• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مایا سرمایا: کوئلے سے بجلی کی پیداوار باعث تخریب کیوں؟

مایا سرمایا: کوئلے سے بجلی کی پیداوار باعث تخریب کیوں؟

سائنس کے بارے میں دنیا دو مکاتب فکر میں تقسیم ہے، ایک کا موقف ہے کہ دنیا میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے، وہ سائنس کی موہون منت ہے، مثلاً انفارمیشن ٹیکنالوجی، نیوکلیئر، وائرلیس ، سیلولر فونز، ٹیلی ویژن، خلائی پرواز چاند کی تسخیر، آواز سے تیز جہاز، دل اور گردے کی پیوندکاری مختلف بیماریوں پر کنٹرول و علاج، گھریلو آسائشیں، ایئرکنڈیشنر، فرج وغیرہ نشر و اشاعت کی دریافتیں، جدید مشینوں جیسی سہولتیں یہ سب سائنس ہی کے کرشمے ہیں ، لیکن آب و ہوا کی تبدیلی، صنعتی فضلا، زہریلی گیسیں اور ان کا اخراج، طبی فضلا اور انسانی فضلے کو ٹھکانے نہ لگانا ، سمندری زندگی کی تباہی اور کاربن سے دُور دُور تک تیزابی بارشوں کا برسنا زحمت کے ساتھ انسانی زندگی کا مفقود ہونا، سائنس نے ایٹمی اور کیمیائی اسلحہ بناکر صفحہ ہستی سے انسان کو نابود کرنے کا سامان کردیا ہے۔

اس سے زمین، سمندر اور ہوا تینوں میں آلودگی کے پھیلائو سے زندگی میں میکانیت آگئی ہے ،جس میں سانس لینا بھی دشوار ہوگیا ہے۔

 کہیں سیلاب اور کہیں خشک سالی، انسان، انسان نہیں رہا روبوٹ بن رہا ہے، احساس ختم ہورہا ہے، فطرت سے دُور ہوچکا ہے۔ اس موقف کے حامی سائنس کو زحمت قرار دیتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے اور سائنس خود حقیقت نہیں، بلکہ حقیقت کی تلاش کا ایک ذریعہ ہے، لیکن انسان اسلحہ سازی اور آب و ہوا کی تبدیلی اور کوئلے سے بجلی پیدا کرکے کاربن میں اضافہ کررہا ہے۔ 

عجب سانحہ یہ بھی ہے کہ پاکستان اور دنیا کے لاتعداد ملکوں نے کاربن کے پھیلائو اور اس کےاخراج کے خلاف پیرس کا معاہدہ کررکھا ہے۔ اس کی خلاف ورزی کھلے عام ہورہی ہے، نہ کوئی امریکا سمیت اس بارے میں سنجیدہ ہے نہ کسی کو کرہ ارض کی تباہی کا احساس ہے۔

لالچ، ہوس، منافع اور سود خوری نے لگتا ہے کہ انسان کو انسان پر فتح پانے کے ساتھ فطرت پر حاوی آنے کی خواہش نے انسان کو درندہ بنادیا ہے، اس لیے سائنس کا صحیح یا غلط استعمال ہی اس کو ذریعہ تعمیر یا باعث تخریب بناتا ہے۔2016 میں پاکستان نے دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پیرس معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔

یہ آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف اقدامات کرنے کا معاہدہ ہے، جس سے کرہ ارض کی حدت میں کہیں کمی کہیں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ کہیں سونامی اور کہیں خشک سالی سےزراعت اور انسانی زندگی تباہ ہورہی ہے۔ حال ہی میں بتایا گیا ہے کہ کیپ ٹائون میں پانی بالکل ختم ہوگیا ہے، چین، پاکستان اور پولینڈ میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تعمیر کئے جارہے ہیں۔

چین میں ایک علاقہ کاربن کے پھیلائو سے رہنے کے قابل نہیں رہا۔ پولینڈ کے ایک علاقے میں جہاں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس لگائے گئے ہیں،وہاں آدھی آبادی اسپتالوں میں دمہ اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہے اور آدھی دنیا جو وہاں آباد ہے ماسک لگاکر باہر نکلتی ہے۔ پاکستان میں چین کی مدد سےسی پیک کے تحت کئی کوئلے کے پلانٹس تعمیر کئے جارہے ہیں۔

2020 میں ساہیوال میں 6900 میگاواٹ بجلی کوئلے سے پیدا کی جائے گی، جس کا کل ہدف 1320میگاواٹ ہے۔یہ پیرس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے، کیونکہ اس کا آب و ہوا سے براہ راست تنازعہ ہے۔ فوسل فیول (Fossil Fuel) جس کے معنی یہ ہیں کہ ماضی کے کسی ارضیاتی دور کے پودے یاجانور کے ڈھانچے قدیم نہایت گلے سڑے یا بقیہ آثار جو زمین کی سطح یا طبقات میں سے دریافت ہوئے ہوں، زمین کندہ یا زمین سے کھود کر نکالا ہوا، متحجد، رکازی، عہدپارینہ کا رد شدہ نظام، پرانا، متروک، غیر مستعمل، یعنی ان مردہ آثار سے فیول بنایا جاتا ہے۔

مایا سرمایا: کوئلے سے بجلی کی پیداوار باعث تخریب کیوں؟

ایک تو گاڑیوں، بیل سے اس کا اخراج اور دوسرا کوئلے سے کاربن کا اخراج آب و ہوا کےلیے قیامت خیز بن رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی سے فوسل فیول پیدا کیا جارہا ہے۔سب سے زیادہ مہلک کوئلے سے بجلی پیدا کرنا ہے، عالمی سطح پر اس سے کاربن کا اخراج ہورہا ہے، جو آکسیجن کو ہضم کررہا ہے، اس لیے کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، اس ہوا میں آلودگی اسموک کی وجہ بن رہی ہے۔ پنجاب میں جسے دھند کہا جاتا تھا، آج یہ اسموک بن گئی ہے، جو کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا شاخسانہ ہے۔

گزشتہ جولائی میں سی پیک کے تحت ساہیوال میں 1320 میگاواٹ منصوبے کا آغاز کیا گیا اور ایک یونٹ پورٹ قاسم پر بھی قائم کیا گیا ہے ،جو 2x660 میگاواٹ کا ہے۔ اسے نیشنل گرڈ سے جوڑ دیا گیا ہے، حالانکہ ونڈ اور سولر انرجی شفاف انرجی ہے۔

دھوپ اور ہوا سے چلنے والے یہ منصوبے کراچی کےلیے نہایت مناسب ہیں ،لیکن چین نے کوئلے کو جانے کیوں ترجیح  دے رکھی ہے۔ پاکستان کے ماہرین بھی اس پر خاموش ہیں۔ پورٹ قاسم پر دوسرا منصوبہ 660 میگاواٹ کا جون 2018 میں شروع ہوگا۔ قطر سے LNG گیس بھی پورٹ قاسم پر اترے گی، یہ منصوبہ بھی متنازع ہے۔

بجلی اور اس طرح کے کئی منصوبوں کی پوشیدہ لاگت کا اندازہ کون لگائے، کیونکہ یہ ایک پراسرار معمہ ہے۔ ماہرین اس لیے نہیں بولتے کیونکہ وہ بھی پاکستان میں بہتی گنگا میں ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں، جس طرح  بڑے بڑے وکیل یہ جانتے ہوئے بھی کہ منی لانڈرنگ ہورہی ہے اور بڑے حجم میں ہورہی ہے، کون کررہا ہے، لیکن بولتے نہیں۔ورنہ مقدمات نہیں ملیں گے۔

سینٹ کے انتخابات سمیت یہ سب باتیں جو عوام دیکھ رہی ہے، یہ سب لبرل جمہوریت کا حسن ہے، جس میں کہا جارہا ہے کہ ملیریا کی سردی آگ تاپ لینے سے ختم ہوجائے گی۔ کوئی دوا کی ضرورت نہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ گوادر میں کوئلے سے 300 میگاواٹ کا ایک منصوبہ تعمیر کیا جارہا ہے، یہاں جو چار پاور جنریشن پروجیکٹس لگ رہے ہیں،اس کا کوئلہ امپورٹ کیا جائے گا، لیکن یہ معلوم نہیں بلوچستان چھملانگ میں جو کوئلہ بڑے پیمانے پر نکالا جارہا تھا، اس کا حشر ہماری حکومتوں نےکیا کیا ہے،جو صرف کرنسیاں گننا جانتی ہیں۔ البتہ سی پیک کے تحت تھرکول کو زیراستعمال لارہی ہے۔

یہاں اینگرو بڑا کام کررہی ہے اور حکومت سندھ بھی پہلی بار سنجیدگی سے کام کررہی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہاں سپر ٹیکنالوجی استعمال ہورہی ہے یا نہیں۔ سندھ میں قدرتی گیس بھی 67 فیصد پیدا ہورہی ہے۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ نئے شہر بسائے، تاکہ کراچی سے بوجھ کم ہو۔ سندھ کی غربت کو کم کرے۔

سندھ میں اینگرو تھر میں پاور منصوبہ 660 میگاواٹ لگارہی ہے۔ اسی طرح تھر انرجی 1320 میگاواٹ کا منصوبہ لگارہی ہے۔مٹیاری میں بھی ایک بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ لگایا جارہا ہے، لیکن منصوبہ سازوں اور ماہرین نے آلودگی کے تدارک کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ اینگرو کا ایک پروجیکٹ اکتوبر میں شروع ہونے والا ہے اور کچھ جون 2019 میں شروع ہوں  گے۔ تین مزید منصوبے آئی پی پی IPPنے شروع کررکھے ہیں، جو دسمبر 2020 میں مکمل ہوں گے۔

عجیب بات یہ ہے کہ چین نے بھی پیرس معاہدے پر دستخط کررکھے ہیں اور 195 ممالک نے دنیا بھر سے اس معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ چین نے اپنے ایک علاقے میں جہاں اندھیروں اور سیاہی کا راج کوئلے پلانٹس کی وجہ سے ہے۔ جنوری 2017 میں اچانک 103 کوئلے کے منصوبوں کو روک دیا ہے، جن کی لاگت 62 ارب ڈالر بنتی ہے اور انہیں گیارہ صوبوں میں تعمیر کرنا تھا۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کوئلے کے پلانٹس چین کی مدد سے پاکستان میں کیوں لگائے جارہے ہیں۔ بیجنگ میں شفاف ہوا کےلیےچینی حکومت نے ایک مہم بھی چلارکھی ہے، اسی لیے یہاں ایک کوئلے کا پلانٹ، جس نے 845 میگاواٹ بجلی پیدا کرنا تھی، گزشتہ مارچ کو اس منصوبے کو بند کردیا گیا ہے ، اسی طرح کے کئی کول پلانٹس 2014 میں بند کردیئے گئے۔ بیجنگ میں صاف انرجی کے تحت 27 منصوبے لگائےجارہے ہیں۔ یہ سب کے سب متبادل شفاف انرجی کے پلانٹس ہیں۔ ان سب کی گنجائش پیداوار 1300 میگاواٹ ہے۔ لیکن پاکستان میں کوئلے کے پلانٹس لگائے جارہے ہیں۔

بالکل اس کے برعکس چین کول فائیرڈ پلانٹس برآمد کررہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ چین تیسری دنیا میں ایک سو 100 سے زائد پاور جنریشن پلانٹس 21 ملکوں میں تعمیر کررہا ہے۔

کاربن کے بارے میں دنیا بھر میں اس سلسلے میں تشویش پائی جاتی ہے، لیکن چین سے کوئی سوال نہیںکررہا ہے۔ پاکستانی حکومتوں کو سوال کرنا نہیں ۔ حالانکہ پاکستان کے علاوہ یہ کوئلے کے منصوبے بنگلہ دیش، انڈونیشیا، مصر، ایران، ویتنام اور افریقی ممالک میں لگائے جارہے ہیں۔ چونکہ چین میں کوئلے کے تمام منصوبے بند کردیئے گئے ہیں، اس لیے ڈیزائن انجینئرنگ اور مشینری پہلے ہی تیار پڑی ہے۔

چینی کمپنیوں  کے 55 گیگاواٹ کی پیداوار منسوخ ہوگئی تھی، وہ اب مذکورہ ممالک میں لگائے جارہے ہیں،اس لیے یہ ٹیکنالوجی اور مشینری برآمد کی جارہی ہے، یہ ٹیکنالوجی بھی آئوٹ ڈیٹڈ اور متروک ہوچکی ہے اور پلانٹس کے ماڈل بھی پرانےہوچکے ہیں۔ پاکستان اور مذکورہ ملکوں کے ماہرین کے منہ میں زبان ہے تو اس بارے میں سچ بولیں۔

پیرس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک کیوں خاموش ہیں۔ ٹھیک تو کہا تھاانشورنس کمپنی کے مالک نے کہ ان کےلیے مرا ہوا آدمی زندہ آدمی سے زیادہ قیمتی ہے، اسی لیے تو ہیروئن اور گٹکا منافع کےلیے انسانوں کو پلایا اور کھلایا جارہا ہے۔

چین کے بینکوں کے مزے ہیں، وہ ان برآمد کردہ متروک کوئلے کے پلانٹس کےلیے قرضے فراہم کررہے ہیں، لیکن سود پورا لیں گے۔ پاکستان اس وقت 89 ارب ڈالرز کے بیرونی قرضوں کی انتہا کو پہنچ گیا ہے،جس میں چین کے 60 ارب ڈالرز کے قرضے شامل نہیں ہیں۔پاکستان میں سینٹ سینٹ کا کھیل کھیلا جارہا ہے، یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ جہالت پھیلائو اور کک بیک کھائو اور باہر کے ملکوں میں رہو۔

پاکستان کی عوام کو جہالت کی افیون پلائو، کیونکہ جہالت کی کوئی ویکسین نہیں ہے۔ کوئلے کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ اس میں جس قدر استعداد کار ہوگی، اس کا تصرف کی استعداد کار اتنا ہی کم ہوگا۔ ماہرین کو بتانا ہوگا کہ ایسا کیوں ہے؟ چین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے کاربن کا اخراج کم ہوگا۔ ظاہرہے نالائق آدمی کم کام ہی کرے گا۔ روایتی ’’سب کریٹی کل‘‘ ٹیکنالوجی، جس کی استعدادکار 33 سے 38 فیصد ہے، وہ متروک ہوچکی ہے۔

تکنیکی طور پر جو’’سپر کریٹی کل‘‘ ٹیکنالوجی کی بات ہورہی ہے،اس پر جرمن تحقیق کررہا ہے، تاہم اس کی استعداد کار 48 فیصد ہے، اس کا کوئلہ 565 سی درجہ حرارت پر آپریٹ کرتا ہے، اس کا دبائو 250 بار ہے۔ جرمنی کی تحقیق کے مطابق اگر اسے 700 سی تک بوائل کیا جائے تو پھر استعداد کار 50 فیصد ہوسکتی ہے، لیکن المیہ دیکھیں کہ گوادر میں سب کریٹی کل ٹیکنالوجی پر پلانٹ لگائے جارہے ہیں، یہاں شفاف پانی کےلیے ڈی سیلی نیشن پروجیکٹس اب تک نہیں لگائے گئے۔

کہتے ہیں کہ سپر کریٹیکل ٹیکنالوجی پلانٹس ساہیوال، پورٹ قاسم، چین حب پاور پلانٹ میں لگائے جارہے ہیں، جن کی استعداد 50 فیصدہوگی، لیکن سائیڈ افیکٹ کوئلے ہی کے ہوں گے، کیونکہ ان میں اسٹیٹ آف دی آرٹ  ایڈوانس ٹیکنالوجی کے سپر کریٹیکل ٹیکنالوجی نہیں لگائی جارہی ہے، جو کاربن کا توڑ ہے، کیونکہ یہ زیادہ مہنگی ہے۔ پاکستان میں جتنے ماڈل پلانٹس لگائے جارہے ہیں، وہ ایک ہزار میگاواٹ سے کافی کم ہیں اور عالمی ماہرین کی رائے ہے کہ ایک ہزار میگاواٹ کے سول فائیرڈ پلانٹ عالمی سطح پر زیادہ تکنیکی لحاظ سے اچھے سمجھے جاتے ہیں اور اقتصادی طور پر ان کی لاگت بھی کم ہے۔ چین تو اپنے ملک میں سپر ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہے، لیکن پاکستان میں متروک ٹیکنالوجی پر کام ہورہا ہے۔

 مستقبل میں پاکستان میں جتنے کول پلانٹ لگائے جارہے ہیں، مقامی کوئلے کو استعمال کریں گے، لیکن ماحول کا کیا ہوگا؟ یہ کوئی نہیں سوچتا جو المیہ ہے۔

تازہ ترین