• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خطرات اور محفوظ پیش رفت کے درمیان توازن

(رچرڈ برنسن)

ورجن گروپ میں کام کرنے والے افراد اور اس برانڈ کے تحت چلنے والے بزنس کی تعداد غیرمعمولی ہے۔ ہم موسیقی سے لے کر ریلوے اور ہوٹلنگ تک، بہت سے شعبوں میں کام کررہے ہیں۔ لوگ اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ اپنے گروپ کی اس روش ، خاص طور پر اس نکتے کی وضاحت کروں کہ ہم سرمایہ کاری کرنے کے لیے کسی شعبے اور کسی ملک کا انتخاب کیسے کرتے ہیں۔ اس کا ایک مختصر جواب ہماری خطرات مول لینے کی عادت ہے ۔

زندگی میں کچھ سادہ سی اقدار اور عزائم پر کاربند رہنا بہتر رہتا ہے ۔ یہی اصول بزنس پر صادر آتا ہے ۔ ہماری گائیڈ لائن یہ ہے کہ اگرکوئی نیا بزنس ہمارے برانڈ کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو ہمیں اس میں سرمایہ کاری نہیں کرنی چاہیے ۔ جب ہم نئے کاروبار میں قدم رکھتے ہیں تو ہمارا پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ ہر بزنس تصور کی جانچ اپنے برانڈ کے اصولوں پر کریں۔ یہ جانچ ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم آگے بڑھیں یااس سے گریز کا آپشن اپنائیں۔

 دونوں صورتوں میں ہم ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ مثال کے طور پر ہم سگریٹ ساز کمپنی یا دفاعی سازو سامان کی تیاری کا کنٹریکٹ حاصل نہیں کریں گے ۔ زندگی بہت مختصر ہے، اور ہم اس سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ اس سے وابستہ دو ہدایات باہم مربوط ہیں۔ ہما را خیال ہے کہ کسی نئی مارکیٹ میں داخل ہونے کے لیے کم از کم یہ محرک موجودہو کہ ہماری وجہ سے کسی صنعت کو فروغ حاصل ہوگا۔ 

ہماری بزنس مہم جوئی کے پیش نظر ہمیشہ یہ سوچ ہوتی ہے کہ کیا ہم کوئی ایسی پراڈکٹ یا سروس فراہم کرسکتے ہیں جس کی لوگوں کو درحقیقت ضرورت ہو ۔ ہم اس بات کا گہرا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا مارکیٹ میں ہمارا داخلہ مثبت رد عمل پیدا کرے گا یا نہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ نفع کمانا ہمارا اولین مقصد نہیں ہوتا۔

 شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہے کہ میں نے ، یا میری ٹیم نے کسی کاروبار میں صرف دولت کمانے کے پہلو کو مدِ نظر رکھا ہو۔ میں اس سوال کو سامنے رکھتے ہوئے سرمایہ کاری کرنا بے مقصد سمجھتا ہوں: ’’میں بہت زیادہ دولت کس طرح کما سکتا ہوں؟‘‘یقینا ہم منصوبہ سازی کرتے ہیں، لیکن نفع کمانا اس کا اولین مقصد نہیں ہوتا۔ اگر یہ بات بزنس مشیروں کے سامنے رکھی جائے توایک عجیب صورت ِحال سامنے آئے گی۔ 

کنسلٹینٹس کہیں گے یہ تصور کامیاب رہے گا، تو ممکن ہے کہ اکائونٹینٹس کا خیال ہو کہ یہ ایک ناکام تصور ہے ۔ اور وہ اعدادوشمار سے یہ بات ثابت بھی کردیں گے ۔

جب یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہوکہ کیا ہمیں آگے بڑھنا چاہیے یا قدم پیچھے ہٹا لینا چاہیے،تو یہ فیصلہ آپ کے دل سے آئے ۔ اگر آپ اس کام کا والہانہ شوق رکھتے ہیں تو آپ کے تصور کی کامیابی کے روشن امکانات موجود ہیں۔ میں نے اپنے کیرئر کے آغاز سے اپنے جذبات کی پیروی شروع کردی تھی۔

 جب میں نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر اسٹوڈنٹ میگزین نکالاتو اس کا مقصد ایسے نوجوانوں کی آواز کو سامنے لانا تھا جوویت نام کی جنگ روکنے کی مہم چلا رہے تھے ۔ جہاں تک بزنس کے عملی معروضات کا تعلق ہے، جیسا کہ بل ادا کرنا، تو ان پر ہم نے بعد میں کام کیا۔ ہمیں امید تھی کہ ہم اتنی کاپیاں فروخت کرلیں گے کہ کاروبار کو جاری رکھ سکیں ۔ اُس کے بعد ہم نے مارکیٹ میں خلا دیکھ کر بزنس امکانات کو آگے بڑھانے کی پالیسی بنالی۔ ہم نے بلوںکی ادائیگی کا تخمینہ پہلے کبھی نہیں لگایا۔ 

ہماری ائیرلائن اس ضمن میں ایک کلاسک مثال ہے ۔ اس صنعت میں داخل ہونے سے پہلے مجھے ورجن میوزک کے سلسلے میں بہت سفر کرنا پڑتا تھا۔ مجھے اکثر سفر کے دوران اگر تکلیف دہ نہیں تو بھی بے کیف اور اکتادینے والے حالات کا سامنا رہتا۔ میں نے محسوس کیا کہ اگر ہم سروس پر تو جہ دیں ، دوران ِ پرواز کچھ تفریح بھی فراہم کردیں تو ہم کامیاب ہوسکتے ہیں۔

 کئی برسوں سے میں اور میرے ساتھیوں نے خطرہ مول لینے شہرت حاصل کرلی ہے ۔ یہ درست ہے کہ ہم بے خوفی سے کسی شعبے میں قدم رکھتے ہیں ۔ بعض شعبے تو ایسے تھے جن کی طرف پیش رفت کرنے سے بعض نام نہاد بزنس ماہرین نے ہمیں منع کیا۔ اُ ن کا کہنا تھا کہ ہم نہیں جانتے کہ ہم کس مصیبت کو دعوت دے رہے ہیں۔

اس دوران ایک حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے ۔ اگر چہ دکھائی یہی دیتا ہے کہ ہم بے دھڑک خطرات مول لے لیتے ہیں لیکن اس دوران ہمارے افعال ایک اصول کی سختی سے پیروی کررہے ہوتے ہیں: گراوٹ سے ہر صورت میں بچنا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ہر نیا کاروبار شروع کرنے والے کو کم از کم اس ایک اصول کی پیروی کرنی چاہیے۔ 

مثال کے طور پر جب ہم نے میوزک کی دنیا سے چھلانگ لگا کر ائیرلائنز کی فضائوں میں قسمت آزمائی کی تو میں نے ایک شرط رکھی: بوئنگ کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے میں نے اُن کے ساتھ طے کیا کہ اگرلوگوں کو ہماری ایئرلاین پسند نہ آئی ہم پہلے سال کے اختتام پر جہاز واپس کردیں گے ۔ اس کا مطلب یہ کہ میں اس بات کے لیے تیار تھا کہ اگر مسافروں نے ہماری سرپرستی نہ کی تو واپسی کا کیا راستہ ہوگا۔ اس دوران ورجن ریکارڈزپر میرے ساتھی اپنی اپنی ڈیوٹی پر موجود تھے ۔ ہم نے ایک اور جرات آزمائی کی ۔

 یہ دنیا کے مختلف ممالک میں موبائل ٹیکنالوجی ، فنانشل سروسز اور ہیلتھ کلبس کے شعبہ جات تھے ۔ ہم نے ہمیشہ اس بات کو یقینی بنایا کہ اگر معاملات خراب ہوگئے تو واپسی کا راستہ کھلا رہے ۔ آپ نے سب سے پہلے اپنے کولیگز کو تحفظ دینا ہوتا ہے ۔ یہ کام کرنے والے لوگ ہیں جو کسی کمپنی، چاہے وہ چھوٹی ہویا بڑی، بناتے ہیں۔ اگر معاملات خراب ہورہے ہیں تو قدم پیچھے ہٹانے میں کبھی گریز نہ کریں۔اس کے لیے آپ کو اپنی ٹیم سے بات چیت کرنے اور ان کی بات دھیان سے سننے کی ضرورت ہے ۔

© 2018 رچرڈ برنسن (نیویارک ٹائمز سنڈیکٹ کا تقسیم کردہ) 

تازہ ترین