اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے معروف سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اپنی پارٹی کی جانب سے نگراں وزیر اعظم نامزد کرکے سب پر سبقت حاصل کرلی ہے۔
نگراں وزیر اعظم یکم جون کو عہدہ سنبھالیں گے‘وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کا اس بابت مشاورت کرنا باقی ابھی باقی ہے۔
دوسر ی جانب آئینی طور پر اس حوالے سے مشاورت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کرنی ہے ، جنہوں نے اب تک باقاعدہ بات چیت کا آغاز بھی نہیں کیا ہے۔تاہم اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا تھا کہ انہیں کوئی سرکاری عہدہ دینے کے لیے امریکاسے اجازت لینا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے عہدوں کا شوق نہیں ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر کی بات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حتمی طور پر انہیں کسی طور پر عبوری وزیر اعظم منتخب نہیں کیا جائے گا۔
سراج الحق کو بھی شاید اس بات کا اندازہ ہوگا ، تاہم انہوں نے پھر بھی اپنی پارٹی کی جانب سے ان کا نام لیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عبدالقدیر خان نے پاکستان کو اسلامی ایٹمی قوت بنایا ، جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔پرویز مشرف ، امریکا کے سخت دبائو میں آگئے تھے اور انہوں نے ان پر پابندیاں عائد کردی تھیں یہاں تک کے انہیں ان کے گھر پر ہی نظر بند کردیا تھا۔جب کہ بھارت نے اپنے ایٹمی سائنسدان کو عزت بخشتے ہوئے ملک کا صدر بنادیا تھا۔اس لیے مشرف کی اس ناانصافی کا ازالہ کرنا ضروری ہے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کی خدمات کے صلے میں عزت افزائی کرنا ضروری ہے۔
نگراں وزیر اعظم یکم جون کو اپنا عہدے سنبھالیں گے۔اس سے قبل وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف اس حوالے سے تفصیلی مشاورت کریں گے ۔اس عمل میں وزیر اعظم ، ن لیگ کی تمام اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے ، جب کہ خورشید شاہ، حزب اختلاف کی تمام جماعتوں سے مشاورت کرکے متفقہ نام پیش کریں گے.
جیسا کہ انہوں نے چیئرمین نیب، چیف الیکشن کمشنراور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چار ارکان کے انتخاب کے وقت کیا تھا۔دونوں مواقعوں پر جماعت اسلامی کی ترجیحات خورشید شاہ کے نامزد کردہ ناموں میں شامل تھی۔
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان پروان چڑھتی انسیت کو مد نظر رکھتے ہوئےکہا جاسکتا ہے کہ قائد حزب اختلاف عمران خان کے تجویز کردہ نام پر زیادہ غور فکر کریں گے ۔تاہم ان مشاورتوں کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے، کیوں کہ آئینی طور پر صرف وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف ہی اس مشاورتی عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔