرل باجوہ نے گزشتہ تھوڑے ہی عرصے میں بھرپور انداز میں سعودی عرب،قطر اور امریکا کے ساتھ گہری دوستی کے رشتے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی ان میں اکثر رکاوٹیں نواز حکومت کی مخالفت کیوجہ سے پیدا ہوئی تھیں۔

 جنرل باجوہ کی کامیاب باہمی تعاون کی سٹریٹجک حکمت عملی کی وجہ سے یہ ممالک دوبارہ سے دوست بن گئے ہیں جن کے مفادات بعض مواقع پرباہمی لڑائی کی وجہ سے متضاد تھے اور کئی دفعہ ان کے مفادات باہم ٹکراتے بھی رہے تھے۔

باجوہ ڈاکٹرائن پڑوسیوں میں نفرت پھیلاکر انہیں عدم استحکام سے دوچار کرنے پر یقین نہیں رکھتابلکہ پاکستان کو دنیا میں ایک مستحکم اورپر امن ملک کے طور پر پہچانے جانے کا خواہاں ہے۔

 لیکن اگر کوئی بھی ملک پاکستان کو اکسانے یا دبائو میں لانے کی کوشش کرے تو یہ پورے زورِ بازو کے ساتھ دشمن کو منہ توڑجواب دینے کی اہلیت بھی رکھتاہے۔یہ نظریہ اس بات پر بھی کامل یقین رکھتاہے کہ دونوں ایٹمی طاقتوں یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوسکتی۔

 باجوہ ڈاکٹرائن : قومی چیلنجز کا حل کیسے؟

اس کے خیال میں ہٹ دھرم، ضدی اور متشدد مودی حکومت سے مذاکرات بعد از قیاس ہیں لیکن دو تین سال کے اندر خود بھارت کو یہ احساس ہوجائے گا کہ پاکستان کے ساتھ پرامن مذاکرات ناگزیر ہیں۔وہ وقت آنے تک بھارت کے خلاف کسی جارحانہ انداز کو اپنانے کی بجائے پاکستان اس وقت تک انتظار کرنے کو ترجیح دے گا ۔

یہ نظریہ امریکہ کے ساتھ تعلقات جاری رکھنے پربھی اتفاق کرتاہے لیکن پاکستان موجودہ صورتحال میں پاکستان افغانستان کی سرحدوں کے اندر کسی بھی جنگ اور لڑائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی

باجوہ ڈاکٹرائن (دبستان باجوہ)کی توجہ کا پہلا نقطہ ملکی تحفظ ہے اور یہ نظریہ ملک کو دہشت گردی سے مکمل طور پر پاک کرنے پر یقین رکھتا ہے۔یہ نظریہ اس بات کو بھی یقینی بناناچاہتا ہے کہ دہشت گردوں کو ملک میں محفوظ پناہ گاہیں مہیا نہیں کی جائیں گی ۔اس نظریے کی واحد اوراولین تر جیح پاکستان ہے۔

ماضی کے غلط تاثر یعنی اچھے اور برے طالبان کے درمیان تفریق اس کے نزدیک فرسودہ خیال ہے۔موجودہ فوجی قیادت ہرطرح کی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی مہارت حاصل لڑ چکی ہے۔جنرل قمر باجوہ اور انکی ٹیم کا کا اولین مقصد پر امن اور خوشحال پاکستان ہے ۔

وہ عسکریت پسند گروپوں کو مکمل طور پر غیر مسلح کر کے مرکزی دھارے میں لانا چاہتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے آئرلینڈ اور دوسرے متاثرہ ملکوں نے مخالف جنگجو گروپوںسے لڑائی کو مثالی طریقے سے نمٹایا اور ان گروپوں کو مین سٹریم سیاست میں لے آئے۔

جنرل باجوہ نے افغانستان کے صدر سے ملاقات کی اور کہا کہ پہلے قدم کے طور پر سب سے پہلے دونوں ملکوں کو ایکدوسرے کے خلاف استعمال ہونے سے گریز کرنا ہوگا۔پاک افغان بارڈر پر سرحدی باڑ لگانا باجوہ ڈاکٹرآئین کی شاندار کامیابی ہے جو دونوں ہمسایہ ممالک کے بہترین مفاد میں ثابت ہوگی۔

باجوہ ڈاکٹرائن علاقائی امن کے لئے بھی کوشاں ہے ۔یہ ڈاکٹرائین مسئلہ کشمیر پر کوئی بھی سمجھوتہ کئے بغیر مذاکرات کے لئے تیار ہے۔باجوہ ڈاکٹرائن بین الاقوامی حالات سے مکمل طور پر واقف اور ان معاملات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے ۔جنرل باجوہ خود اقوام متحدہ امن فورس میں تعیناتی کے دوران مختلف قوموں کے ساتھ مذاکرات کا حصہ بھی رہے ہیں۔

یہ ڈاکٹرائن امریکہ اور کینیڈا کے تجارتی تعلقات کا تجزیہ کررہاہے کہ کس طرح ابتدائی طور پرکینیڈا کو خسارے کا سامنا تھا لیکن اب وہ منافع میں ہے۔یہ مثال پاکستان کو چائنا اور بھارت کے ساتھ مستقبل میں تجارتی راستے کھولنے کیلئےمواد فراہم کرسکتی ہے۔یہ ڈاکٹرآئین امریکہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے اور متنازع مسائل پر انکے ساتھ کام کرنے کو بھی تیار ہے۔

باجوہ دبستان اپنے سابق اتحادی امریکہ کے ساتھ کسی بالواسطہ اور بلا واسطہ جنگ کرنے کے نظریے کی مکمل طور پر نفی کرتا ہے اور مسائل کو مذاکرات کے ذریعے احسن طریقے سے حل کرنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔باجوہ دبستان نے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کیلئے جانفشانی سے کام کیا ہے جس کی مثال جنرل باجوہ کا دورہ ایران اور ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف کا جوابی دورہ پاکستان ہے جو کہ نہایت فائدہ مند تصور کیا جا رہا ہے۔نوازشریف کے دورحکومت میں پاک سعودی تعلقات کو جنرل باجوہ کے ذریعے موثر طریقے سے حل کیا گیا۔

اس حوالے سے خود نواز شریف نے خودجنرل باجوہ کو اس معاملے میں کردار ادا کرنے کو کہا۔موجودہ فوجی کمان نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات کو بھی معمول پر لانے میں اہم کردار کیا ہے نوازشریف کے دور حکومت میں ایکسپو 2020میں متحدہ عرب امارات کی بجائے ترکی کو ووٹ دینے کی وجہ سے تعلقات خراب ہوگئے تھے۔اب قطر اور متحدہ عرب امارات ،سعودی عرب اور ایران سب کے ساتھ بہتر تعلقات بن چکے ہیں۔

کمانڈ کی اصلی جڑیں

جنرل قمر جاوید باجوہ ویسے توپاکستان کی اعلیٰ ترین پروفیشنل ملٹری کمانڈ کا تسلسل ہیں مگر وہ مختلف بھی ہیں جیسا کہ امریکی صدر ووڈرو ولسن تھے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں امن کیلئے لیگ آف دی نیشن کا منصوبہ دیاتھا۔ ان کی فکر اور تعلیم و تربیت کو اس نظر سے دیکھاجاناچاہئے ۔جنرل باجوہ ایک بہادر جرنیل ہیں جو دشمنوں سے لڑنے کیلئے ہر وقت تیار ہیںلیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ رحم دل بھی ہیں جو دنیا کو وڈروولسن کی طرح امن کی آماجگاہ دیکھناچاہتے ہیں۔

 باجوہ ڈاکٹرائن : قومی چیلنجز کا حل کیسے؟

سیاسی نظریہ کیاہے؟

تمام عظیم ڈاکٹرائینز کی طرح اس نظریے میں بھی کچھ خامیاں پائی جاتی ہیں۔بعض اہم اور متنازع مسائل پر اس ڈاکٹرائن میں سادہ لوحی کا شائبہ نظر آتاہے۔ادارے کی محبت میں کچھ بھولے پن یاسادگی سے بھی کام لیا جاتا ہے۔بعض اوقات ان خام کہانیوں پر یقین کرلیاجاتا ہے جو انکے انٹیلی جنس سسٹم کی جانب سے پیش کی جاتی ہیں۔

ان معمول کی خامیوں کے باوجود باجوہ ڈاکٹرآئین اس بات پر مکمل یقین رکھتا ہے کہ پانامہ جے آئی ٹی مکمل طور پر غیر جانبدارتھی۔ عدلیہ پر ایجنسیوں کی جانب سے کوئی دبائو نہیں تھا۔لہذا باجوہ ڈاکٹرآئین واضح طور پریہ تاثر دیناچاہتاہے کہ فوج کا سیاست میں براہ راست کوئی کردار نہیں اور نواز شریف کونکالے جانے میں بھی فوج کانام نہیں لیاجانا چاہئے۔

اس سوچ کے مطابق پانامہ نوازشریف پر حادثاتی طور پر نازل ہو ا ہے اور فوج نے عدالتی فیصلہ نواز شریف کے خلاف دلانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ جنرل باجوہ نے چیف آف آرمی سٹاف بننے کے بعد حکومت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ پانامہ فیصلے کے علاوہ ہر طرح سے حکومت کا ساتھ دیں گے۔

ایک غیرمصدقہ اندازے کے مطابق پانامہ تفتیش کا 70فیصد مواد خود نوازشریف کے قریبی اور عزیز ساتھیوں کی جانب سے مہیا کیا گیا تھا جبکہ باقی 30فیصد موادخود جے آئی ٹی کی جانب سے اکٹھا کیا گیا۔یہ ڈاکٹر آئن اس حقیقت سے بھی مکمل طور پر آگاہ ہے کہ بعض ممالک کوخود شریف خاندان سے شکایات تھیں اور انہوں نے اسی وجہ سے شریف خاندان کے خلاف ثبوت فراہم کئے تھے۔

جبکہ حال ہی میں برطانیہ نے بھی شریف فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کی رپورٹ فراہم کی ہے۔جب سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنائی تو جنرل باجوہ سپریم کورٹ کو لکھنا چاہتے تھے کہ آرمی افسروں کو جے آئی ٹی کا حصہ نہ بنایا جائے۔لیکن انہوں نے ایسا اس حقیقت کے پیش نظر نہیں کیا کہ کہیں عدالت اس کو تفتیشی عمل کوروکنے کے زمرے میں تصور نہ کرے۔

دبستان باجوہ اس حوالے سے نرم رویہ رکھتاہے اور یہ ضیاء دور حکومت میں ہونے والی ظلم و زیادتی کو دہرانا نہیں چاہتا۔اور نہ ہی کسی فاروڈ بلاک کی ذریعے معاملات کو چلاناچاہتے ہیں۔یہ سختی سے ہر قسم کی ظالمانہ قوتوں کواستعمال کرنے کے مخالف ہیں۔ 

جنرل باجوہ نرم طبیعت کے مالک ہیںوزیر اعظم نواز شریف نے ایک بار شکایت کی تھی کہ جے آئی ٹی کے ممبر ایک بریگیڈئر کا رویہ میاں طارق شفیع کے ساتھ کافی سخت اور ترش تھا تو جنرل باجوہ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس قسم کی شکایت دوبارہ نہ ہو۔

یہ تاثر بھی ابھر رہاہے کہ 18ویں ترمیم کی منظوری صوبوں اور فیڈریشن کے درمیان عدم توازن کی اہم وجہ بن رہی ہے۔صوبوں کے پاس ہائر ایجوکیشن کمیشن کو سنبھالنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے اور نہ ہی امن و امان کی خراب صورتحال سے نمٹنے کا کوئی فارمولا ہے مگر انہیں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اختیار دے دیاگیاہے۔

اٹھارویں ترمیم کو شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات سے زیادہ خطرناک سمجھاجارہاہے ۔کیونکہ اس ترمیم سے پاکستان ایک فیڈ ریشن کی بجائے کنفیڈ ریشن بن گیاہے۔جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم جمہوریت کیساتھ مضبوط وابستگی کی حامل ہے مگر جنرل باجوہ روم کے اس نیرو کیطرح یاد نہیں رکھاجاناچاہتے کہ جب روم جل رہاتھاتو نیرو بانسری بجارہاتھا۔ 

خادم حسین رضوی کے اسلام آباد دھرنے میں جب لوگوں نے ن لیگی نمائندوں کے گھروں پر حملہ کرناشروح کیا تو ایسے حالات تھے کہ مارشل لاء نافذکر دیاجائے لیکن جنرل باجوہ نے جمہوریت پر یقین کے باعث ایسا نہیںکیا اور فوراً ملک واپس آکر ملک کو سنبھالا۔یہ ڈاکٹرائن سپریم کورٹ اور دوسرے اداروں کیساتھ کھڑا ہے کیونکہ آئین کا آرٹیکل 68 انہیں اسکا پابند کرتاہے۔

مالیاتی معاملات میں بہتری کیسے؟

چوٹی کے مالیاتی ماہرین نے اسحاق ڈار کی معاشی حکمت عملی کو مسترد کر دیا ہے ان کے خیال میں اس سے ریاست کو بہت نقصان پہنچا ہے اور نئے آنے والے مفتاح اسماعیل کی حکمت عملی بہت بہتر نظر آرہی ہے ۔مالیاتی ماہرین کے مطابق آصف علی زرداری کے دورمیں تیل کے بحرا ن کے علاوہ معاشی حالت خراب تھی مگر موجودہ دور کے مالیاتی اعدادوشمار تو آصف زرداری کے دور سے بھی بدتر ہیں ۔

آصف علی زرداری کے دور میں برآمدات میں اضافہ ہوا جبکہ اسحاق ڈار اپنی غلط حکمت عملی کی بدولت روپے کی قیمت مناسب سطح پرلانے میں ناکام رہے جس سے برآمدات گر گئی ۔ تاثر یہ ہے کہ سیاسی حکومتوں نے غلط ترجیحات اختیار کیںموٹر وے اور میٹرو پہ مسلسل پیسہ ضائع کرنے کی بجائے ملک میں مالیاتی اور تعلیمی ایمرجنسی لگانااہم ہوتاہے۔ 

یہ بات بہت ناگواری سے دیکھی جارہی ہے کہ ہر سال 120 ارب بینظیر انکم سپورٹ میں ضائع کئے جاتے ہیںاس خیرات سے نہ لوگوں کی معاشی حالت ٹھیک ہوگی نہ ملک کی بہتر ی ہوگی اس رقم کو ترقیاتی مقاصد کیلئے استعمال کیاجائےتو زیادہ بہتر ہوگا۔

تاریخی جھلک:

کسے علم نہیں کہ پاکستان میںترقی پانے والے جرنیلوں کا انتخاب ذات پات نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر کیاجاتاہے۔ستر سالہ تاریخ میں جنرل باجوہ پہلے جنرل ہیں جو جاٹ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ہیں۔ ان سے170سال پہلے آخری جاٹ جنرل شیر سنگھ اٹاری والا نے ضلع گجرات میں چیلیاںوالا کے مقام پر بہادری سے انگریزوں کیخلاف جنگ لڑی ۔

 وہ سندھو قبیلے کے جاٹ تھے جبکہ قمر جاوید باجوہ جاٹ ہیں۔ انگریز حکمرانی کی لمبی تاریخ میں چلیاں والا وہ واحد لڑائی تھی جس میں انگریزوں کو شکست ہوئی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لڑائی میں شیر سنگھ سکھ فوج کے سپہ سالار تھے مگر ان کی فوج میں 1500 افغان مسلمان دوست محمد خان کی قیادت میں شریک تھے۔ 

بعد ازاں جنرل شیر سنگھ نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اورفرانسیسی ہیرو نیپولین بونا پارٹ کی طرح ہتھیار ڈال دئیے اوراسکی موت تک نپولین اور بہادر شاہ ظفر کی طرح جلاوطن کردیاگیا۔شیر سنگھ کی وفات جلاوطنی کے دوران وہیںبنارس میں ہوئیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کی والدہ کا تعلق بھی اسی ضلع گجرات سے ہے جہاں چلیاں والاکی آخری اور فیصلہ کن لڑائی ہوئی تھی۔

پاکستان کے16 ویں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا تعلق آرمی کے 62 ویں کورس سے ہے آرمی چیف کا انتخاب نسلی اور علاقائی تعصب سے بالا تر ہو کر میرٹ پر کیا جاتا ہے ۔اگر آرمی چیف کے علاقوں، قبیلوں اور ذاتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ آرمی میں رنگ و نسل کی بنیاد پر کتنی وسعت اور تنوع پایاجاتاہے ۔پاکستان میں اب تک کہ آنے والے آرمی چیفس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

جنرل گریسی(برطانیہ)،فیلڈ مارشل ایوب خان ( ترین پٹھان ، ضلع ہزارہ)،آغا یحیٰی خان(پٹھان، قزلباش)،جنرل گل (پٹھان) ، جنرل ٹکا خان (راجپوت ، راولپنڈی) ،جنرل ضیا ء الحق (آرائیں ،جالندھر)، جنرل اسلم بیگ (کراچی)،جنرل آصف نواز (جنجوعہ راجپوت،جہلم )،جنرل وحید کاکڑ(پٹھان، خیبر پختونخوا/بلوچستان)،جنرل جہانگیر کرامت (ککے زئی،لاہور)،جنرل پرویز مشرف (اردو سپیکنگ سید ،دہلی بعد ازاں کراچی) ،جنرل اشفاق پرویز کیانی(کیانی ، راولپنڈی) ،جنرل راحیل شریف (کشمیری راجپوت ،گجرات) اور اب جنرل قمر جاوید باجوہ (جاٹ،گوجرانوالہ)

کمان کا تسلسل اور تقابل

چین اسموکر فلسفی جنرل پرویز کیانی کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ ہر بات کا ٹھنڈے دل اور باریک بینی سے جائزہ لیتے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں جنرل راحیل شریف اپنے امیج کو بہتر بنانے کیلئے فکر مند رہتے اوربہتر سے بہترکو ریج سے اس تاثر کو قائم رکھتے ۔

جنرل کیانی نے فوج میں دہشتگردوں سے لڑنے کی صلاحیت اور حوصلہ پیدا کیا اور جہادی ذہن کے لوگوں کو قومی مفاد کی طرف راغب کیا جبکہ دوسری طرف جنرل راحیل شریف نے سول حکمرانی کے خلاف متبادل کردار اپنایااور اپنے عہد کے اختتام تک اپنے فوجی متبادل بیانیے کے ذریعے اپنے آپ کو عظیم بنائے رکھا ۔

قمر جاوید باجوہ نمود و نمائش، بلند و بالا دعوںاور سستی شہرت کے قائل نظر نہیں آتے بلکہ نہایت عاجزی اور انکساری سے لوگوں میں گھل مل جاتے ہیں۔انہوں نے کبھی فلسفہ دان ہونے کا دعویٰ کیااور نہ یہ انہیں یہ وہم ہے کہ وہ بہت بڑے دانشور ہیں۔انہوں نے اپنی طاقت کے بلند و بانگ دعوے بھی کبھی نہیں کئے ۔وہ اپنے مقررہ وقت پر ریٹائر ہونا چاہتے ہیں اور مدت ملازمت میںکسی بھی قسم کی توسیع کے قائل نہیں ہیں ۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے کبھی بھی طاقت ور فیلڈ مارشل بننے کی کوشش نہیں کی کیونکہ انہیں جوملا ہے وہ اس پرقانع ہیں ۔وہ جنرل راحیل شریف کی طرح جارحانہ طرز عمل کے قائل ہیں اور نہ ہی جنرل کیانی کی طرح فلسفیانہ سوچ کے حامل ۔ملنسار، حقیقت کے قریب اور مسائل کو درست سمت میں دلائل کے ذریعے حل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔

ان سب سے باتوں بالا تر باجوہ ڈاکٹرائن ماضی سے سیکھنے کے لئے تیار ہے ۔جنرل باجوہ ذاتی طورپر جنرل مشرف کی طرح تحمل سے سننے والے اور منطقی سوچ کے حامل لوگوں کی تعریف کرتے ہیں اور افراد سے تعلقات میں وہ گہرا اور مشفق انداز اپناتے ہیں ۔

اصل امتحان

کسی بھی ڈاکٹرائن یا نظریہ کی کامیابی کا پتہ اس کے ارادوں سے نہیں بلکہ نتائج سے لگتاہے ۔ یہ فیصلہ تو تاریخ کرے گی کہ باجوہ ڈاکٹرائن کامیاب رہا یا ناکام؟ ۔ماضی کی مثالیں سامنے رکھیں تو جب لوگوں کے پاس طاقت آتی ہیںتو اپنی اہم ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتے اور اپنا وقت غیر اہم کاموں میں صرف کرتے ہیں ۔وقت کی ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کو بیرونی خطرات سے بچایا جائے ، غیر حقیقی بیانیہ سے نکل کر حقیقت پسندی کی طرف آیا جائے اور ملک کو معاشی اور سیاسی طور مستحکم کیا جائے ۔

سیاست میں غیر جانبدارانہ انداز اپنایاجائے یہی وہ حکمت عملی ہے جس کے ذریعے باجوہ ڈاکٹرائن کامیابی کے امتحان پر پورا اتر سکتاہے۔

 باجوہ ڈاکٹرائن : قومی چیلنجز کا حل کیسے؟


تازہ ترین