جس طرح قدرت نے دنیا کو خوبصورت اور دلکش بنانے کے لئے رنگوں کا سہارا لیا ہے اسی طرح انسان نے بھی ہمیشہ اپنی ارد گرد کی چیزوں کو خوبصورت بنانے کے لئے انہیں رنگوں سے سجانے کی خوب کوشش کی ہے۔ انسان کی اس کاوش کی ایک بہت بڑی اور زندہ مثال ’’ٹرک آرٹ‘‘ ہے۔
ٹرک آرٹ پاکستان میں ایک قدیم فن ہے اور عرصہ دراز سے لوگ اس فن سے وابستہ ہیں۔ہزاروں گھر ایسے ہیں جن کا چولہا اس آرٹ کی بدولت جلتا ہے۔ ٹرک کو سجانے کے لئے ورکشاپ میں لایا جاتا ہے۔ یہ مرحلہ ٹرک ڈرائیور اور مالک کے لئے انتہائی خوشگوار ہوتا ہے۔
ٹرک والے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کا ٹرک سب سے منفرد اور خوبصورت نظر آئے اور اس لئے وہ پیسوں کی پرواہ کئے بغیر اپنی خواہش کی تکمیل کروانا چاہتا ہے اور کام شروع کروا دیتا ہے۔
ٹرک مالک کاریگر کو بتاتا ہے کہ اس ٹرک پر کس طرح کا کام کروانا ہے اور پھر ٹرک آرٹ ماسٹر اسے اس کام کا معاوضہ بتاتا ہے۔ ایک ٹرک کو سجانے کے لئے کم از کم تیس دن کا عرصہ درکار ہوتا ہے اوراس پر تقریباً دو سے تین لاکھ کا خرچہ آتا ہے۔ ٹرک کی سجاوٹ کے دوران تقریباً تین کاریگر روزانہ اس پر کام کرتے ہیں۔
ٹرک آرٹ ماسٹر ان کاریگروں کی رہنمائی کرتا ہے اور سجاوٹ کے لئے ہر طرح کا سامان مہیا کرتا ہے۔ ٹرک آرٹ ماسٹر کو ایک ٹرک کے لئے تقریباً 50ہزار مزدوری دینا پڑتی ہے۔ تقریباً اتنے ہی پیسے سجاوٹ کی تمام اشیاء کی فراہمی میں لگ جاتے ہیں۔
سب سے پہلے ٹرک کا فریم اور باڈی تیاری کی جاتی ہے۔ ٹرک کو سجانے کے لیےخوبصورت چیزوں کا استعمال کیا جاتاہے جن میں جھالریں ،پراندے اور خوبصورت موتیوں سے تیار شدہ سٹیرنگ کور قابل ذکر ہیں۔سجاوٹ کا یہ سامان لاہور میں ٹرک اڈوں اور بند روڈ کی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں بنایا جاتا ہے۔ ہاتھ سے بنائے گئے اسٹیکرز، چمک پٹی، چادر، گتے، ایلومینیم، شیٹ، گھنگرو، زنجیریں اور پینٹ بھی ٹرک کی سجاوٹ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
کسی بھی ٹرک کی سجاوٹ کے بنیادی طور پر تین حصے ہوتےہیں سب سے پہلے سامنے ونڈ سکرین کا حصہ سجایا جاتاہے جس کے اوپر والا حصہ بالعموم مذہبی دعائوں وغیرہ کے لیے مختص ہوتا ہے جبکہ پچھلے حصہ پر مختلف اشعار لکھے جاتےہیں ۔
ٹرک آرٹ کا دوسرا حصہ اس جگہ پر مشتمل ہوتا ہے، جہاں بالعموم مختلف رنگوں کی مد سے ٹرکوں کے مالک یا کمپنی کا ذکر کیا جاتاہے۔ٹرک کی سجاوٹ کا سب سے اہم اور دلچسپ اس کا پچھلا حصہ ہوتا ہے جس پر ڈرائیور کی پسند کے مطابق اہم شخصیت کی تصویر یا کسی خوبصورت وادی کی تصویر بنائی جاتی ہے اور حالات کے مطابق یہ تصویر تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔
ٹرک ڈرائیورز اپنے ٹرکوں کو اس طرح سجاتے ہیں جیسے یہ ان کا گھر ہو کیونکہ وہ مہینوں اپنے گھر سے دور رہتے ہیں۔سجاوٹ میں تعمیراتی پینٹنگز، خطاطی، اور زیورات سے سجاوٹ شامل ہے ۔ ٹرک کے اگلے اور پچھلے حصوں پرشیشے کا کام جبکہ ٹرک کے دروازوں پر لکڑی کا خوبصورت کام نظر آتا ہے۔
اس کے علاوہ مختلف تاریخی مناظر اور شاعری بھی ٹرک کی سجاوٹ میں شامل ہے اور ٹرک آرٹ کی پہچان بن گئی ہے۔اس کے علاوہ زنجیریں اور پینڈنٹس اکثر سامنے بمپر کی خوبصورتی بڑھانے کے لئے لٹکائے جاتے ہیں۔ ٹرک آرٹ میں حیدر علی کا نام بہت مقبول ہے جسے2002میں بین الاقوامی توجہ تب حاصل ہوئی،جب اس نے سمتھ سونین فوک لائف فیسٹیول میں حصہ لیا اور ایک پاکستانی ٹرک کو پینٹ کیا۔ کراچی، ٹرک فن کا ایک بڑا شہر ہے۔
لاہور کے ٹرک آرٹ ماسٹرز کا کہنا ہے کہ ان کے پاس مختلف شہروں جیسا کہ مردان، کالام، باجوڑ ایجنسی سے لوگ اپنے ٹرک کی سجاوٹ کے لئے آتے ہیں۔ یہاں پر ان کے پاس ہر قسم کی سجاوٹ کی اشیاء موجود ہوتی ہیں۔ زیادہ ترلوگ اسلام آباد اور راولپنڈی سے آتے ہیں جو ٹرک کو سجانے کے بہت شوقین ہوتے ہیں۔
بلوچستان اور پشاور کے ٹرکوں میں زیادہ تر لکڑی کا کام ہوتا ہے۔جبکہ راولپنڈی اور اسلام آبادکے ٹرکوںپر اکثر پلاسٹک کا خوبصورت کام جبکہ اونٹ کی تصاویر اور سرخ رنگ سے سجا ہوا ٹرک سندھ کے آرٹ کی عکاسی کرتا ہے۔بھارت میں دہلی کے فنکار تلک راج دھیر کہتے ہیں کہ وہ جو نعرے ٹرک پر لکھتے ہیں،وہ اکثر سماجی سیاسی ماحول کے ساتھ تبدیل ہوجاتے ہیں۔
اگرچہ جنوبی ایشیا میں کاروں کو روایتی طور پر سجایا نہیں جاتا ہے لیکن اب وہاں ٹرک آرٹ انداز میں کاروں کو سجایا جاتا ہے۔2009 میںایک شاندار کارفوکسی، 1974 وی ڈبلیو بیٹل کو ایک ٹرک آرٹ سٹائل میں سجایا گیا،جس نے 25 دن تک پاکستان اور فرانس کا سفر کیا۔ بیرون ملک، ٹرک کی سجاوٹ پرہزاروں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔
ٹرک ماسٹرز بتاتے ہیں کہ ان کو اس کام میں 30سے 32سال کا عرصہ ہوگیا ہے ان کی رہنمائی میںسات سے آٹھ کاریگر کام کرتے ہیں جن کی عمر تقریباً 20 سے30سال تک ہوتی ہے اور ان کو روزانہ تقریباً 400مزدوری دی جاتی ہے۔ ٹرک آرٹ میں اگر پیٹنگ نہ ہو تو یہ آرٹ نامکمل نظر آتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ پینٹر نے دنیا کے تمام رنگ ایک ہی ٹرک پربکھیر دیئے ہیں۔
ٹرک پینٹنگ میں اس قدر خوبصورت مناظر پینٹ کئے جاتے ہیں کہ ہر آنکھ دیکھتی ہی رہ جاتی ہے۔ ٹرک پینٹنگ میں پھول کی پتیوں اور پرندوں کی تصاویر کے علاوہ مشہور رمقامات کی سینریاں بڑے خوبصورت انداز میں پیش کی جاتی ہیں۔
ٹرک پینٹنگ میں اہم شخصیات کی تصاویر اور شعر و شاعری لکھنے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ ٹرک پر کی جانے والی پینٹنگ اور کیلی گرافی بڑے زبردست انداز میں پاکستانی ثقافت کی عکاسی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس آرٹ کے ذریعے مختلف علاقوں کی ثقافت کو بڑے دلکش انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔
پینٹرز ٹرک آرٹسٹ کا کہنا ہے کہ وہ یہ آرٹ بہت محنت سے کرتے ہیں اور وہ اس سے ماہانہ 20 سے 25ہزار تک کما لیتے ہیں۔ وہ خود ہی ڈیزائن بناتے ہیں ۔ آئل پینٹس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سات نیچرل کلرز کے علاوہ باقی رنگ وہ خود بناتے ہیں جن سے ٹرک کو پینٹ کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم جب اپنے بنائے ہوئے ٹرک سڑک پر دیکھتےہیں تو ہمیں بہت خوشی ہوتی ہےاور لوگ بھی بہت تعریف کرتے ہیں۔ ٹرک آرٹ کا ایک اور خوبصورت اور تاریخی پہلو اس کے لکڑی کے بنے ہوئے خوبصورت دروازے ہیں۔ اس مقصد کے لئے شیشم کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔ ان دروازوں کو بنانے کے لئے ٹرک آرٹ ماسٹر ایک اور کاریگر سے رابطہ کرتا ہے۔
ٹرک آرٹ جنوبی ایشیا میں علاقائی سجاوٹ کی ایک مقبول شکل ہے، جس میں پھولوں کے وسیع پیٹرن اور خطاطی خصوصیات کے حامل پاکستانی اور ہندوستانی ٹرک شامل ہیں۔ پاکستانی بسیں بھی فن کے خوبصورت شاہکار کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ٹرک اور بسوںکے مالکان اپنی مرضی کے مطابق ان کو خوب سجاتے ہیں۔
بھارتی شہر ممبئی میں، کچھ ڈرائیورز اپنی ٹیکسیوں کو ٹرک آرٹ سٹائل میں سجاتے ہیں۔پاکستانی ٹرکوں کے رنگوں اور ڈیزائنز نے بہت سے فیشن ڈیزائنرز کو متاثر کیا ہے۔
مشہور برانڈز کے ڈیزائنرز اکثر اس آرٹ کو خواتین کے ملبوسات اور زیورات پر ڈیزائن کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اس طرز پر مختلف کیفے اور ریسٹورنٹس بنائے جاتے ہیں جن کے شوخ رنگ نوجوانوں کو محظوظ کرتے ہیں۔سڑکوں پر چلتی گاڑیوں کی تزئین وآرائش پاکستانی ثقافت کی آئینہ دار ہے جو کہ ہمارے ماہر کاریگروں کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
کسی بھی خوبصور ت ٹرک پر نظر ڈالنے کے بعد سب سے پہلی چیز جس پر نظر پڑتی ہے وہ اس کے خوبصورت رنگ ہیں ۔پاکستان کے خوبصورت ٹرک خواہ وہ ملک کے کسی بھی حصے میں بنایا گیا ہوجب کسی دوسرے علاقے میں چلتا نظر آتا ہے تو وہ دراصل اپنے ملک اور علاقے کی عکاسی کرتا ہے اور دیکھنے والوں کے دل میں حب الوطنی کااحساس جگاتا ہے۔